• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
مولانا طارق جمیل کے نام — تحریر: سجاد میرمولانا طارق جمیل کے نام — تحریر: سجاد میرمولانا طارق جمیل کے نام — تحریر: سجاد میرمولانا طارق جمیل کے نام — تحریر: سجاد میر
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

مولانا طارق جمیل کے نام — تحریر: سجاد میر

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • مولانا طارق جمیل کے نام — تحریر: سجاد میر
عالمی استعماری نظام کا انسانیت پر نیا حملہ
اپریل 1, 2020
مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ محمد اقبال — تحریر: واجد علی
اپریل 30, 2020
Show all

مولانا طارق جمیل کے نام — تحریر: سجاد میر

اللہ کے بندوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ خود کو اقتدار کی غلام گردشوں سے دور رکھتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے ایک جگہ لکھا ہے کہ خاندان چشتیہ کے ملفوظات میں ہے کہ ہر وہ شخص جس کا نام بادشاہ کے دفتر میں لکھا گیا‘ اس کا نام حق سبحانہ کے دفتر سے نکال دیتے تھے۔ اس سلسلے میں سب سے خوبصورت رویہ بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا ہے۔ انہوں نے دلی اس لئے چھوڑنا ضروری سمجھا کہ وہاں اہل اللہ دربارداری کرنے لگے تھے۔ بابا صاحب انہیں روکتے تھے۔ ایک بار ایک بہت ہی جید بزرگ جنہوں نے خود کو منصب داروں کے قریب کر لیا تھا‘ اسی بنا پر مشکل میں پھنس گئے۔ لوگوں نے بابا صاحب سے درخواست کی کہ اس کے لئے کچھ کیا جائے۔

بابا صاحب نے کیا خوبصورت انکار کیا۔ فرمایا’’ہر وہ درویش جو بادشاہوں اور امیروں سے اختلاط کا دروازہ کھولتا ہے‘ اس کی عاقبت خراب ہوتی ہے اور معذرت کرلی۔ ایک جگہ تو اس حوالے سے بابا صاحب کے بہت ہی سخت الفاظ مرقوم ہیں۔ دلی میں اس وقت بڑے نیک نام بادشاہ موجود تھے‘ مگر حضرت نظام الدین اولیا ؒنے ایسا خانقاہی نظام وضع کیا جو دربار سے الگ تھلگ تھا۔ یہ سب باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ ان دنوں حضرت طارق جمیل کی دعائوں کا بہت تذکرہ ہے۔ میں یہ چند سطریں ان کی شان میں گستاخی کے لئے نہیں لکھ رہا بلکہ اتمام حجت کی خاطر ایسا کر رہا ہوں۔ ویسے میں کیا اور میری حیثیت کیا۔ یہ نہیں کہ درویشوں کے رویے اس سے الگ نہ رہے ہوں گے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے ہم عصر حضرت رکن عالم جب دلی دربار میں آئے تو حضرت نظام الدین نے شہر سے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ حضرت رکن عالم کی پالکی درخواستوں سے بھری ہوئی تھی جو لوگوں نے اپنے اپنے کاموں کے سلسلے میں دے رکھی تھیں۔ وہ دربار ہی کے لئے آئے تھے یہ سب درخواستیں اس خاطر تھیں کہ لوگوں کی شکلیں آسان ہو سکیں۔ ایک اور رویہ تھا جب حضرت مجدد الف ثانی نے بااثر لوگوں کو خطوط لکھے اور فوج میں مجبوراً رہ کر لوگوں میں تبلیغ کی ۔ ہر قسم کا رویہ ہے جس کے الگ الگ معانی ہیں۔

گزشتہ دنوں مولانا طارق جمیل کی ایک تصویر چھپی کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں وزیر اعظم سے مل رہے ہیں۔ کسی نے فیس بک پر یہ تصویر لگا کر لکھ رکھا تھا: آپ کی کیا رائے ہے۔ میں نے ایسے ہی لطف لینے کے لئے لکھا دیا کہ عمران خان یا طارق جمیل؟ کس کے بارے میں کسی شناسا نے جواب میں لکھا کہ جناب آپ کی رائے درکار ہے۔ مذاق میں نہ ٹالئے۔ دوبارہ عرض کیا کہ میں صوفیا کے اس عقیدے کا قائل ہوں کہ اللہ اللہ کو اہل اقتدار سے دور رہنا چاہیے۔ میرے پیش نظر بالخصوص حضرت بابا فرید کا رویہ تھا جنہوں نے اس خطا پر ایک بزرگ کی سفارش تک کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ ویسے ایک نکتہ ہے حضرت مولانا صوفی نہیں ہیں۔ مبلغ ہیں۔ وہ خود کو اسی حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ دعوت کا کام تو کہیں بھی ہو سکتا ہے اور اس پر اعتراض بھی نہیں ہے کہ وہ کسی اداکارہ کو بیٹی بنائیں یا دعوت حق کے لئے کہیں بھی جائیں۔ اگرچہ یہ کام بھی مشکلات لاتا ہے۔ ان سے پہلے یہ کام مولانا اکرم اعوان کیا کرتے تھے۔ ویسے میری تو ان سے بھی نیازمندی تھی۔ اس موقع پر بھی مجھے حضرت نظام الدین ؒکا رویہ یاد آیا۔ ان کے بارے میں تاریخ فیروز شاہی میں درج ہے کہ ایک زمانے میں انہوں نے بیعت کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ وہ گناہگاروں کو خرقہ پہناتے اور ان سے توبہ کراتے اور خود اپنے ارادے سے قبول کرتے۔ ہر شخص خود کو حضرت کا مرید سمجھتا‘ اس لئے بہت سے ناکردنی باتوں سے پرہیز کرنا۔ میں نے کہیں یہ بھی دیکھا ہے کہ حضرت سے جب یہی بات کہی گئی تو انہوں نے یہی جواب دیا لوگ مری نسبت کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے باز رہتے ہیں۔ اس لئے میں نے ان بزرگوں کی نسبت پر کبھی شک نہیں کیا جو تبلیغ کی نسبت سے ایسے لوگوں تک بھی جاتے ہیں جنہیں عام دنیا اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی اگرچہ اس میں خطرات بہت ہوتے ہیں۔ اس وقت بات مگر ایوان اقتدار سے اہل اللہ کے رابطوں کی ہے‘ پھر ان کی تعریف و توصیف کی ہے۔

حضرت مولانا کا عمران خاں کی حمایت میں کھلم کھلا گفتگو کرنے کا رویہ بہت سے لوگوں کو کھلتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے تو یہ تک کہہ دیا کہ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں کابینہ میں بیٹھ کر آپ نواز شریف کے لئے بھی ایسی دعائیں کرتے تھے۔ مجھے اس کی خبر نہیں ہے۔ البتہ بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ انہوں نے ہی پڑھائی تھی۔ اگرچہ مجھے علم ہے کہ مسلک کے لحاظ سے میاں صاحبان بالکل مختلف لوگ ہیں۔ بہرحال میں نے اکثرانہیں اہم لوگوں کے جنازے میں نماز پڑھاتے دیکھا ہے۔ یہ بھی سعادت ہے جو خدا دے دیتا ہے۔ کسی نے اس پر کہا کبھی کسی غریب آدمی کے در پر بھی انہیں دیکھا ہے۔ میں ان سے سب سے پہلے کئی برس پہلے روشناس ہوا تھا جب اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کا دعوت نامہ ملا کہ چیف منسٹر ہائوس میں مولانا طارق جمیل مختصر سے اجتماع سے خطاب فرمائیں گے آپ بھی تشریف لائیں۔ جانے میں کیوں کھٹک گیا۔ میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں ۔سچ مچ بے خبر تھا بتایا گیا یہ آج کل فنکاروں وغیرہ اور ایسے ہی طبقات میں مقبول ہو رہے ہیں۔ اس میں یہ خیال رہے کہ بابا صاحب نے یہ بات ایک ایسے شخص کے بارے میں کہی جو نامور بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ اس دن سے میں مولانا کو بہت غور سے سن رہاہوں۔ خاص کر ان کی دعائوں کو۔ میں ادب کا طالب علم ہوں۔ کہا جاتا ہے اسلوب ہی انسان ہے جس تحریر میں خطابت کا عنصر آ جائے۔ مجھے اس میں مصنوعی پن دکھائی دیتا ہے۔ تقریروں کو ذرا اور طرح سے جانچتا ہوں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کو ہم نے سنا نہیں مگر ان کے انداز سے متاثر ہونے والوں کو سنا ہے۔ وہ دوسری چیز ہے۔

مشائخ اور اللہ والوں کو سادگی سے دعائیں مانگیں دیکھا ہے ان میں رقت ہو تو بھی نہ ہو تو بھی مگر ایسی تاثیر ہوتی ہے کہ دل پر اثر کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آسمانوں کے کنگروں کو بھی ہلا کر نہ رکھ دیتی ہو۔ ہاں ایک بات سخت گسترانہ آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ مولانا ایک ایسی جماعت کے رکن ہیں جو سیاست سے دور رہتی ہے۔ یہ بھی واقف ہوں کہ تبلیغی جماعت نے ایک طویل عرصے تک انہیں اپنا پلیٹ فارم نہیں دیا۔اس سے بھی واقف ہوں کہ اس کے سابقہ امیر حاجی عبدالوہاب صاحب سے ان کی بنتی نہ تھی۔ ایک آدھ بار حویلی کی بیٹھک میں بات اتنی بڑھ گئی کہ بعد میں حاجی صاحب کو اپنے حامیوں کو اپنی بصیرت اور مصلحت کی وجہ سے قابو کرنا پڑا۔چلیے یہ تو اندرونی معاملہ ہے۔ یہاں صرف یہ کہنا ہے کہ تبلیغی جماعت ایک غیر سیاسی جماعت ہے۔ اس لئے آپ کم از کم سیاست سے باز رہیں شاید آپ اس کے اسرار درخور سے واقف نہیں۔ اس باب میں گستاخی نہ ہو تو آپ سے پہلے اہل اللہ نے دستور حیات گویا یہ کہہ کر مرتب کر دیا تھا کہ یہ زمانہ وحشت گزر رہا ہے۔ حکمران طبقے کی مخالفت کی جائے نہ موافقت۔ مگر یہ ابتدا تھی۔ انتہا میں نے بتا دی ہے ۔ یہ کم سے کم شرط تھی۔ چلیے اس پر عمل کر لیجیے۔!

مناظر: 234
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ