حضرت محمد ﷺ امراضِ قلب کے پہلے طبیب تھے — تحریر: حکیم محمد ادریس لدھیانوی
اکتوبر 23, 2018باپ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے — تحریر: میاں نصیراحمد
نومبر 12, 2018
سماج میں بنیادی اکائی ایک گھر ہوتا ہے جو ایک خاندان پر مشتمل ہوتا ہے یہ گھر مل کر شہر اور پھر شہر مل کر ملک وقوم بناتے ہیں اور اسی طرح یہ اقوام مل کر آج بین الاقوامی سطح پر گلوبل ویلج بناتے ہیں .
لیکن پوری کی پوری اقوام عالم کی بنیادی اکائی یہی گھر ہیں اور اسی لئے کتاب الٰہی نے عائلی زندگی کے حوالے سے بہت رہنمائی فرمائی ہے. عائلی زندگی کے مسائل کو بڑی تاکید سے حل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس میں حسن اور عدل پیدا کرنے کو کہا گیا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر سماج کے تشکیل کا بہترین پروگرام دیا ہے. لیکن اقوام مغرب آج اسی نظام کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں.
اب یہ عائلی زندگی جو ایک گھر سے شروع ہوتی ہے دراصل ایک پورے خاندانی نظام پر مشتمل ہوتی ہے. جس میں اس خاندانی نظام کے ہر شعبے کا اپنا اپنا نمائندہ ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں. اس نظام کو چلانے کیلئے اصول متعین ہیں تجاوز کرنے پر سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی طرح اس نظام کو چلانے کیلئے ایک سربراہ بھی مقرر کیا جاتا ہے جس کی ذمہ داری گھر کے سب سے بڑے بزرگ کو دی جاتی ہے. یہی وہ اکائی ہے جو ملکی نظام کو تشکیل کرتی ہے.
بہن بھائی سب مل کر باپ کی سربراہی اور ماں کی سرپرستی میں تربیت پاتے ہیں. بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں کو اندر سے مضبوط بناتے ہیں ان کالاڈ پیار اور حوصلہ انسانی ہمت کو انتہاء کے بلندیوں پر لے جاتا ہے اور ان کی ڈانٹ اصلاح کے طور پر اعلیٰ مرتبے کاباعث بنتی ہے اسی طرح بھائیوں سے محروم لوگوں کےحوصلے پست ہوتے ہیں اور ہمیشہ ایسے پیار کے تلاش میں احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں. بڑی بہنوں کی محبت انسان کے اندر اُنس،احساس اور محبت کا جذبہ بیدار رکھتی ہے اور انسان نرم دلی کا مالک ہوجاتا ہے اور یہ نہ ہو تو انسان سخت دل اور بے رحم بن جاتا ہے. چھوٹے بہن بھائی انسان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں اور انسان پیار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار شخص بن جاتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو اکثر اوقات انسان غیر ذمہ دار اور ہمیشہ کیلئے بچہ رہ جاتا ہے اور بعد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
معیشت کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے روزگار سے رزق کمانے اور گھر کے تمام ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے . بڑے بھائی ان کے اس کام میں ہر وقت مدد کرتے ہیں. اور یوں سمجھ لو باپ گھر کے سربراہ کے ساتھ ساتھ گھر کے معاشی نظام کا نمائندہ بھی ہوتا ہے اور گھر کے حفاظتی نظام کا بھی اور بڑے بھائی ان کی ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں .
ماں جس کی مثال ایسی ہیں جس طرح علوم میں فلسفہ کی ہیں جس طرح سارے علوم ایک فلسفہ پر مرتکز ہوتے ہیں اسی طرح گھر میں سب کا مرکز ماں ہوتی ہے.باپ کے معیشت سے گھر کے سارے اخراجات پورے کرنے کا انتظام ان کو کرنا ہوتا ہے گویا جس طرح کسی ریاست کےانتظامی ادارے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح گھر کے اندرونی انتظامی ادارے کی سربراہ ماں ہوتی ہے. ان کے علاوہ دوسری بڑی ذمہ داری اگلی نسلوں کی تربیت کرنی ہے اور اسی گھر میں ماں ہی سب سے پہلے اپنی اولاد کی تربیت شروع کرتی ہیں عادات و اطوار رسم ورواج اچھائیاں اور برائیاں مہمان نوازی اور غیرت، خودی اور انکساری اولاد سب سے پہلے اپنی ماں سے سیکھتے ہیں. اور اسی طرح فکری اور تعلیمی ادارے کی سربراہ بھی ماں ہوتی ہے اور بڑی بہنیں ان کے انہی کاموں میں ہاتھ بٹھاتی ہیں اور خود بھی سیکھتی ہیں کیونکہ کل کو انہوں نے بھی کسی گھر میں یہی ادارے چلانے ہوتے ہیں. اگر کوئی ماں اپنی اولاد میں بدرجہ کمال اوصاف پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کل ان کی اولاد قوم وملک اور وطن کی رہنما بن جاتی ہے اور یا پھر اپنے گھر کے سربراہ تو ضرور بنتے ہیں . اپنی اولاد کو حوصلہ استقامت اور بہادری کے گھن سکھاتی ہے اسلئے پوری کی پوری قوم کا انحصار ایک ماں پر ہوتا ہے کہ کل قوم وملک کو چلانے کیلئے ایک بڑے ذمہ دار انسان کو تیار کرنا ان کے ذمہ ہوتا ہے.
اس لئے یہ واضح ہے کہ اگر علوم کا فلسفہ موجود ہو تو ترقی کی منازل لازمی ہیں اور اگر دوسرے علوم موجود بھی نہ ہوں لیکن اسی فلسفے سے دوبارہ اخذ کئے جاسکتے ہیں لیکن اگر علوم اپنا فلسفہ کھو بیٹھے تو پھر علوم فقط جمود وتباہی کا باعث بنتے ہیں اور آخر فنا ہو جاتے ہیں لیکن اگر فلسفہ موجود ہو تو ان پر علوم کی نئےسرے سے عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے. اسی طرح اگر کوئی گھر باپ سے محروم ہوجائے تو ماں اپنی اولاد کیلئے سختیاں اورمشکلات برداشت کرکے ان کو اعلٰی مقام تک پہنچاتی ہے اور پھر معیشت، حفاظت اور سربراہی کی ذمہ داریاں جو ایک باپ میں پائ جاتی ہیں وہ اپنی اولاد میں پیدا کرتا ہے گویا آج کا باپ کل کی کسی ماں کا بیٹا ہوتا ہے . اور اس کی ہزاروں مثالیں ہمارے سماج میں پائی جاتی ہیں. لیکن اگر دوسری طرف کوئی بھی گھر ماں سے محروم ہوجائے تو بہت کم باپ اسے بچا سکتے ہیں. اور گھر ویران کھنڈر بن جاتا ہے اگر باپ ہزار ہا معیشت کمائے گھر کی سربراہی کرے یا حفاظت کرے لیکن انتظام کرنے کیلئے ماہر اور عادل ماں کی ضرورت ہوتی ہے اور بچے تو ایک ماں کے بغیر بالکل تباہی وبربادی کا شکار ہوجاتے ہیں تربیت سے محروم ایسے بچوں کیلئے کل کی زندگی بڑی مشکل بن جاتی ہے اور پھر گھر میں خاندانی نظام سے محروم سماجی نظام سے ناواقف ہوجاتے ہیں اور ماں کی محبت لاڈ پیار نہ ملنے پر کل وہ بڑے ہوکر اتنی جرات بہادری اور حوصلے سے نہیں جی سکتے اور یوں ایک ماں کے نہ ہونے سے نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے اور قوم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے. اور غیر تربیت یافتہ ہوکر وہ معاشرے کیلئے ایک غیر ذمہ دار انسان کے ساتھ کبھی کبھی برائیوں کا مرکز بن جاتے ہیں . مایوس بےحوصلہ غیر تربیت یافتہ محبت سے محروم کل ایک بے جان تمدن کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں . اسلئے ایک ماں میریےنزدیک تمدن کا مرکزی فلسفہ ہوتی ہے جس کو باپ کی سربراہی اور معیشت کی ذمہ داریوں کا انتظام اور کل کی نسل کی تربیت کرنی ہوتی ہے. جس کے دل میں رب کائنات نے اپنی اولاد کیلئے انتہاء درجہ کی محبت رکھی ہوتی ہے اور اس محبت کے جزیرے میں اپنی اولاد کی ایک پھول کی طرح پرورش کرکے اگلی نسلوں میں ان کے اچھے اوصاف کے بیج منتقل کردیتی ہے.
مناظر: 90