امید
امید سے بڑھ کر کوئی سہارا نہیں اور اس سے بڑھ کر کوئی خسارہ بھی نہیں- یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ سوچ کے کس زاویے سے امید لگا رہے ہیں- مثلاً : فلاں شخص اگر میرے گھر آیا تو مجھے خوشی ہوگی یا پھر فلاں شخص جب تک میرے گھر نہ آیا تب تک مجھے خوشی نہیں ہوگی- پہلی آپ کی چاہت ہے، دوسری آپ کی خواہش یقیناً دوسری فکر کی بات ہے- بیشتر والدین بچّوں کے جوان ہونے سے پہلے، ان سے وابستہ امیدیں جوان کرلیتے ہیں- جس سے وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں-
یقین
یقین کے تین درجے ہوتے ہیں- پہلا “یقین العلم”، دوسرا “یقین العین” اور تیسرا “حق الیقین” ہے- میں نے آپ سے کہا: “فلاں جگہ پر آگ لگی ہوئی ہے-” اگر آپ نے یقین کر لیا ہے تو یہ “یقین العلم” ہے- اگر آپ نے وہاں جا کر خود بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو یہ “یقین العین” ہے- اگر آپ نے اس میں اپنا ہاتھ ڈالا ہے کہ دیکھوں، آیا کہ واقع ہی آگ لگی بھی ہوئی یا نہیں تو یہ “حق الیقین” ہے- ایسے بے یقینو پر کبھی بھی یقین مت کرو، جنھیں خود پر بھی یقین نہیں ہوتا- اگر آپ نے یقین کیا ہے تو یہ “ناقص یقین” ہے-
امید اور یقین
امید ایک تکلیف دہ شے ہے، اس بات پر یقین ہونا چاہیے- ہماری ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم امیدیں دوسروں سے لگا لیتے ہیں- جی ہاں! امیدیں ان سے ہی لگائی جاتی ہیں جو اپنے ہوتے ہیں اور صرف خون کے ہی رشتے اپنے نہیں ہوتے ہیں- لیکن بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ جس سے ہم نے امید لگا رکھی ہے، اس کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوتی ہے تو یقین بھی لاحاصل ہی رہے گا- اور ہم نے اس سے کیسی امید لگا رکھی ہے، یہ تو بعد کی بات ہے- ہم میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم عبادت تو اللہ ہی کی کرتے ہیں مگر ہم خدا دوسروں کو بھی مانتے ہیں- قرآنِ پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ “تم مجھے یاد کیا کرو، میں تمھیں یاد کیا کروں گا-” یعنی اگر ہم کو اللہ پر امید ہے تو وہ بھی ہمارے لیے یقین ثابت ہوگا- کیونکہ امید کا دیا تب ہی جلتا ہے، جب یقین کا تیل اس میں ڈالا گیا ہو۔ خوش قسمت کے لیے دعا بھی ایک امید ہے- یقین کا قفل امید کی کنجی سے ہی کھلتا ہے- بیمار اگر دوا کھاتا رہے تو شفا مل ہی جایا کرتی ہے۔ امید بہت نقصان دہ شے ہے، ماسوائے تب، جب یہ خود کی ذات پر لگائی جائے- یہ عمل باقیوں کی نسبت تیز تر ہوتا ہے- کیونکہ خود کی ذات سے لگائی گئی امید بہت جلد یقین بن جاتی ہے- امید ایک “طاقت” ہے اور اس کے بدلے میں یقین “کارکردگی” ہے- اگر طاقت کا غلط استعمال، اس کا ضیاع ہے- امید کی مٹی پر یقین کا پودا سعادت مند کا ہی اگتا ہے-