ہمارے ہاں جس پیمانے پر تاریخ کے ساتھ عموماً اور تاریخ اسلام کے ساتھ خصوصاً جو کھلواڑ کیا گیا ہے اس درجے پر اس کے ازالے کا اہتمام نہیں ہوسکا ۔مختلف موضوعات پر دانشوروں کی تحریریں با افراط مل جاتی ہیں لیکن تاریخ سے متعلق پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو رفع کرنے کے لیے خال خال تحریری نوادرات سامنے آتے ہیں ۔ہماری ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ ہم اپنے قارئین کے لیے ایسے تاریخی نوادرات شائع کرتے رہیں تاکہ نئی نسل کی ذہن سازی میں یہ مواد اپنا کردار ادا کرسکے۔اس سے قبل ایک وقیع مضمون “اورنگ زیب عالمگیر پر اعتراضات کی حقیقت”ادارہ پیش کرچکا ہے یہ دوسرا مضمون بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔{چیف ایڈیٹر: دارالشعور}
یہ بات درست ہے کہ سلاطین ہند علما، صوفیاء اور مشائخ کی طرح دین اسلام کے نمائندے نہ تھے ،مگر اس سے بھی مفرنہیں کہ ان کاہر اقدام دین کے منافی نہ تھا،یا ان کا فکرکلی طور پر اسلام کے اصول ومبادی سے متضاد ومتصادم تھا۔اگر ان سلاطین میں سے کچھ میں خامیاں اور کمزوریاں تھیں تو بڑی تعداد ان بادشاہوں کی بھی ہے جو دینی روح سے مزین اور عدل پرور تھے۔چنانچہ ان دونوں قسم کے حکمرانوں کے کارناموں ،ان کی دینی خدمات ، عدل پروری اور رعایاپروری کا موازنہ کرتے ہوئے سید صباح الدین عبد الرحمن نے لکھتے ہیں:
”فخرمدبر کابیان ہے کہ قطب الدین ایبک نے سخاوت میں حضرت ابوبکر کی اور عدل میں حضرت عمر کی تقلید کرنے کی کوشش کی ،حضرت بختیار کاکی کے ملفوظات فوائد السالکین میں ہے کہ التمش کی طرف سے عام اجازت تھی کہ جولوگ بھی فاقہ کرتے ہوں اس کے پاس لائے جائیں اور جب وہ آتے تو ان میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دیتا اور ان کو قسمیں دے کرتلقین کرتا کہ جب ان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ رہے یا ان پر کوئی ظلم کرے تو وہ یہاں آکر عدل وانصاف کی زنجیر جوباہر لٹکی ہوئی ہے ہلائیں تاکہ وہ ان کے ساتھ انصاف کرسکے،ورنہ قیامت کے روز ان کی فریاد کا بار اس کی طاقت برداشت نہ کرسکے گی ۔
غیاث الدین کے بارے میں مولانا ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ وہ اپنی داد دہی اور انصاف پروری میں بھائیوں،لڑکوں اور مقربوں کامطلق لحاظ نہ کرتااور جب تک مظلوم کے ساتھ انصاف نہ کرلیتا،اس کے دل کو آرام نہ پہنچتا ۔انصاف کرتے وقت اس کی نظر اس پر نہ ہوتی کہ ظلم کرنے والا اس کاحامی و مددگارہے ۔اس کے لڑکے، اعزہ مخصوصین ،والی اور مقطع اس کی عدل پروری سے واقف تھے ،اس لیے کسی کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ کسی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کریں،اس کے عدل وانصاف کے قصے بہت مشہور ہیں، خود اس زمانہ کے ہندوؤں نے اس کی حکومت کو دل کھول کر سراہاہے ۔
۱۳۳۷بکرمی مطابق ۱۲۸۰ء کا ایک سنسکرت کتبہ پالم میں ملا ہے جس میں لکھا ہے کہ بلبن کی سلطنت میں آسودہ حالی ہے۔اس کی بڑی اور اچھی حکومت میں غور سے غزنہ اوردراوڈسے رامیشورم تک ہرجگہ زمین پربہار ہی بہار کی دل آویزی ہے ،اس کی فوجوں نے ایساامن و امان قائم کیا ہے جوہر شخص کو حاصل ہے ، سلطان اپنی رعایا کی خبر گیری ایسی اچھی طرح کرتاہے کہ خود و شنو دنیا کی فکر میں آزاد ہوکر دودھ کے سمندر میں جاکرسورہے ہیں۔
امیرخسرو علاء الدین خلجی کے بارے میں خزائن الفتوح میں لکھتے ہیں کہ اس نے حضرت عمر کا ساعدل قائم کررکھا ہے اور عوام کے معاملات میں وہ المستنصر باللہ اور المستعصم بناہواہے ۔محمد بن تغلق کے بارے میں سلاطین دہلی اور مغل بادشاہوں کے د ورکے موٴرخین لکھتے ہیں کہ وہ عدل نوازی کے سلسلہ میں مشائخ اور علماء کی بھی رورعایت نہ کرتا ،وہ اگر مجرم ہوتے تو ان کو بھی بلاتامل سزائیں دیتا۔مسالک الابصار میں ہے کہ سلطان ہفتہ میں شنبہ کو دربارعام منعقد کرتا اور اس کے افتتاح کے موقعہ پر ایک نقیب بلند آوازسے پکارتا تاکہ مظلومین اپنی فریادسنائیں،اہل حاجت اپنی ضرورتیں پیش کریں ،جس کو کوئی شکایت ہو یاجوحاجت مندہووہ حاضرہوجائے ،نقیب کے خاموش ہوتے ہی اہل غرض بلاتکلف سامنے آجاتے اور سامنے کھڑے ہوکر نہایت صفائی سے حالات بیان کرتے ،اثنائے بیان میں کسی کوکسی کے روکنے کی مجال نہ تھی۔
تاریخ مبارک شاہی اور ملا عبد القادر بدایونی کی منتخب التواریخ دونوں میں ہے کہ سلطان نے اپنے شاہی محل کے اندر چار مفتی مامور کر رکھے تھے، جب کوئی فریادی آتاتو سلطان ان مفتیوں سے مشورے کرتااور ان کو تنبیہ کررکھی تھی کہ اگرکوئی معصوم ان کے فیصلہ کی بدولت تہ تیغ ہواتواس کاخون ناحق ان کے گردن پر ہوگا۔اس لیے مفتیوں سے کوئی فروگزاشت نہ ہوتی۔موجودہ دور کے ہندو موٴرخین بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ فیروز شاہ کی حکومت عدل وانصاف کی حکومت تھی،کسی شخص کو بھی دوسرے پر ظلم وتعدی کرنے کاحق نہ تھا،تمام ملک میں امن وسکون تھا ،چیزوں کی فراوانی تھی،اعلیٰ وادنیٰ ہرطبقہ کے لوگ مطمئن تھے،عام رعایاقانع اوردولت مندہوگئی تھی۔
سلاطین دہلی کی حکومت میں عدل پروری کی جو روایت قائم ہوئی اس کو مغل بادشاہوں نے اوربھی شاندار طریقے پر برقرار رکھا ۔بابرنے اپنی تزک میں خود لکھا ہے کہ اس کی فوج بھیرہ سے گزررہی تھی تو اس کو معلوم ہوا کہ سپاہیوں نے بھیرہ والوں کوستایاہے اور ان پر ہاتھ ڈالاہے ،تو فوراًان سپاہیوں کو گرفتار کرکے بعض کو سزائے موت کا حکم دیا اور بعض کی ناکیں کٹواکر تشہیر کرایا۔ ابوالفضل کابیان ہے کہ اکبر نے روزانہ ڈیڑھ پہر عدل و انصاف کے لیے مقرر کر رکھاتھا۔ جہاں گیر اور بھی سخت تھا،وہ دو گھنٹے روزانہ عوام کی شکایتیں سنتا،اس نے تو اپنے محل میں ایک زنجیر لگارکھی تھی تاکہ ہرشخص کسی روک ٹوک کے بغیر براہ راست اس سے فریاد کرسکے ،وہ سفر میں بھی ہوتاتو روزانہ تین گھنٹے بیٹھ کر فریادسنتا اور ظالموں کو سزادیتا تھا،علالت کے زمانہ میں بھی اس کایہ معمول جاری رہتا ۔اس نے اپنی تزک میں لکھا ہے کہ ”مخلوق خداکی نگہبانی کے لیے میں رات کوبھی جاگتاہوں اور سب کے لیے اپنے آپ کو تکلیف دیتاہوں ۔
وہ تو نور جہاں کوبھی ایک عورت کے شوہر کو ہلاک کرنے پر موت کی سزا دینے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔جیساکہ مولانا شبلی کی نظم”عدل جہاں گیری“سے ظاہر ہوتا ہے۔
مغل بادشاہوں کایہ دستورتھاکہ وہ دیوان عام میں عوام کی شکایتیں سنتے جہاں ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی ان کے پاس آسانی سے پہونچ سکتاتھا۔جوبھی چاہتا دربارعام کے سامنے حاضر ہوکر خود اپنا استغاثہ پیش کردیتا ،دربار کے عہدے دار اس کولے کر بادشاہ کے سامنے پیش کردیتے، بادشاہ اس کو پڑھواکر سنتا،مدعی سے جرح کرتااور پھر مناسب کاروائی کے لیے فیصلہ صادر کردیتا، اگر مجرم کوئی بڑاعہدیدار یاشاہی خاندان کا بھی ہوتاتواس کوسزائیں دینے میں تامل نہ کیاجاتا۔شاہ جہاں نے گجرات کے ناظم حافظ محمدنصیر کوحبس دوام کی سزااس لیے دی کہ وہاں کے تاجروں کے ساتھ وہ ظالمانہ طریقہ پرپیش آتاتھا،اسی طرح ایک بار بنگال کے ناظم فدائی خاں کو اس کے عہدہ سے برطرف محض اس لیے کردیاکہ عوام اس کے شاکی تھے ۔اورنگ زیب کے ناقدین بھی اس پر یہ الزام نہیں رکھ سکتے کہ وہ عدل پرور نہیں تھا،اس نے شاہ جہاں کواس کی معزولی کے بعد ایک رقعہ میں لکھا کہ خدا وندتعالیٰ اس کوکچھ عطا کرتاہے جس میں رعایا کی حالت سدھارنے اور ان کی حفاظت کی صلاحیت ہوتی ہے ، حکمرانی کے معنی لوگوں کی نگہبانی ہے نہ کہ تن پروری اور عیاشی۔
اوراسی عدل پروری کا نتیجہ تھا کہ جوسلاطین مذہبی بھی ہوتے تھے انہوں نے کبھی غیر مسلموں پر اپنا مذہب زبردستی لادنے کی کوشش نہیں کی ،وہ خود تو اسلام کے محافظ اور نگہبان ضرور ہے اور مسلمانوں کو بھی اوامرونواہی کی پابندی کرانے کی کوشش کی لیکن کبھی اپنی غیر مسلم رعایا کے مذہبی عقائد میں مداخلت نہیں کی اور ان کی معاشرتی زندگی کو درہم برہم نہیں کیا۔اکبر نے انسان دوستی کے جذبہ سے ستی کے رسم کو روکنے کی کوشش کی،کمسن بیواؤں کے رواج کو بھی ختم کردینا چاہا ،بچپن کی شادی کے خلاف بھی کچھ عملی کار وائی کی، لیکن اپنی ہمدردانہ خواہشوں کو کبھی تلوار کی نوک سے عمل میں نہیں لایا ۔
بعض فرماں رواؤں پر جبری تبلیغ کاالزام عائد کیا جاتاہے ، لیکن تحقیقات سے یہ الزامات زیادہ تر بے بنیادثابت ہورہے ہیں۔ ہندوموٴرخین لکھتے ہیں کہ یوپی چھ سوسال تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہا،لیکن یہاں مسلمان صرف چودہ فیصدی ہیں ،اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مذہب محفوظ رہا اورجبری اشاعت اسلام نہیں ہوئی،اور ہندوؤں کوزبوں حال نہیں بنایاگیا ،تمام سلاطین اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ ان کاسیاسی مفاد اسی میں ہے کہ یہاں کے لوگوں کے مذہبی اور معاشرتی نظام میں مداخلت نہ کریں،اس رواداری کے بغیر ان کی حکومت زیادہ دنوں تک قائم بھی نہیں رہ سکتی تھی۔
صوفیاء کرام نے خدمت خلق اللہ اور عدل پروری کی جو تعلیم دی اور خود یہاں کے غیر مسلموں کے ساتھ ان کاجو کریمانہ اور روادارانہ اخلاق رہا اس سے سلاطین کو مزید تقویت پہونچی ۔ … لیکن یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جن سلاطین کا ذکر اوپر کی سطروں میں کیا گیا ہے،وہ مسلمانوں کے دور عروج کے اچھے حکمراں تھے،اگر ان میں واقعی یہ خوبیاں نہ ہوتیں تو خون سے ہولی کھیلنے والے ،ہتھیلی پرسررکھ کرلڑنے والے ، اپنے سینوں کو نوک شمشیر اور نوک سنان سے چھلنی کرنے والے راجپوتوں کی سرزمین میں ان کا اور ان کے ہم مذہبوں کا قدم جمنا آسان نہ تھا۔اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ مسلمانوں کی حکومت کے دور عروج میں زیادہ تر اچھے حکمراں گزرے۔
غلام سلاطین میں آرام شاہ،رکن الدین فیروز شاہ،معزالدین بہرام شاہ،علاء الدین مسعود شاہ اور کیقبادجیسے بے جان حکمراں بھی گزرے۔لیکن اسی خاندان میں التمش کی نیک نفسی اور انتظامی کارکردگی ،بلبن کے جاہ وجلال اور عدل گستری کی بدولت حکومت کو غیر معمولی قوت حاصل ہوئی ۔خلجی سلاطین کے عہد میں قطب الدین مبارک شاہ جیساکمزور اور ناصرالدین خسروجیسا کم سمجھ حکمراں بھی ہوا، لیکن ان کے عہد کی بدعنوانیاں اور کمزوریاں ان کے پیش رو سلطان علاء الدین خلجی کی نبرد آزمائی اور رعایا پروری سے دب کررہ گئیں،ان کے خاندان کوتو ان سے نقصان پہنچا لیکن حکومت برقرار رہی ۔ غیاث الدین کی مردانگی اور فرزانگی ، محمد تغلق کی بلندحوصلگی اور اولو العزمی اور فیروز شاہ کی غیرمعمولی رحم دلی اورعیت نوازی سے جوقوت بنی اس کے سہارے ان کے کمزور جانشیں کچھ عرصہ تک حکومت کرتے رہے ۔ابراہیم لودھی کو اپنی کمزوریوں کانتیجہ بھگتنا پڑا۔ان میں سے اچھے سلاطین کی اچھائیوں کاذکر کرنے میں جس طرح منہاج سراج(مولف طبقات ناصری) مولانا ضیاء الدین برنی (صاحب تاریخ فیروز شاہی)اور شمس سراج عفیف (کاتب تاریخ فیروز شاہی)نے فیاضی سے کام لیاہے، اسی طرح موجودہ دور کے ہندو موٴرخین میں کے۔ایس۔ لعل۔ نے اپنی تاریخ ہسٹری آف دی خلجیز،ڈاکٹر ایشوری پرشاد نے ہسٹری آف قرونہ ٹرکس اور ڈاکٹر ایشورٹوپا نے پولی ٹکس ان پری مغل ٹائمس میں قابل قدر سلاطین کی خوبیاں بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔
مغل خاندان کے پہلے چھ بادشاہوں کے حربی،سیاسی،اقتصادی اور تمدنی کارنامے اتنے شاندارہیں کہ اس خاندان کے آخری ۱۳/نااہل اور نالائق حکمراں انہیں شاندار کارناموں کی بدولت ڈیڑھ سو برس تک تخت وتاج کے مالک بنے رہے،اور جس طرح نظام الدین بخشی نے طبقات اکبری ، ابوالفضل نے اکبرنامہ،مستعد خان نے اقبال نامہ جہانگیری،ملا عبد الحمید لاہوری نے بادشاہ نامہ لکھ کر مغل بادشاہوں کے قابل قدر حکمرانوں کی مدح سرائی کی ہے،اسی طرح موجودہ دور کے ہندو موٴرخوں میں ڈاکٹر رام پرشادترپاٹھی نے رائیز آف دی مغل ایمپائر،ڈاکٹر بینی پرشاد نے ہسٹری آف جہانگیراور بنارسی پرشاد نے ہسٹری آف شاہ جہاں لکھ کر اپنے اپنے نقطہ نظر سے ان حکمرانوں کوخراج تحسین پیش کیاہے۔البتہ عالم گیر کی تعریف وتوصیف میں جس طرح عالمگیر نامہ کے مصنف کاظم شیرازی کا قلم چلا ہے اس طرح سرجادو ناتھ سرکارجیسے دیدہ ورموٴرخ نے اس بادشاہ کی تاریخ لکھنے میں بیس برس کی مدت گزاری اوربڑی کدوکاوش کے بعد اس کی تاریخ ۵/جلدوں میں مرتب کی آج تک کسی ”نااہل بادشاہ“ کی تاریخ اتنی جلدوں میں نہیں لکھی گئی۔
بدقسمتی سے ہندوستان کی وسطیٰ اور جدید تاریخ کے واقعات وکردار کو اس طرح سے مسخ کردیا اور جھوٹ سے بھر دیاگیا ہے کہ غلط اور دروغ بیانی کو الوہی صداقت کی طرح قبول کرلیاگیاہے ،اور جولوگ حقیقت اور فسانہ میں اصلیت اور بناوٹ میں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے انہیں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس طرح سے فرقہ واریت سے ناجائز فائدہ اٹھانیوالوں کا تاریخ کو مسخ کرنے اور دروغ آمیز بنانے کاکام جاری ہے ،اور بالعموم اس طرح کے منافقانہ اور سیاسی رہنماؤں کی سرپرستی وقیادت ہی میں انجام پاتے ہیں ،چنانچہ اس سیاسی متعصبانہ نظریہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی نے آل انڈیا ہسٹری کانگریس اجلاس منعقدہ مدراس(دسمبر۹۴۴اء ) کے خطبہ صدارت میں کہا تھاکہ:
”پالٹیکس کے کھیل سے اس ملک کا علم تاریخ بھی بچا ہوا نہیں ،بلکہ صاف صاف کہنا چاہیے کہ یہی وہ بیج ہے جس سے ہندوستان کا مشہور پھل پھوٹ پیدا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی حکومت کی برائی اور اچھائی کی بھی بہت سی باتیں کہی جاسکتی تھیں،مگر ان کے بعد اس ملک میں جو حکومت آئی اس کے زمانہ میں تعلیم کاسررشتہ پوراکاپورا غیر ملکیوں کے ہاتھ میں تھا،ان لوگوں کے ہر جتھے کی ہر طرف سے یہ کوشش تھی کہ اپنے راج کی بڑائی کو ہر ہندو ستانی کے دل میں بٹھادے اور ساتھ ہی ایک ایسا کرتب کرے جس سے ان کے دل کے شیشے ٹوٹ کر پھرجڑنے نہ پائیں۔تعلیم کے سارے مضمونوں میں اس کام کے لیے تاریخ کے سوا کوئی اور چیز مناسب نہ تھی، چنانچہ انہوں نے ملک کے لیے تاریخ کی جو کتابیں شروع سے آخر تک لکھیں اور پڑھائیں ان میں یہی باتیں سو سو طرح سے الٹ پلٹ کر سمجھائیں کہ جو دل ان سے ٹوٹے تھے وہ پھر اب تک جڑ نہ سکے… ہندوستانی ہی کورس کی کتابیں بتاتے ہیں اور تاریخ کے مختلف دور کے بادشاہوں کے حالات کی تحقیق پر کتابیں لکھاتے ہیں۔لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ان کے چلنے کا راستہ ابھی تک وہی ہے جو ان کے پہلے پرانی بدیسی بناکر چھوڑ گئے ۔“{Edit by Abu Hamza Qasmi}