کسی بھی انسانی معاشرے کے اندر دو افراد یا مکاتب ِ فکر کے درمیان اختلاف کا پایا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ فکری، نظریاتی یا تعبیرکا اختلاف دراصل ایک زندہ معاشرے کی جہاں ایک طرف عکاسی کرتے ہیں، تو دوسری طرف باقی افراد ِ معاشرہ کو بھی سوچنے اور اپنے لیے ایک راہ متعین کرنے کا کام دیتے ہیں۔ہمارے ہاں تحریک ِ آزادی کے اندر بھی کچھ ایسی ہی صورت ِ حال رہی ہے ، اور اس کے اندر ہمیں دو مکاتب ِ فکر مسلمانوں کے نظر آتے ہیں، جن میں سے ایک جمعیت علمائے ہند ہے، تو دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ ۔
ان میں سے ایک مکتبہ فکر جہاں پورے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے، وہیں دوسرا مکتبہ فکر صرف ایک خاص قوم یعنی مسلمانوں کے لئے ایک الگ خطے کا حصول اور ان کی اپنی حکومت کے قیام کو ضروری سمجھتا ہے۔ تاہم ان ہر دو مکاتب ِ فکر کی سوچ کے اندر جو ایک ، واضح اختلاف دکھائی دیتا ہے وہ قومیت کی بنیادی تعریف اور اس کے خدوخال کو متعین کرنے کا بھی ہے۔ اگر ہم جمعیت علمائے ہند کی بات کریں تو، وہ مسلم قوم کےلئے اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے، ہندوستان کی باقی تمام اقوام کے ساتھ تعاون کو جائز مانتی ہے، اور دوسری طرف مسلم لیگ کا نظریہ قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ، اور مسلم قوم سے مراد صرف ایک نبی یعنی حضرت محمدﷺ کو ماننے والے افراد ہی ہیں۔چنانچہ مسلم لیگ کی ساری جدوجہد کا محور ایک ایسے خطہ ارض کا حصول ہے، جس میں مسلمان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق اسلام کے بتلائے ہوئے اصول و قوانین کے تحت زندگی گزار سکیں۔
تاہم تحریک ِ آزادی کے اندر ایک وہ دور بھی آیا جب، ان دونوں نظریات کی مڈبھیڑ ہوئی، اور یوں ایک نئی بحث کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ اس قضیے کی ابتداء اس وقت ہوئی، جب جمعیت علمائے ہند کے اُس وقت کے صدر مولانا سیدحسین احمد مدنی نے 1938 کے اندر اپنی ایک تقریر میں اس بات کا اظہار کیا کہ، موجودہ دور کے اندر اقوام کی بنیاد وطنیت پر ہے۔ اس تقریر کے اس اہم حصے کو اخبارات نے اپنی سرخی بناکر، دوسرے روز خوب اچھالا اور یوں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔
اس خبر نے جہاں مسلمانوں کے اندر ایک نئی سوچ کو پیدا کیا، وہیں جب یہ خبر ڈاکٹر سر محمد اقبال تک پہنچی تو انہوں نے مولانا مدنی کے خلاف کچھ اشعار فارسی میں لکھ ڈالے، جس میں ایک طرف تو مولانا مدنی کی ہجو کی گئی، تو دوسری طرف ان کے اس نظریہ قومیت کے اوپر بھی تنقید کی گئی۔
عجم ہنوز نداند رموز ِ دیں، ورنہ
ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بو العجبی است
سرود بر سر ِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقاؐم محمدﷺ عربی است
چناچہ تحریک ِ آزادی کے اس اہم موڑ پر، سر محمد اقبال کے ان اشعار نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا، اور یوں مسلمان قوم دو واضح حصوں میں منقسم ہوگئی۔
ان اشعار کو آڑ بنا کرجہاں ایک طرف وطن پرست عناصر کے اوپر تنقید کی گئی، وہیں خصوصی طور پہ جمعیت علمائے ہند کو بھی مسلم امت کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔ یہ وہ ایام تھے جب، سر ڈاکٹر محمد اقبال علیل تھے اور ازاں بعد یہی علالت مرض الوفات میں تبدیل ہوگئی۔
ان حالات میں مسلم قوم بجائے متحد ہونے کے، وہ دو حصوں میں منقسم ہوئی، تو کچھ درد ِ دل رکھنے والے اصحاب نے اس کشیدگی کی خلیج کو پاٹنے کا فیصلہ کیا۔ اور اپنی طرف سے وضاحتی خطوط سر محمد اقبال کی خدمت میں ارسال کیے۔ ان میں سے دو اہم خطوط بہت نمایاں ہیں، جن میں سے ایک خط علامہ طالوت صاحب کا اور دوسرا علامہ سید سلمان ندوی صاحب مرتب سیرۃ النبیﷺ کا ہے۔ تاہم اس مضمون کے اندر یہ ہیچمداں ، اس دوسرے خط جو سید سلمان ندوی صاحب کی طرف سے لکھا گیا، اس کا احاطہ کرنا چاہتاہے۔
یہ ایک طویل خط سید سلمان ندوی صاحب نے اس وجہ سے لکھا کیونکہ، اول وہ اُسی دارلعلوم دیوبند کے ہم مشرب اور فارغ التحصیل مولانا اشرف علی تھانوی کے خلفاء میں تھے، اور دوسری طرف سر ڈاکٹر محمد اقبال بھی آپ کا بےحد احترام کرتے تھے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت اظہر من الشمس ہے، کہ آپ سیاسی موقف کے لحاظ سے مسلم لیگ کے مسلک پہ قائم تھے۔ اس کے باوجود آپ نے اس تنازع کو حل کرنے کی سعی فرمائی، اور ڈاکٹر صاحب کے دل میں موجود بدگمانی کو رفع کیا۔
علاوہ دیگر باتوں کے آپ نے اپنے اُس خط میں، ڈاکٹر صاحب کو ایک مثال بھی پیش کی جس کے اندر آپ نے کہا کہ اگر ہندوستان سے ایک سکھ، ایک ہندو اور ایک مسلمان کسی دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے، تو ان تمام کے پاسپورٹ میں قومیت کے خانہ میں صرف ایک ہی لفظ”ہندوستانی” لکھا جاتا ہے۔ لہذا مولانا مدنی کی یہی مراد تھی اس جملے سے کہ، اب قومیت کی بناء کا معیار مذہب نہیں بلکہ وطن بن چکا ہے۔
ان حالات میں کہ جب ڈاکٹر صاحب علیل تھے، مگر آپ کے پاس جیسے ہی یہ خطوط پہنچے، اور آپ پہ صورت ِ حال واضح ہوگئی، تو آپ نے اپنا رجوع نامہ اُس وقت کے ایک موقر اخبار”احسان ” میں شائع ہونے کو بھیجا، جس میں آپ نے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے، مولانا سے کیے گئے ناروا سلوک کی معافی مانگی اور ان کے موقف کو بھی تسلیم کیا۔
چونکہ یہ آپ کے آخری ایام تھے، لہذا کسی نے اس بات کی طرف توجہ نہیں دی کہ ان اشعار کو منسوخ کردیا جائے۔ اور جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کا اپریل 1938 میں انتقال ہوا، تو آپ کی کتاب ارمغان حجاز جو آپ کے انتقال کے بعد شائع ہوئی، اس میں ان منسوخ اشعار کو بھی شامل کردیا گیا۔ اب چونکہ اس واقعے کو ایک عرصہ گزرچکا ہے، اور دوسری طرف ہمیں ایک خاص نقطہ نظر سے لکھی گئی تاریخ سکولوں اور کالجز میں پڑھنے کو ملتی ہے، لہذا آج بھی ان منسوخ اشعار کو موضوع بنا کر مولانا کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
تاہم یہ حقیقت کسی بھی محقق سے مخفی نہیں، کہ ڈاکٹر صاحب کسی روایتی مولوی یا نام نہاد علامہ کی مانند اس مسئلے کو اپنی انا نہیں سمجھے، اور حقیقت واضح ہوتے ہی اپنے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے مولانا سے سر عام معافی کے خواستگار ہوئے۔ دوسری طرف مولانا حسین احمد مدنی نے بھی، کھلے دل کے ساتھ ان کو معاف کیا، اور ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے موقع پر جمعیت علمائے ہند کا خصوصی اجلاس بلا کر ، نہ صرف ان کیلئے دعائے مغفرت کی گئی، بلکہ آپ کے انتقال کو ایک عظیم قومی سانحہ قرار دیا گیا۔
عرض ِ مرتب: اس مضمون کی تیاری میں کتاب “انوار ِ اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار صاحب” شائع کردہ اقبال اکیڈمی کراچی اور کتاب “چراغ ِ محمد مرتبہ قاضی زاہد الحسینی صاحب” شائع کردہ خانقاہ مدنی اٹک شہر سے استفادہ کیا گیا ہے۔