دینِ اسلام اپنی جامع تعلیمات کے سبب انسانیت کے جملہ مسائل کا مکمل حل پیش کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے دورِ عروج کے کامیاب معاشرے اس کی روشن اور زندہ مثال ہیں۔ جب تک مسلمان معاشروں کے سامنے اسلام کا اجتماعی نصب العین اور دین کا حقیقی نظریہ رہا ہے، اس وقت تک تو اجتماعی قومی مسائل اور ریاستی امور تک میں بھی اسلام ہی کے نظامِ فکر سے رہنمائی لی جاتی رہی ہے۔
جب نصب العین اور نظریہ آنکھوں سے اوجھل ہوا تو دورِ زوال میں جہاں ایک طرف علمائے حق کا طبقہ اپنا سب کچھ قربان کرکے دین کا نظام اور وقار بحال کرنے میں مصروف تھا، وہاں دوسری طرف دین کے نام پر کچھ مذہبی طبقے اپنے مفادات کا کھیل کھیلنے میں مصروف رہے۔ موخر الذکر طبقے کے اس گھناونے کردار کے سبب نہ صرف دین کو اجتماعی معاملات میں نظرانداز کرنے کا رویہ عام ہوگیا، بلکہ آج تو اس طبقے کے کردار کے سبب مذہب کے نام پر کاروبار نے ایک وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ایسے لوگ اپنی پروڈکٹس کے نام کے ساتھ مذہب اور مقدس مقامات کے نام استعمال کرکے لوگوں کے دینی جذبے کا استحصال کرتے ہیں، جیسے اسلامک بینکنگ، اسلامک شہد، مکہ کولا، طب ِاسلامی، علاوہ ازیں عمرہ و حج ٹریولنگ، عجوہ کھجور، حجامہ، جادو اور نظر بد کے لیے دم درود اور استخارہ کرنے کے نام پر کاروبار عروج پر ہیں۔ ایسے ہی حج بدل کے نام پر ائمہ مساجد اور مذہبی طبقوں کی طرف سے مال دار طبقوں کی آخرت سنوارنے کے مکمل پیکج دےے جاتے ہیں، حتیٰ کہ کچھ مقررہ معاوضے پر قضا نمازیں پڑھوانے تک کے اشتہارات شائع ہو رہے ہیں۔
اس طرح گویا مذہب کا نام ایک مقبول ترین انڈسٹری (Industry) کے طور پر معاشرے میں متعارف کروایا جا رہا ہے۔ ان سرگرمیوں کے جواز اور ترویج کے لےے احادیث اور قرآنی آیات کو اپنے من پسند معنی اور مفاہیم پہنائے جانے کا رُجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ دینی فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے مذہبی حلقوں میں فضائل اور ثواب اکٹھا کرنے کا مزاج ترویج پاتا جا رہا ہے۔ معمولی معمولی عمل سے گناہوں کی معافی اور ثواب کی کثرت کا نظریہ فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ ایک خاص مزاج ہے، جس کے دم قدم سے مذکورہ بالا سرگرمیوں کو افزائش کے باہم مواقع میسر آتے ہیں۔ گویا یوں دین کی چھتری تلے خالص دنیا سنوارنے کا اہتمام کرلیا گیا ہے۔جب قوموں کے سامنے اجتماعی نصب العین اور دین کا حقیقی نظریہ نہ رہے تو چالاک لوگ قوم کی بے شعوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہب کے نام پر ایسی سرگرمیاں مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ مذہب کے نام پر مالی و مادی منفعت کے یہ دھندے ہمارے بدترین زوال کی علامت ہیں، جس سے دین کی اجتماعی فکر کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ دین سے مخلص طبقوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ان کے سد ِ باب کی حکمت ِعملی وضع کریں اور معاشرے میں حقیقی دینی شعور پیدا کریں۔