ترکی کچھ سالوں سے عالمی صحافت کے موضوعات میں نمایاں طور پر شامل ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ ناٹو کے اس اہم رکن اور امریکہ کا شروع دن سے اتحادی ہونے کے ناتے، سرد جنگ کے زمانے اور اس کے بعد بھی اس کا علاقائی سیاست اور عالمی سیاست میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ پہلی خلیجی جنگ کے بعد اس کی سرحدوں کے گرد جنگوں نے جنم لینا شروع کیا تو اس ملک کے عالمی کردار اور اندرونی سیاست میں بڑی تیزرفتار تبدیلیاں ہم دیکھتے ہیں۔ خصوصاً دوسری خلیجی جنگ جو 2003ء کے بعد عراق پر امریکہ کی بھرپور اور مکمل یلغار کے تحت ہوئی۔ اگر ہم ترکی کی اندرونی سیاست اور پھر وہاں برپا سیاسی تبدیلیوں کا غور سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ترکی کی اندرونی سیاست پر عالمی سیاسی تبدیلیوں اور اندرونی سیاست کا عالمی تبدیلیوں کے ساتھ کیا تعلق اور اثرات ہیں۔
عراق پر امریکی یلغار کی منصوبہ بندی افغانستان پر امریکی یلغار کے ساتھ ہی ہوگئی۔ اس دوران ترکی کے اندر سیاسی تبدیلیوں نے یکایک کروٹیں لینا شروع کردیں۔ روایتی دائیں بازو کی جماعت رفاہ پارٹی (بعد میں فضلیت پارٹی) جس کی قیادت نجم الدین اربکان کرتے تھے اور جو ترکی میں متعدد بار لبرل اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ترکی میں حکومت اور جمہوری عمل میں ساتھ رہی، یکایک غیرمقبول ہونے لگی اور اس کے بطن سے عبداللہ گل اور رجب طیب اردوآن کی مقبول قیادت نے جنم لینا شروع کردیا۔ اسی کے ساتھ ترکی میں بائیں بازو کی جماعت ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی جس کی قیادت مرحوم بلند ایجوت کرتے تھے، کی حکومت 2002ء میں قبل از وقت ختم ہونے پر مجبو رہوگئی جس نے تنگ نظر قوم پرست جماعت ملی حرکت پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کررکھی تھی۔
وزیراعظم بلند ایجوت کو جو قبرص آپریشن (1974ء) سے امریکہ کی آنکھ میں کھٹکتے تھے، مستعفی ہونا پڑا اور ترکی میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرنے والی مخلوط حصے دار ملی حرکت پارٹی سب سے آگے تھی۔ حکومت ختم ہوئی، نئے انتخابات منعقد ہوئے اور نجم الدین اربکان کی فضلیت پارٹی سے اختلاف کرنے والے جوان رہنمائوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے ترکی کو بالکل نئی قیادت سے متعارف کروایا جن میں عبداللہ گل اور رجب طیب اردوآن نمایاں تھے۔ نئی پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، روایتی دائیں بازو کی جماعت فضیلت اور اُن کی پارٹی کے قائد نجم الدین اربکان کی کٹر مخالفت کی بنیاد پر سر اٹھانے لگی۔
اس نئی پارٹی کو مذہبی شناخت فراہم کرنے کا بنیادی کردار فتح اللہ گلین نے فراہم کیا۔ فتح اللہ گلین جو امریکہ میں 1999ء سے خودساختہ جلاوطن ہیں، نئی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے حوجا (استاد یا شیخ) قرار دئیے جاتے تھے۔ فتح اللہ گلین کے لاکھوں مریدین اس جماعت کی مذہبی شناخت تھے اور فتح اللہ گلین گو عملی طور پر تو کبھی سیاست کا حصہ نہیں رہے اور نہ ہی اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں مگر نئی پارٹی کی تمام چوٹی کی قیادت اُن کے مریدین کے طور پر جانی جاتی رہی ہے۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی ترکی میں حکومت کے بعد اگر ہم خطے میں برپا سیاسی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو بڑی دلچسپ صورتِ حال ابھرتی ہے۔ 2003ء میں گو جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت بن تو گئی لیکن نئی نئی پارٹی اور نئی نئی حکومت ابھی ترکی کی روایتی سیاست کے گہرے اثرات میں رچی بسی تھی کہ علاقائی تنازعات میں مکمل عدم مخالفت۔
اسی لیے ترک پارلیمنٹ نے امریکہ کو عراق میں داخلے کے لیے امریکی افواج کو اپنی سرزمین سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جس کے لیے امریکہ نے ترکی کو اربوں ڈالرز کی امداد کی پیشکش کی تھی۔ لیکن 2003ء کے بعد خطے میں آج تک جو سیاسی تبدیلیاں برپا ہوئیں، اگر اُن کو غور سے دیکھا جائے تو یہ تبدیلیاں جنگ عظیم اوّل کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلیوں کے بعد اہم ترین ہیں کہ جب سلطنت عثمانیہ کو مغربی استعمار نے اپنی طاقت کے تحت مشرقِ وسطیٰ سے نکلنے پر مجبور کیا اور مشرق وسطیٰ میں نئی ریاستوں کو جنم دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 2003ء کے بعد عراق پر امریکی یلغار، عراقی ریاست کے حصے بخرے اور خطے میں اس جنگ کے بطن سے جنم لینے والی لاتعداد مذہبی دہشت گرد تنظیمیں جن کا جنم ایک پُراسراریت ہے۔ عراق کے بعد شام کے ٹکڑے اور اس کے بعد لیبیا کی خوش حال اور تیل سے مالامال ریاست کی جڑیں اکھاڑ دینا اور اسی کے ساتھ یمن اور سعودی عرب کے اردگرد جنگوں کا الائو بھڑک جانا۔
2003ء کے بعد ترکی میں مسلسل ایک ہی جماعت کی حکومت ترکی کی تاریخ میں سب سے طویل ترین حکومت ہے۔ عراق، لیبیا، شام اور اب قطر وعرب ممالک کی کشمکش میں ترکی ایک اہم ترین علاقائی سیاسی کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ کُرد مسئلہ جس کی جڑیں ترکی، ایران، عراق، شام اور آرمینیا کے اندر ہیں، بھی ایک نئی شکل اختیار کررہا ہے۔ مصر میں اسلامی رحجان رکھنے والی حکومت کا قیام اور اس کا خاتمہ ان علاقائی تبدیلیوں میں اپنی ایک خاص حیثیت رکھتا ہے۔ مصر میں ترک صدر طیب اردوآن جو اس وقت وزیراعظم تھے، اُن دنوں ایک مقبول سیاسی رہبر کے طو رپر جانے جاتے تھے۔
عالمی اور علاقائی طاقتوں کی یقینا اپنی طاقت اور منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ سیاست کے اپنے تضادات ہوتے ہیں جو ازخود جنم لیتے ہیں۔ ان میں کُردوں کا مسئلہ شامل ہے جس نے علاقائی طاقتوں کی منصوبہ بندی کے علاوہ ازخود تضادات سے اپنی نئی شکل اختیار کی۔ صدیوں سے سرزمین سے جڑے کُرد خطے میں ایک اہم حقیقت بن کر ابھرے اور انہوں نے مذہبی دہشت گردی کو شکست دے کر اپنے وجود اور اسی کے ساتھ اپنی نظریاتی شناخت کو منوایا، خصوصاً عراق اور شام کے مذہبی انتہاپسندوں کو خانہ جنگی میں ناکوں چنے چبانے پر مجبور کیا۔ لیکن ہم اس حوالے سے اپنے آپ کو ترکی پر فوکس کریں تو 2003ء اور 2017ء کا ترکی ایک دلچسپ صورتِ حال سے متعارف کرواتا ہے۔ 2002ء میں ترکی میں امریکہ کی ناپسندیدہ حکومت جس کی قیادت بلند ایجوت کرتے تھے اور اُن کی حکومت تنگ نظر قوم پرست جماعت ملی حرکت پارٹی اور اس کے رہبر دولت باہچلی کے مرہون منت تھی اور اس کی علیحدگی اور مطالبے پر نئے انتخابات ہوئے اور بلند ایجوت کی حکومت اپنی مدت مکمل کرنے سے پہلے تحلیل ہونے پر مجبور ہوئی۔
آج ترکی کی سیاست ایک نئی شکل اختیار کرچکی ہے۔ 2002ء میں جنم لینے والی نئی پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی جس کے حوجا/ شیخ فتح اللہ گلین مانے جاتے تھے، 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد باقاعدہ دہشت گرد قرار دئیے جا چکے ہیں۔ اُن کے ہزاروں مریدین پر اس ناکام فوجی بغاوت میں شمولیت کا الزام تھا، گرفتار کیے جا چکے ہیں اور اس ناکام فوجی بغاوت کی سازش کو ترکی، امریکہ کی سرپرستی میں جنم لینے والی بغاوت قرار دیتا ہے۔ ترکی کے روایتی مخالف پڑوسی ملک روس کے ساتھ تعلقات میں حیرت انگیز خوشگواری جنم لے چکی ہے۔
ملی حرکت پارٹی جوکہ ترکی میں ایک تنگ نظر قوم پرست جماعت جانی جاتی ہے، گزشتہ ریفرنڈم میں اس جماعت نے فیصلہ کن حمایت کرکے طیب اردوآن کے نئے سیاسی تصور (ترکی میں مضبوط صدارتی نظام) کو حقیقت میں بدلنے میں اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ فتح اللہ گلین کی مذہبی تحریک جس کے بارے ترکی کا دعویٰ ہے کہ ایک دہشت گرد تحریک ہے، اس کا شدت کے ساتھ قلع قمع کیا جارہا ہے۔ صدر طیب اردوآن ایک قوم پرست لیڈر کے طور پر اپنی سیاست کا عَلم بلند کیے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات شدت سے متاثر اور روس کے ساتھ حیرانی کی حد تک خوشگوار تعلقات ، اُن کی سیاست کا نمایاں پہلو ہے۔
کیا ترکی اگلے چودہ سال اسی جماعت (جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، جیسے 2002ء سے 2017ء تک؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ اور کیا ترکی علاقائی سیاست میں فیصلہ کن سیاسی کھلاڑی کے طور پر کامیاب علاقائی کردار کرنے کی منزل پا لے گا؟ کیا کُرد مسئلہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کی گرفت میں رہے گا؟ اور یہ کہ کیاترکی اپنا سیاسی، معاشی اور اقتصادی ترقی کا سفر اسی رفتار سے جاری رکھے گا، جس کا آغاز 1923ء میں جمہوریہ قرار دینے کے بعد ہوا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا فیصلہ یا نتائج اگلے کچھ عرصہ میں ہم دیکھنے جا رہے ہیں۔