• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
“ماں” — تحریر: ڈاکٹر باچا“ماں” — تحریر: ڈاکٹر باچا“ماں” — تحریر: ڈاکٹر باچا“ماں” — تحریر: ڈاکٹر باچا
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

“ماں” — تحریر: ڈاکٹر باچا

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • “ماں” — تحریر: ڈاکٹر باچا
حضرت محمد ﷺ امراضِ قلب کے پہلے طبیب تھے — تحریر: حکیم محمد ادریس لدھیانوی
اکتوبر 23, 2018
باپ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے — تحریر: میاں نصیراحمد
نومبر 12, 2018
Show all

“ماں” — تحریر: ڈاکٹر باچا

سماج میں بنیادی اکائی ایک گھر ہوتا ہے جو ایک خاندان پر مشتمل ہوتا ہے یہ گھر مل کر شہر اور پھر شہر مل کر ملک وقوم بناتے ہیں اور اسی طرح یہ اقوام مل کر آج بین الاقوامی سطح پر گلوبل ویلج بناتے ہیں .
لیکن پوری کی پوری اقوام عالم کی بنیادی اکائی یہی گھر ہیں اور اسی لئے کتاب الٰہی نے عائلی زندگی کے حوالے سے بہت رہنمائی فرمائی ہے. عائلی زندگی کے مسائل کو بڑی تاکید سے حل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس میں حسن اور عدل پیدا کرنے کو کہا گیا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر سماج کے تشکیل کا بہترین پروگرام دیا ہے. لیکن اقوام مغرب آج اسی نظام کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں.
اب یہ عائلی زندگی جو ایک گھر سے شروع ہوتی ہے دراصل  ایک پورے خاندانی نظام پر مشتمل ہوتی ہے. جس میں اس خاندانی نظام کے ہر شعبے کا اپنا اپنا نمائندہ ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں.  اس نظام کو چلانے کیلئے اصول متعین ہیں تجاوز کرنے پر سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی طرح اس نظام کو چلانے کیلئے ایک سربراہ بھی مقرر کیا جاتا ہے جس کی ذمہ داری گھر کے سب سے بڑے بزرگ کو دی جاتی ہے. یہی وہ اکائی ہے جو ملکی نظام کو تشکیل کرتی ہے. 
بہن بھائی سب مل کر باپ کی سربراہی اور ماں کی سرپرستی میں تربیت پاتے ہیں. بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں کو اندر سے مضبوط بناتے ہیں ان کالاڈ پیار اور حوصلہ انسانی ہمت کو انتہاء کے بلندیوں پر لے جاتا ہے اور ان کی ڈانٹ اصلاح کے طور پر اعلیٰ مرتبے کاباعث بنتی ہے اسی طرح بھائیوں سے محروم لوگوں کےحوصلے پست ہوتے ہیں اور ہمیشہ ایسے پیار کے تلاش میں احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں. بڑی بہنوں کی محبت انسان کے اندر اُنس،احساس اور محبت کا جذبہ بیدار رکھتی ہے اور انسان نرم دلی کا مالک ہوجاتا ہے اور یہ نہ ہو تو انسان سخت دل اور بے رحم بن جاتا ہے. چھوٹے بہن بھائی انسان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں اور انسان پیار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار شخص بن جاتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو اکثر اوقات انسان غیر ذمہ دار اور ہمیشہ کیلئے بچہ رہ جاتا ہے اور بعد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. 
معیشت کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے روزگار سے رزق کمانے اور گھر کے تمام ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے . بڑے بھائی ان کے اس کام میں ہر وقت مدد کرتے ہیں. اور یوں سمجھ لو باپ گھر کے سربراہ کے ساتھ ساتھ گھر کے معاشی نظام کا نمائندہ بھی ہوتا ہے اور گھر کے حفاظتی نظام کا بھی اور بڑے بھائی ان کی ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں . 
ماں جس کی مثال ایسی ہیں جس طرح علوم میں فلسفہ کی ہیں جس طرح سارے علوم ایک فلسفہ پر مرتکز ہوتے ہیں اسی طرح گھر میں سب کا مرکز ماں ہوتی ہے.باپ کے معیشت سے گھر کے سارے اخراجات پورے کرنے کا انتظام ان کو کرنا ہوتا ہے گویا جس طرح کسی ریاست کےانتظامی ادارے ہوتے  ہیں بالکل اسی طرح گھر کے اندرونی انتظامی ادارے کی سربراہ ماں ہوتی ہے. ان کے علاوہ دوسری بڑی ذمہ داری اگلی نسلوں کی تربیت کرنی ہے اور اسی گھر میں ماں ہی سب سے پہلے اپنی اولاد کی تربیت شروع کرتی ہیں عادات و اطوار رسم ورواج اچھائیاں اور برائیاں مہمان نوازی اور غیرت، خودی اور انکساری اولاد سب سے پہلے اپنی ماں سے سیکھتے ہیں. اور اسی طرح فکری اور تعلیمی ادارے کی سربراہ بھی ماں ہوتی ہے اور بڑی بہنیں ان کے انہی کاموں میں ہاتھ بٹھاتی ہیں اور خود بھی سیکھتی ہیں کیونکہ کل کو انہوں نے بھی کسی گھر میں یہی ادارے چلانے ہوتے ہیں. اگر کوئی ماں اپنی اولاد میں بدرجہ کمال اوصاف پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کل ان کی اولاد قوم وملک اور وطن کی رہنما بن جاتی ہے اور یا پھر اپنے گھر کے سربراہ تو ضرور بنتے ہیں . اپنی اولاد کو حوصلہ استقامت اور بہادری کے گھن سکھاتی ہے اسلئے پوری کی پوری قوم کا انحصار ایک ماں پر ہوتا ہے کہ کل قوم وملک کو چلانے کیلئے ایک بڑے ذمہ دار انسان کو تیار کرنا ان کے ذمہ ہوتا ہے.
اس لئے یہ واضح ہے کہ اگر علوم کا فلسفہ موجود ہو تو ترقی کی منازل لازمی ہیں اور اگر دوسرے علوم موجود بھی نہ ہوں لیکن اسی فلسفے سے دوبارہ اخذ کئے جاسکتے ہیں لیکن اگر علوم اپنا فلسفہ کھو بیٹھے تو پھر علوم فقط جمود وتباہی کا باعث بنتے ہیں اور آخر فنا ہو جاتے ہیں لیکن اگر فلسفہ موجود ہو تو ان پر علوم کی نئےسرے سے عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے. اسی طرح اگر کوئی گھر باپ سے محروم ہوجائے تو ماں اپنی اولاد کیلئے سختیاں اورمشکلات برداشت کرکے ان کو اعلٰی مقام تک پہنچاتی ہے اور پھر معیشت، حفاظت اور سربراہی کی ذمہ داریاں جو ایک باپ میں پائ جاتی ہیں وہ اپنی اولاد میں پیدا کرتا ہے گویا آج کا باپ کل کی کسی ماں کا بیٹا ہوتا ہے . اور اس کی ہزاروں مثالیں ہمارے سماج میں پائی جاتی ہیں. لیکن اگر دوسری طرف کوئی بھی گھر ماں سے محروم ہوجائے تو بہت کم باپ اسے بچا سکتے ہیں. اور گھر ویران کھنڈر بن جاتا ہے اگر باپ ہزار ہا معیشت کمائے گھر کی سربراہی کرے یا حفاظت کرے لیکن انتظام کرنے کیلئے ماہر اور عادل ماں کی ضرورت ہوتی ہے اور بچے تو ایک ماں کے بغیر بالکل تباہی وبربادی کا شکار ہوجاتے ہیں تربیت سے محروم ایسے بچوں کیلئے کل کی زندگی بڑی مشکل بن جاتی ہے اور پھر گھر میں خاندانی نظام سے محروم  سماجی نظام سے ناواقف ہوجاتے ہیں اور ماں کی محبت لاڈ پیار نہ ملنے پر کل وہ بڑے ہوکر اتنی جرات بہادری اور حوصلے سے نہیں جی سکتے اور یوں ایک ماں کے نہ ہونے سے نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے اور قوم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے. اور غیر تربیت یافتہ ہوکر وہ معاشرے کیلئے ایک غیر ذمہ دار انسان کے ساتھ کبھی کبھی برائیوں کا مرکز بن جاتے ہیں . مایوس بےحوصلہ غیر تربیت یافتہ محبت سے محروم کل ایک بے جان تمدن کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں . اسلئے ایک ماں میریےنزدیک تمدن کا مرکزی فلسفہ ہوتی ہے جس کو باپ کی سربراہی اور معیشت کی ذمہ داریوں کا انتظام اور کل کی نسل کی تربیت کرنی ہوتی ہے. جس کے دل میں رب کائنات نے اپنی اولاد کیلئے انتہاء درجہ کی محبت رکھی ہوتی ہے اور اس محبت کے جزیرے میں اپنی اولاد کی ایک پھول کی طرح پرورش کرکے اگلی نسلوں میں ان کے اچھے اوصاف کے بیج منتقل کردیتی ہے.
مناظر: 233
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ