یورپ کی عظیم صنعتی سلطنت کی بنیادوں میں اُن کروڑوں غلاموں کی آہیں اور سسکیاں شامل ہیں جن کو افریقہ اور دنیا کے دوسرے ملکوں سے پکڑکر لاطینی امریکہ اور شمالی امریکہ میں جانوروں کی طرح استعمال کیا گیا۔ یوں تو غلامی کی تاریخ معلوم انسانی تاریخ کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ان کو اہرام مصر سے لے کر یونانی تہذیب اور یونانی تہذیب سے پھر سرمایہ دار تہذیب میں اپنا خون دینا پڑا۔ یہ قربانی ابھی جاری تھی کہ ایک غلامی کا بڑا ریلہ نئی دنیا کی دریافت سے شروع ہو گیا۔ ان سے اتنا کام لیا جاتا تھا کہ یہ جلد ہی مر جاتے تھے۔
’’کثرت کار سے تھک کر مر جانا موت کی سماجی طور پر متعارف ترین شکل تھی‘‘ (مارکس)
مارکس نے یہ صورت حال ڈیوڈ واس سیکولس کی تاریخ بائیبل سے بتائی ہے وہ کہتا ہے کہ:
’’ان بدبختوں کو (مصر، حبشہ اور عرب کے درمیان کی سونے کی کانوں میں) جن کے جسم گندے اور کپڑوں سے محروم ہیں جو بھی دیکھے گا ان کے حال زار پر رحم کرے گا۔ ان کانوں میں نہ تو بیمار کے لیے معافی نہ بوڑھے کے لیے اور نہ عورتوں کی کمزوری کے لیے سب کو مار اور پٹائی سے ڈر کر کام کرنا پڑتا تھا۔ تاآنکہ موت ان کے مصائب و مشکلات کا خاتمہ کردے۔‘‘
(بحوالہ مارکس داس کیپٹیل)
غلاموں کو دو حوالوں سے افریقہ سے پکڑ کر لاطینی امریکہ لے جایا گیا۔ ایک تو یوں کہ جب کانوں سے آسانی سے سونا اور چاندی نکلنا بند ہو گیا تو زیادہ محنت کی ضرور ت پیش آئی اور یہ غلاموں کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ دوسرا شوگر کی بڑھتی ہوئی مانگ نے ان علاقوں میں شوگر پلانٹیشن یعنی شکر سازی کو رواج دیا جس کے لیے غلاموں کی شدید ترین ضرورت تھی۔
سترھویں صدی کے آخر تک یہ تجارت صرف برازیل میں زیادہ تھی۔ سیمنسن نے اندازہ لگایا ہے کہ سترھویں صدی کے آخر تک غلاموں کی تجارت افریقہ سے برازیل کو 350,000 تھی جو کہ 1700 ء سے 1850 ء تک بڑھ کر 1,000,000ہو گئی۔ 1713ء کے میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ فرانس سے انگلینڈ نے غلاموں کی تجارت سپین کی کالونیوں کے لیے حاصل کر لی۔ برطانیہ نے سترھویں صدی کے وسط میں باربادوس سے شوگر کی پیداوار شروع کی۔ یوں وہ 1646-67ء میں چھوٹی چھوٹی کاشتکاریوں سے بڑی غلاموں کے ذریعے کاشت کرنے والی سوسائٹی میں بدل گیا۔ اگلی نو آبادی بسلسلہ شوگر پلانٹیشن جمیکا تھی، جسے پہلی دفعہ 1655ء میں فتح کیا گیا۔ اس علاقے کے بعد 1790ء کے قریب برطانیہ باربادوس کی نسبت اس علاقے سے دس گنا زیادہ شکر پیدا کر رہا تھا۔ 1773-74ء میں جمیکا میں 200,000غلام 775 شوگر پلانٹیشن پر کام کررہے تھے۔ جمیکا سے کل نفع جو برطاینہ کو حاصل ہوا وہ 1773ء میں 1.5ملین پائونڈ تھا۔
اس غلاموں کی تجارت کے زمانے کے بارے میں مارکس لکھتا ہے کہ:
’’غلاموں کا مالک اس طرح غلام خریدتا ہے جس طرح گھوڑا خریدتا ہے۔ اگر وہ اپنے غلام سے محروم ہو جائے تو وہ اُس سرمائے سے محروم ہو جاتا ہے جو غلاموں کے بازار (نخاص) میں مزید سرمایہ لگانے سے بحال ہو سکتا ہے۔ لیکن جارجیا کے چاول کے کھیت یا مسی سپی کی دلدلیں انسانی جسم کے لیے مہلک ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان اضلاع میں انسانی جان کا جو ضیاع ناگزیر ہوتا ہے وہ اتنا زیادہ نہیں ہے جو ورجینیا اور کنٹکی کی کثیر آبادی سے پورا نہ ہو سکے۔ علاوہ ازیں معمولی فطری صورتحال میں آقا کے اس مفاد کے تحت کہ اس کے غلام کی بقاء اس کا اپنا مفاد ہے غلام کے ساتھ شریفانہ سلوک کی ضمانت پیدا ہوتی ہے۔ مالک خرچ میں زیادتی سے بچنے کے لیے مزدور کی بقاء کا خیال رکھتا ہے مگر جب غلامی عام ہو جاتی ہے تو پھر غلام سے زیادہ سے زیادہ سختی سے کام لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جب ایک غلام کی جگہ پُر کرنے کے لیے غیر ملکی ذخائر سے مزید غلام مہیا ہو سکتے ہیں تو مزدور کی طویل عمر اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی اس کی صلاحیت پیداوار جب تک صلاحیت پیداوار باقی ہے۔ چنانچہ غلامی والے ملکوں میں مزدور رکھنے کاایک یہ اصول مانا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ کم خرچ۔ اس طرح ممکن ہے کہ انسانی جانور سے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ محنت کرائی جائے۔‘
(مارکس، داس کیپٹل صفحہ 494 ترجمہ سید محمد تقی مطبوعہ 2005ء دارالشعور لاہور)
اس سارے ظلم اور زیادتی کی بابت قانون اور مذہب نے کیا کہا۔ قانون تو معاشی مفادات کا ننگا اظہار ہوتا ہے اس لیے اُس پر تو بات کرنے سے بہتر ہے کہ ہم مذہب کے حوالوں کی تفصیلات میں جانے کی کوشش کریں۔ پادری حضرات ان کالے وحشی غلاموں کو تہذیب سکھانے کی ذمہ داری لیے پھرتے تھے۔ اس سلسلے میں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ چرچ میں کوئی فرق نہ تھا۔
’’کیتھولک فرانس اور پروٹیسٹنٹ چرچ کے مذہبی اختلافات کے باوجود غلاموں کی طرف ان کا اخلاقی اور مذہبی رویہ حیران کن حد تک ایک سا ہی تھا۔
(Elsa Goveia, as quoted by Andre Gunder Frank in “World Accumulation”, P.127)
افریقہ میں غلاموں کی تجارت کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے لیکن ان سطور میں ہمارا نقطۂ نظر صرف سرمائے کے اجتماع کے دور میں غلاموں کی تجارت سے ہے۔ ڈیوڈسننے بحیرۂ اوقیانوس کے گرد غلاموں کی تجارت کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور وہ ہے جب کہ غلاموں کو یورپی قزاق سمندروں میں پکڑ لیتے تھے۔ دوسرا دور وہ ہے جب یورپی حملہ آور ساحلی علاقوں کے سرداروں سے زبردستی غلام وصول کیا کرتے تھے جو کہ غلام پکڑ کر اُنہیں منافع پر فروخت کرنے لگے۔ تیسرے دور میں باقاعدہ ساحلی علاقوں کے سرداروں اور غلاموں کے یورپی تاجروں میں بزنس پارٹنر شپ ہو گئی اور وہ ساحلوں سے اندر تک جا کر جنگلوں میں غلاموں کو گرفتار کرنے لگے۔ غلاموں کی اس تجارت نے افریقہ کے چار اہم علاقوں کو متاثر کیا جن میں کانگو، نائیجر ڈیلٹا، گوئنے کوسٹ اور مشرقی افریقہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ 1600ء میں غلاموں کی تجارت 2000 فی سال تھی۔ اٹھارویں صدی میں یہ اوسطاً 55000 فی سال ہو گئی جب کہ 1780ء کی دہائی کے سالوں میں 100,000فی سال تک بھی رہی۔ یہ سپلائی کبھی ایک اور کبھی دوسرے علاقے سے دی جاتی تھی۔ ان غلاموں کی تجارت میں افریقی لوگوں کی آپس کی تقسیم کے حوالے سے ڈیوڈسن نے اپنی کتاب ’’افریقہ کی غلاموں کی تجارت‘‘میں کہا ہے کہ:
’’اس طریقے سے افریقہ کے اندر کے میدانی علاقوں کے لوگ برطانوی لوگوں سے دور ہوتے تھے۔ ساحلی علاقوں کے سردار یورپیوں سے غلاموں کے عوض اسلحہ خریدتے تھے جب کہ پیچھے کے لوگوں کا یورپیوں سے کوئی رابطہ نہ ہوتا تھا اس تجارت میں غلام ہی بن سکتے تھے۔‘‘
(Davidson Basil “The African Slave Trade Pre-Colonial History 1450-1850” Boston Atlantic-Little Brown, 1961, P213, 226)
یوں ساحلی علاقوں کے افریقی سردار بھی اس تجارت میں نفع کماتے رہے اور وہ قریبی پارٹنر بنتے گئے اور اس کی وجہ سے غلاموں کی تجارت ممکن ہوئی۔ جیسے ہی پورپی تاجروں کو افریقی سردار مل جاتے تجارت بہتر ہو جاتی بصورت دیگر اس پر زوال کے آثار آنا شروع ہو جاتے۔ اس طرح ان سرداروں کی طاقت میں بھی بے انتہا اضافہ ہوگیا اور اس دولت کی بدولت اُن کے لیے اندر کے علاقوں کی اکثریت کو قابو کرنا ممکن ہو گیا۔ اس کے علاوہ ان تاجروں کے ساتھ عیسائی مشنری بھی آیا کرتے تھے جن کی ’’الوہی‘‘ ڈیوٹی ان وحشیوں کو تہذیب سکھانے کے لیے لگائی گئی تھی۔ اس دو طرفہ غلاموں کی تجارت اور امریکہ کی شوگر کی کاشت کے بارے میں ڈیوڈ سن یوں رقم طراز ہے کہ:
’‘’لہٰذا تجارت اس طریقے سے منظم ہوئی کہ ایک طرف خدا اور بندوق جب کہ دوسری طرف کشتی اور شوگر کی کاشت تھی۔‘
(Ibid, 226)
یوں اس تجارت نے افریقہ کے ساحلی علاقوں پر کچھ اور اندرونی علاقوں پر کچھ اور اثر ڈالا۔ اس کا بڑا اثر پہلے سے موجود ریاستوں کے انتشار کی شکل میں نکلا۔ ساحلی علاقے وقتی طور پر طاقتور ہوئے مگر بعد میں زوال کا شکار ہو گئے۔ اس ساری صورتحال پر سمیرامین کا تبصرہ برمحل ہے کہ:
’’اس ابتدائی دور میں، جو کہ 3صدیوں پر مشتمل تھا، مغربی یورپ کے تاجروں کی امریکی کالونیوں اور بحیرۂ اوقیانوس کے ملکوں کی بورژوازی کا پیٹ بھرا۔ افریقہ کے ان علاقوں نے گردو نواح کے گرد نواح کا کردار بڑی خوبی سے نبھایا۔ لیکن محض امریکہ کی پلانٹیشن کے لیے غلام دینے تک اپنے کردار کو محدود کر کے افریقہ نے اپنی آزادی کھودی۔ اس نے اپنے آپ کو تجارتی نظریۂ زر کی بیرونی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا۔‘‘
(Amin, Samir “Unequal Development” New York Monthly Reveiw Press, 1976, p320)
گویا ان افریقی غلاموں نے یورپ کے ابتدائی اجتماع زر کے عمل میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا لیکن آدم سمتھ اس سلسلے میں مختلف رائے رکھتا ہے۔ وہ غلاموں کی محنت کو تو فضول مگر شکر کی کاشت میں غلاموں کے کام میں نفع دیکھتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ ’’جب مالک غلاموں سے کام لیتے ہیں تو اصلاح و ترمیم کی توقع (اراضی میں) کم ہی ہو سکتی ہے۔‘‘ اس کی وجہ آدم سمتھ یہ بتاتا ہے کہ جو ’’شخص جائیداد پیدا نہیں کر سکتا اُس کو اس سے کسی قسم کی دلچسپی بھی نہیں ہو سکتی۔‘‘ وہ مزید رقمطراز ہے کہ:
’’پلائینی اور کالومیلا دونوں اس رائے سے متفرق ہیں کہ جب سے قدیم اٹلی کی اراضیات کا انتظام غلاموں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے وہاں کی اراضیات کی حیثیت میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ گندم کی پیداوارکم ہو گئی ہے اور مالکوں کے ’فائدے میں کمی پڑ گئی ہے۔‘
آدم سمتھ مزید ارسطو کے زمانے کی مثال دیتا ہے کہ وہاں بھی غلاموں کی وجہ سے پیداوار کم ہو گئی تھی۔ افلاطون کی جمہوریہ میں غلاموں کے تصور کے حوالے سے آدم سمتھ بتاتا ہے کہ افلاطون جمہوریہ میں غلاموں سے کام کرانے کو پسند نہیں کرتا۔
پھر آدم سمتھ بتاتا ہے کہ انگلستان کی امریکی آبادیوں میں صرف شکر کی کاشت ہے جس میں سے غلاموں کا خرچ نکل سکتا ہے جب کہ غلے کی کاشت اگر غلاموں سے کرائی جائے تو فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔