ترکی میں اردوگان کی کامیابی اور بھارت جیسے ملکوں میں اقلیت مسلمانوں کیلیے مساوی شہری حیثیت کامطالبہ ، یہ دونوں صورتحال ایک ایسے اصول کی اطلاق کے بعد ہی وجود میں آتی ہیں جس اصول سے مسلمانوں کی غالب مذہبی فکر کو گریز ہے ۔
ترکی میں مذہبی ذہن کو مقبولیت مل چکی ہوگی لیکن اس مقبولیت کی سیاسی بالادستی کی قبولیت کیلیے صرف مذہبی ذہن کی مقبولیت ہی کافی نہیں ہے ۔ یہ مقبولیت مذہبی حلقے کے غلبے کیلیے لازمی شرط تو ہوگی لیکن کافی شرط نہیں ہے ۔ یعنی صرف مقبولیت ہی عملی حاکمیت کو یقینی نہیں بناسکتی۔
بلکہ
وہ ماحول اور میدان وہی اصول فراہم کرتا اور یقینی بناتاہے جس سے آئیڈیل صورتحال میں مسلم فکر گریزپا ہے ۔ وہ اصول سیکولرازم اور وہ گراونڈ سیکولر اقدار کی ہی گراونڈ ہے ۔ جتنی مرتبہ سیکولرازم کیلیے ایک عقیدے کےتعین کی کوششیں کی جاتی ہے یا اسے کسی خاص عقیدے کا حریف ومقابل بناکر پیش کیاجاتاہے اتنی ہی مرتبہ اس کے جواب میں کہناچاہیے کہ سیکولرازم کو آپ ‘ بے عقیدگی ‘ تو کہہ سکتے ہیں کسی خاص عقیدے کا طرفدار یامخالف نہیں ۔ بے عقیدگی بھی دھریت کے معنی میں نہیں بلکہ اس مفہوم میں کہ سیکولرازم تمام عقاید کے پیروکاروں کیلیے کسی امتیاز کے بغیر کھیلنے کیلیے ہموار میدان مہیا کرتاہے ۔ ترکی کی مثال اس استدلال کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔ حکومت ملتی ہے عوام کی تائید سے ہی ، لیکن حکومت کرنے دی جاتی ہے سیکولر اقدار کے طفیل ۔
یہاں تک تو سیکولرازم کی افادیت سے اس کے نہ ماننے والوں کو بھی انکارنہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر سیکولرازم کے تصور کو ایک عام اصول کے بجائے محض ایک استثنائی صورت کے طور پر ہی کیوں قبول کیاجائے ؟ وہ ظرفیت اور space جس سے آپ اپنی سہولت کے وقت استفادے کو جائز سمجھتے ہیں لیکن دوسروں کیلیے اس سہولت سے فائدہ اٹھانے اور اس ظرفیت کے قائل نہیں ہیں ۔کیا وسعت ظرفی اور رواداری صرف دوسروں کاہی فرض ہے ؟ کیا یہ رویہ خود غرضانہ جبر کے مزاج کی نشاندہی نہیں کرتا ؟
نیز
کیا ترکی کاتجربہ یہ ثابت کرنے کیلیے کافی نہیں ہے کہ سیکولرازم کو بطور ‘ پالیسی ‘ نہیں بلکہ بطور اصول قبول کرنے پر غور کرناچاہیے ؟
مناظر: 83