تاریخ عالم میں کچھ ایسی ہستیوں کا ظہور ہوتا آیا ہے جو اپنے فکر و عمل کی خوشبو سے جہانِ بے رونق میں زندگی کی نئی لہر پیدا کر دیتی ہیں۔ اُن کی زندگی انسانیت کے لئے کسی مسیحا سے کم نہیں ہوتی وہ اپنے علم کی شمع لئے عمل کے راستے پر چل کر دکھی انسانیت کے اخلاق کی درستگی کو اپنا نصب العین بناتے ہوے انھیں معاشرے کا کار آمد جزو بناتی ہیں۔
عصر حاضر کی وہ مجدد شخصیت جس نے انسانیت کی ترقی کو پیش نظر رکھا، جنہوں نے دین اسلام کی جامعیت (شریعت، طریقت اور سیاست) کی اساس پر نظام کی تشکیل کی دعوت بلاتفریق رنگ،نسل اور مذہب دی ان کو تاریخ امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے نام سے یاد کرتی ہے ۔
اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد ہندوستان بتدریج زوال کا شکار ہو رہا تھا ۔ انگریز دن بدن ہندوستان پر اپنا تسلط مضبوط کر رہا تھا۔ مغل نظام اپنے آخری ایام گزار رہا تھا ۔ اِس وقت ضرورت تھی کہ اس پرانے نظام کو جس کی بدولت غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے جارہے تھے اُس کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی حکیمانہ بصیرت نے یہ دیکھ لیا کہ اب موجودہ نظام انسانیت کو ترقی دینے میں ناکام ہو چکا ہے لہٰذا اسے فوراً بدلا جائے اور اس کے لئے ہر شخص جدوجہد اور کوشش کرے ۔ چنانچہ آپ نے “فک کل نظام” کا نظریہ پیش کیا۔ آپ نے یہ واضح کیا کہ انسانیت کی ترقی کا جامع اسلامی نظام کیا ہے اور سوسائٹی کی اجتماعی ترقی اس کے بغیر کیوں ناگزیر ہے۔
انگریز جو ہندوستان میں آیا تو تجارت کی غرض سے تھا مگر یہاں کی دولت دیکھ کر ہوس کا شکار بن بیٹھا اور یہاں کے ہر سیاہ و سفید کا مالک بن گیا ۔ اُس نے ہندوستانیوں کے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا اس کی داستان تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہاں کی دولت لوٹی، معدنیات اورنباتات پر قبضہ کیا،مقامی صنعتوں اور منڈیوں کو آگ لگا دی، معاشی نظام برباد کر دیا اور تہذیب و ثقافت کے پرخچے اڑا دئے۔
ان حالات کے پیش نظر ولی اللہی جماعت ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتی تھی ۔ چنانچہ اس جماعتِ حقہ نے انگریزوں کے مظالم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی میدان میں بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابلہ کیا۔
یہی جماعت آگے چل کر 1831ء میں معرکہ بالاکوٹ میں سکھوں کے خلاف لڑتی ہے اور سید احمد شہید جیسے اس جماعت کے سرخیل جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کو کون بھول سکتا ہے جس کی تاریخ انگریزوں کی سفاکیوں سے بھری ہوئی ہے ۔ جس میں ہزاروں علماء اور قومی راہنماوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ اِن حالات میں کہ جہاں آزادی کا نام بغاوت تھا اور سر اٹھانے والے کی سزا موت سے کم نہ تھی۔ ولی اللہی جماعت کے بزرگوں نے تھانہ بھون اور شاملی کے میدان میں انگریز کے خلاف مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔
1857ء کی جنگ آزادی کی بظاہر ناکامی کے بعد ولی اللہی جماعت نے انگریز سے مزاحمت کی تیاری کے لئے 1866ء میں ضلع سہارن پور میں دیوبند کے مقام پر ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ جہاں علوم اسلامیہ کے ساتھ ساتھ ریاضی، فلسفہ، منطق،طب اور علوم عمرانیات کے علاوہ دیگر عصری علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ دار العلوم دیوبند کے فارغ التحصیل شیخ الہند مولانا محمود حسن سے کون واقف نہیں کہ جن کی قیادت میں 1908 میں “جمیعت الانصار” کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ جمعیت انگریز سامراج کے خلاف فضلائے دیوبند کو منظم کرنے اور عوام میں ولی اللہی افکار کے فروغ کے لئے کام کرتی رہی۔ جس نے 1913 میں ایک تحریک کی صورت اختیار کرلی جسے “تحریک ریشمی رومال” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
تحریک ریشمی رومال حکومت برطانیہ کے خلاف آزادی کی ایک خفیہ تحریک تھی جس کا مقصد مختلف ممالک کو حکومتِ برطانیہ کے خلاف اکٹھا کرنا تھا۔ جس میں پیغامات خفیہ طور پر ریشمی رومال پر لکھ کر بھیجے جاتے تھے۔ اس تحریک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب حکومتِ برطانیہ کو اِس کا پتا چلا تو اُن کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی جس کے ردِعمل میں حکومت برطانیہ نے رولٹ ایکٹ نافذ کر دیا اور ظلم و جبر کو قانونی حیثیت دی گئی۔ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا ۔ آزادی رائے پر پابندی لگا دی گئی ۔ رولٹ ایکٹ کے نفاذ کے بعد پورے ملک میں انگریز سامراج کے خلاف ایجیٹیشن شروع ہوئی۔
اسی دوران امرتسر میں جلیاں والا باغ کا دہشت ناک حادثہ پیش آتا ہے جس کی بدولت عوام خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں اور ان میں آزادی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے نتیجے میں سول نافرمانی کی تحریک ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل جاتی ہے۔
تحریک ریشمی رومال ہندوستانیوں میں آزادی کی نہ ختم ہونے والی لہر پیدا کر دیتی ہے جو بعد میں تحریک خلافت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور بالآخر ہندوستان اپنی آزادی حاصل کرتا ہے۔ جنوری 2013ء میں انڈیا کے صدر پرناب مکھرجی نے تحریک ریشمی رومال اور قائدین کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے ایک ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا۔
گویا یہ امام شاہ ولی اللہ کی جماعت ہی تھی جس نے آزادی کی شمع کو کبھی بجھنے نہ دیا اور انگریز سامراج کے خلاف اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔
دور حاضر میں امام شاہ ولی اللہ کے افکار کی ترویج اور اسے نوجوان نسل تک پہنچانے کے لئےحضرت شاہ سعید احمد رائے پوری نے لاہور میں “ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ” کی بنیاد رکھی۔ جو نوجوانوں کو مایوسی سے نکال کر فکر و عمل کی راہ دکھاتا ہے، موجودہ نظام کی خرابیاں اور اِس کے مقابل دین اسلام کی جامعیت (شریعت، طریقت اور سیاست) کی اساس پر نظام کی تشکیل کا درس دیتا ہے . اِس حوالے سے نوجوانوں کو اُن کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا اور اُن کی تربیت کا اہتمام کرنا ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کے مقاصد میں شامل ہے ۔ یونیورسٹیز اور کالجز کے ہزاروں طلباء اِس چشمہ ہدایت سے فیض یاب ہورہے ہیں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں معاشرے کا مفید کل پرزہ بن کر کام کر رہے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم امام شاہ ولی اللہ کے اُس فکر و نظریے کو سمجھیں جو ہر لحاظ سے جامع ہے۔ جس میں انبیا کی تعلیمات بھی سموئی ہوئی ہیں اور اُس کی اساس پر معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل کا سائنسی بنیادوں پر حل بھی لئے ہوئے ہے۔
آج ہمیں اپنے جمود کو توڑنا ہے، سستی اور کاہلی کو ختم کرنا ہے اور انسانیت کی ترقی کے جو بنیادی اصول امام شاہ ولی اللہ نے متعین کئے ہیں اُن کی روشنی میں خود کو تربیت کے لئے پیش کرنا اور ایک صالح جماعت کا حصہ بننا آج کے دور کا تقاضا ہے اور انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے.