ہمارے ہاں سیاحت کرنے کے تصورات جدید دنیا میں سیاحت کرنے سے بہت مختلف ہیں۔ ہم جسے سیاحت تصور کرتے ہیں، درحقیقت وہ سیرسپاٹا یا پکنک کے زمرے میں آتا ہے۔ عید کے دنوں میں اندرون ملک سے پہاڑی مقامات پر جانے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اُن کی توجہ سرزمین کے نظاروں سے زیادہ کھانے پینے یا پکنک کرنے کے جذبات سے لبریز نظر آتی ہے۔ ہماری اندرون ملک سیاحت کا تصور نہایت پسماندہ ہے۔ دنیا کے طویل ترین سمندری ساحل ہمارے ہاں موجود ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو ان ساحلی مقامات پر جانے والے ہم وطن سوائے شلواروں کو ٹخنوں سے اونچا کرکے سمندر کے پانی سے لطف اندوز ہونے کے، کسی بھی ذوق سے نابلد ہیں۔ جہاں تک بات رہی تاریخ وتہذیب کے حوالے سے سیاحت کے ذوق کی، وہ بھی ان لوگوں کو جن کو ہمارے اخبارات عید کی چھٹیوں میں ان سرخیوں سے متعارف کرواتے ہیں کہ پہاڑی مقامات پر سیاحوں کے ہجوم لگ گئے۔ ان سب سیاحت کرنے والے ہم وطنوں میں اکثریت کو اپنی تاریخ، تہذیب وتمدن اور آرکیالوجی میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو موہنجوداڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا سمیت دیگر زمانہ قبل از تاریخ اور بعد کے زمانوں کے تہذیبی آثار میں دلچسپی رکھ کر سیاحت کرتے ہیں۔ لاہور کے شالامار باغ کو پہلے لوگ پکنک کے لیے استعمال کرتے تھے اور اب تو کسی طور بھی اس طرف رخ کرنا نظر نہیں آتا۔
پاکستان کے اندر بیرون ملک کے سیاحوں کی ایک وقت تک دلچسپی تھی، تب پاکستان میں غیرملکیوں کا سفر کرنا ایسے خطرناک نہیں تھا۔ پاکستان میں اس وقت بھی سیاحت کرنے والوں میں بڑا حصہ اُن سیاحوں کا تھا جن کو سیاحت کی زبان میں نہایت سنجیدہ سیاح قرار دیا جاتا ہے۔ اُن میں بدھ آثار کی سیاحت کرنے والے جاپانی اور یورپی سیاح نمایاں تھے اور اسی طرح بلندوبالا پہاڑوں کی چوٹیوں اور اُن سے متعلقہ وادیوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے والے سیاح۔ ان کی آمد اسّی کی دہائی کے بعد کم ہونا شروع ہوئی۔ تب ایران میں اسلامی انقلاب، افغانستان میں اشتراکی انقلاب اور پاکستان میں اسلامائزیشن کا دعویٰ کرنے والی فوجی آمریت کا دور شروع ہوا۔ خطے کے ان بدلے ہوئے حالات نے یورپ سے آنے والے سیاحوں کی آمدورفت کو بری طرح متاثر کیا۔ ساٹھ کی دہائی سے اسّی کی دہائی تک سیاحوں میں ایک طبقہ ہپی تھے جو مغرب کی مادہ پرستی اور مشرق کی روحانی قدروں کے سبب یورپ سے غول درغول مشرق کی طرف امڈنے لگے۔ اُن کا مشہورِ زمانہ راستہ یورپ سے ترکی، ایران، افغانستان، پاکستان، بھارت اور حتمی منزل نیپال ہوتی تھی۔ اسّی کی دہائی کے بعد پاکستان میں بڑھتی انتہاپسندی نے بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کو حتمی طور پر دل برداشتہ کیا اور اسی کے ساتھ سماج اور ریاست میں تنگ نظر نظریات نے بھی۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی تک لاہور، پشاور، کوئٹہ یا بلوچستان کے صحرا میں ہم منی سکرٹ پہنے سیاحوں کو عام دیکھتے تھے۔ اب سفید چمڑی والا کوئی غیرملکی کیا پاکستان میں سفر کرنا محفوظ سمجھتا ہے؟ اگر کوئی اِکا دُکا لوگ نظر بھی آتے ہیں تو وہ مکمل طور پر سر سے پائوں تک ’’ملبوس‘‘۔
میں نے ترکی کو اپنے پہلے سفروں میں سیاحت کی صنعت میں ابھرتے دیکھا۔ اسّی کی دہائی میں ترکی، بحیرۂ روم کے اردگرد یورپی، افریقی ممالک کے مقابلے میں ایک سیاحتی صنعت رکھنے والا ملک بننا شروع ہوا۔ اس کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سیاحت ہے۔ تقریباً 36ارب ڈالر سالانہ وہ عالمی سیاحوں سے حاصل کرتا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اندرون ملک سیاحت کا جو رواج ہے، ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہر ترک خاندان موسم گرما میں تعطیلات منانے ساحلی علاقوں میں ضرور جاتا ہے۔ اس کی اندرون ملک سیاحت کی صنعت یقینا بیرون ملک سیاحت کرنے والوں کے مقابلے میں کم نہیں۔ سیاحت کا فروغ تب تک ممکن ہی نہیں، جب تک کسی ملک کی داخلی سیکیورٹی کا شان دار نظام موجود نہ ہو۔ اور اسی کے ساتھ عالمی سیاحوں کو تعطیلات منانے کی تمام سیاحتی سہولیات میسر نہ ہوں۔ اس حوالے سے اگر ہم صرف ترکی کو ہی مثال بنا لیں تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم کبھی بھی ترکی کی طرح عالمی سیاحوں کو اپنے ہاں متوجہ کرسکیں گے۔
پاکستان میں آج کل ترکی جانا دو حوالوں سے بڑا اہم ہے۔ ایک فیشن اور دوسرا سٹیٹس۔ میں اکثر پاکستانی سیاحوں کو ترکی میں پاکستانی کھانوں کی تلاش میں بے قرار دیکھتا ہوں۔ جب سے ترک ڈراموں نے پاکستانی ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، پاکستانی ترکی جانے کو بے قرار نظر آتے ہیں۔ وہ ترک ڈراموں کے کرداروں اور سماج کو دیکھنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں جو ان گلیمرس ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔ اور دوسرے پاکستانی مسافرین (جی ہاں، سیاح کم ہی ہیں) تاریخ کے کرداروں کی تلاش میں نکلتے ہیں، مثلاً وہ سلطنت عثمانیہ کی تلاش میں جدید ترکی کا سفر کرتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کوئی بیرون ملک سے ہندوستان یا پاکستان اس خواہش اور جذبے سے آئے کہ ہم یہاں اورنگزیب کا ہندوستان دیکھنے آئے ہیں۔ اکثر پاکستانی سلطنت عثمانیہ جس کا زوال اپنے پانچ سو سال کے آخری دوسو سال تک جاری رہااور آخرکار یورپ کا مردِبیمار کہلایا، 1919ء کے بعد اپنی موت آپ مرنا شروع ہوا اور اسی کے بطن سے ایک اور جدید ترکی ابھرا جو جدیدیت (Modernization) کا علمبردار ایک نئی ریاست جو Republic ٹھہرائی گئی اور جمہوریہ کی شکل میں ابھرا۔ وہاں ہمارے اکثر پاکستانی مسافرین سلیمان عالیشان کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ایئرپورٹ پر اترتے ساتھ ہی جب وہ اپنی آنکھوں سے جدید قوم کے باسی لڑکے لڑکیوں کو دیکھتے ہیں تو یقینا انہیں دفعتاً دھچکا تو لگتا ہوگا۔اکثر لوگ خصوصاً نوجوان لڑکے لڑکیاں میری ترکی میں دلچسپی کی بنیاد پر مجھ سے رابطہ کرتے ہیں کہ میں اُن کی سیاحت کے لیے رہنمائی کروں۔ مجھے ملتے ساتھ ہی اُن کا کہنا ہوتا ہے کہ ’’مجھے ترکی جانا ہے۔‘‘ میں پوچھتا ہوں کہ کیوں؟َ تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ’’بہت خوب صورت ہے۔‘‘میں اس کے جواب میں پوچھتا ہوں کہ انہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟کیا کسی کتاب میں پڑھا؟ شاید ہی کوئی ترکی سیاحت کا خواہاں ایسا پاکستانی مجھے ملا ہو، جو پڑھنے یا مطالعے کے بعد ترکی جانے کے لیے میرے پاس تشریف لایا ہو۔ زیادہ تر ڈراموں کی چکاچوند کے سبب ترکی جانے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ تو انہیں میرا یہ بھی جواب ہوتا ہے کہ ترکی واقعی خوب صورت ملک ہے۔ کبھی آپ نے بلقان کی ریاستوں کا سنا، دیکھا یا پڑھا کہ کس قدر خوب صورت ہیں۔ زبان ہی گنگ ہوجاتی ہے۔ اسے ہم جذباتی قوم بھی کہیں گے اور Consumerism بھی کہ میڈیا کی چکاچوند سے متاثر ہونا سرمایہ داری کی Coonsumerism کا شاخسانہ ہے۔ میرے لیے یہ سوال بڑا اہم ہے کہ جو لوگ پاکستان سے ترکی جاتے ہیں، اُن میں سب وہ لوگ شامل ہیں جو ترکی کی ترقی اور جدیدیت سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے کبھی یہ گوارا نہیں کیا کہ اس ریاست کے بانی جس نے مردِ بیمار کو اسلامی دنیا کی پہلی جمہوریہ اور جدید ریاست بنایا اور جس کے سبب آج کا ترکی دنیا کے سامنے اس شان دار حال میں کھڑا ہے، اس بانی کے مزار پر بھی جایا جائے۔ ہمارے ہاں تو بغض پایا جاتا ہے ترکی کے بانی مصطفی کمال پاشا اتاترک کے خلاف جس نے اس مرتی قوم کو زندہ وجاوید قوم میں بدل دیابلکہ اس کے خلاف ہمارے اکثر کالم نگار اپنی کم علمی اور تنگ نظری کی بنیاد پر تنقید نہیں بلکہ کردار کشی کرتے ہیں۔ کیا کبھی ان پاکستانی مسافرین کو اندازہ ہو اکہ ترک قوم اپنے بانی سے کس قدر عشق کرتی ہے۔
ترکی ایک جدید ریاست ہے۔ سیاحت وہاں کی بنیادی صنعت ہے۔ اس صنعت سے وابستہ سرمایہ دار سے لے کر وہاں کا ویٹر بھی باقاعدہ تربیت یافتہ ہے۔ اور اس کو معلوم ہے کہ اپنے گاہک (سیاح) سے کیسے اور کس انداز میں ملنا ہے۔ ہمارے معصوم مسافرین یا مان لیں کہ پاکستانی سیاح، ان سیاحتی کارندوں کی ملنساری سے بے حد متاثر ہوکر واپس آتے ہیں جوکہ درحقیقت اُن کی ٹریننگ کا شاخسانہ ہے کہ عرب، روسی، امریکی، جاپانی، کورین، یورپین یا پاکستانی سیاح سے کس طرح ملنا ہے۔
میرے ترکی کے سفر جہاں قدرتی مناظر کے سبب برپا ہوتے ہیں، وہیں میرے لیے ترکی میں دو بنیادی Attractions ہیں۔ ایک تاریخ اور دوسرا سیاسی نظام۔ تاریخ سے مراد فنیقی دَور سے لے کر یونانی، رومی، بازنطینی، ایرانی، سلجوقی اور عثمانی تاریخ۔ تقریباً پورے جہان کی جہاں گردی میں مَیں جہاں بھی جاتا ہوں، یہی بنیادی موضوعات ہوتے ہیں اور اسی طرح ترکی میں بھی سیاسی نظام جس نے میرے جیسے پاکستانی کو متاثر کیا، اُن کا سیکولرازم ہے جس نے ترکی ترک ریاست اور سماج کو برداشت اور دوسرے فکری، عقیدہ اور یقین کے افکار ونظریات کو برداشت کرنا سکھایا۔ ترک سماج کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ نکتہ ہے۔ اور یہ نکتہ انہوں نے عثمانی دَور میں اپنے انداز میں اپنا لیا، تب وہ مسیحی اور دیگر مذاہب رکھنے والوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ انہوں (عثمانیوں) نے کبھی مذہب کے حوالے سے جبر نہیں کیا، ایسی کم ہی مثالیں ہیں۔ اسی لیے تو جب سپین سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو تبدیلی مذہب، ہجرت یا قتل ہونے کی آپشنز دی گئیں تو سپین سے ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو عثمانی علاقوں میں پناہ دی گئی۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ ترک سماج اور ریاست ایک مثالی سیکولر ریاست اور سماج ہے۔ اور وہاں پر بسنے والا مسلمان دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔ میری جہاں گردی تو ایسے نکات کی تلاش میں ہوتی ہے جو تہذیبوں، قوموں اور سماجوں کی خوبیوں یا خامیوں کو مشاہدہ کرنا چاہتی ہے۔