• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
سیاسی اشرافیہ کی غیر سیاسی ” اشرفیاں‘‘ : شہزاد اقبالسیاسی اشرافیہ کی غیر سیاسی ” اشرفیاں‘‘ : شہزاد اقبالسیاسی اشرافیہ کی غیر سیاسی ” اشرفیاں‘‘ : شہزاد اقبالسیاسی اشرافیہ کی غیر سیاسی ” اشرفیاں‘‘ : شہزاد اقبال
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

سیاسی اشرافیہ کی غیر سیاسی ” اشرفیاں‘‘ : شہزاد اقبال

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاسی اشرافیہ کی غیر سیاسی ” اشرفیاں‘‘ : شہزاد اقبال
وحی الہی اور ہمارے مسائل: واجد علی
جون 18, 2020
تر دماغ والے ترجمان: شہزاد اقبال
جون 28, 2020
Show all

سیاسی اشرافیہ کی غیر سیاسی ” اشرفیاں‘‘ : شہزاد اقبال

 بچپن سے پڑھتے  آ رہے ہیں پاکستان کے معنیٰ پاک لوگوں کی سرزمین کے ہے ۔اللہ کرے تاقیامت اس کے یہی معنی ٰ رہیں شاد رہے، آباد رہے۔ اس کی سلامتی  ہماری سلامتی ہے اس کی خوشحالی ہماری  خوشحالی اور اس کی۔۔۔۔اشرافیہ  ہماری اشرافیہ ہے کیونکہ  ایک مکتبہ فکر   کے نزدیک  جیسی روح ویسے فرشتے، عوام جیسے ہوں  گے حکمران بھی  ویسے ہوں گے۔دوسرا مکتبہ  فکر سمجھتا ہےعوام حکمران کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔حکمران    جو کریں  گے عوام بھی ویسا کریں گے۔

اس کرنے  نہ کرنے کی بحث میں کرنے کی بات یہ ہےکہ ہماری اشرافیہ’  تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘ کے مصداق ہوچکی ہے ۔یہ پیار کا نشہ  ایسا نشہ ہے جس میں نشہِ مخالف داخل ہونے کی کوشش کرتا ہےتو  پھر نشہ باز آپے میں نہیں رہتا،ہلڑ بازی کرتا ہے اور پھر مخالف کو ایسے پٹختا ہےجیسے  جھارا پہلوان انوکی کو پٹخا کرتا تھا۔

آج  کل’’ پسند پرستی‘‘ کا یہ نشہ دوآتشہ ہو چکا ہے۔اس میں  شخصیت پرستی کی شدت تو تھی ہے اب اس میں بدتمیزی کی حدت بھی  شامل ہوچکی ہے۔سوشل میڈیا ایسے نشہ بازوں کی آماجگاہ ہے جہاں روز یہ ترکش کے تیروں کو زہر کے پیالے میں ڈبوتے ہیں ، نشانہ لیتے ہیں اورپھر کمال فخر  اورتمسخر سے مخالف کے جسم میں اتارتے ہیں ۔خبر نہیں روز حشر اس بدتمیزی کا  انہیں  کتنا ’’ثواب‘‘ ملے گا۔

اپنی اشرافیہ سے یہ والہانہ محبت ہی تو ہےتوانہیں مغرور، خود سر اور ’’ شریر‘‘ بناتی ہے۔ ان شرارتوں کا  اظہار ان دنوں  ایک امریکی حسینہ بھی کر رہی ہے اور وہ یادوں کی پٹاری سے آئے روز شرارتوں کی شرلیاں  چھوڑ رہی  ہیں شوقین مزاج اس کا چسکا لیتے ہیں اور غیر شوقین کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ۔پاکستان اور امریکا کےتعلقات یوں تو بہت پرانے ہیں لیکن اس کی ’’ گہرائی‘‘ اتنی بھی ہوگی   واللہ اس کا  اندازہ نہ تھا۔( ویسے امریکیوں نے ہمارے متعلق یہ مشہور کر رکھا ہے کہ ہم اتنی لالچی قوم ہیں کہ ڈالر کی خاطر اپنے  عزیز ترین خونی رشتے کو بھی بیچ  دیتے ہیں)۔

73 سال کی سیاسی  تاریخ پر نظر ڈالیں تو  حکمران اشرافیہ کی خانگی زندگی میں ملا جلا رجحان  ہی  ملتا ہے۔کسی پاک باز حکمران نے پاکبازی کو مقدم  رکھا تو کسی نے اسےطاق کی زینت بنایا۔ پاکستان کی سیاست میں    یونانی فاتح کے ہم نام ایک حکمران  ہوا کرتے تھےجن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ بہت شوقین مزاج تھے۔شوقین مزاجی کی نو عیت کیا تھی اس کی تشریح مختلف ہوسکتی ہے لیکن سہولت کے لئے بس اتنا سمجھ لیں کہ 62 اور63 پر پورا نہیں اترتے تھے۔مقدر کے اس اسکندر کے گرد بھی کافی اشراف تھے جو حکمرانی کے نشے میں ایسے مدہوش رہے کہ گل کھلاتے کھلاتے ان کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔

پھر  میدان حرب کے ایک  گبرو جوان آئے لیکن ان کا  اپنے اعصاب پر کافی کنٹرول تھا ۔پینے پلانے اور دوسرے خرافات کا چونکہ شوق  نہ تھا اسی لئے عوام کے دل میں  گھر کر گئے پھر عوام کے ایک قائد آئے جنہیں  پینے کا اتنا شوق تھا کہ برملا  کہتے   ’’ ہاں مجھے پینے کا شوق ہے لیکن عوام کا خون نہیں پیتا‘‘ ۔ ان کی ایک خاندانی اور ایک غیر خاندانی زوجہ تھی جبکہ ایک بنگالی حسینہ کے جادو کے بھی اسیر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب  دھڑکنِ دل  تیز سے تیز تر ہوئی  تو ایک مولانا نے جو ان کے وزیر خاص بھی تھے نہ نکاح پڑھوا دیا جبکہ  سیاست  کے تمام کھروں کا  پتہ  رکھنے والے ان کے گواہ ٹھرے۔

اس محبوب قائد سے پہلے ایک غیر محبوب شخصیت بھی گزری ہے جن کی 12 اشرفیوں کا چار دانگ عالم چرچا ہے ۔ ان کی ایک اشرفی اتنی  مشہور تھی کہ  پاکستان کی  فلمی صنعت سے وابستہ ایک ہیروئن نے بھی  وہی نام رکھ لیا اس دور میں ہی لوگوں  کو ترانہ اور قومی ترانہ کا مطلب بھی سمجھ میں آیا تھا۔

محبوب قائد سے پہلے والے جتنے بدنام ہوئے محبوب قائد کے بعد والے اتنے ہی صراط مستقیم پر چلنے والے نکلے اگرچہ ان کی حق بازی 90 روز سے شروع ہوکر 11 سال پر جا کر ختم ہوئی لیکن انہوں نے’’ اشرفی کلچر‘‘ ختم کرنے کا پورا پورا سامان کیا  لیکن جو اشرفی کلچر کے قائل تھےانہوں نے  اس مردمومن کو کلاشنکوف اور ہیروئن  کلچر سے ناحق  بدنام کیا ، بعد میں ان کے ہی ایک وزیر داخلہ تھے جو کلاشنکوف کے لائنس ریوڑیاں سمجھ کر   بانٹتے رہے اور یہ زیادہ پرانی بات بھی  نہیں ۔

اشرفی کلچر کےبت شکن دور میں ایک شریف کی اٹھان ہوئی جن کی مائل بہ پہلوانی  مزاج کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے ایک ہنس مکھ وکیل کا گھر اجڑ گیا ۔ ان کو شاد  کرنے کے لئے ایک  بیگم بھی آئی  اور ان بھلے وقتوں میں  ایک گوری  صحافی بھی  اس  کشمیری شہزادے کو   بھائی۔ وائٹ پرسنز میں سے ایک  نے  ہماری ایک کرشماتی قیادت پر بھی بجلی گرائی اورپھر یہ بجلی ہمارے انتخابات کے موقع پر بھی مخالف خوب گراتے رہے۔سیاست  کے شہنشاہ جذبات کی بات کریں تو ان کی زندگی بھی مثلِ متنجن ہے اور ان کے دستر خوان پر ہر قسم اور ہر رنگ کی اشرفیاں  دیکھنے کو ملتی ہیں حالانکہ وہ  انہیں بڑے پردے میں رکھنے کے قائل ہیں  اور رکھنا بھی چاہئے شریف لوگوں کا  ہمیشہ سے یہی چلن ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے  کہ ٹھنڈے پہاڑوں  میں رہنے والے ایک سیاست دان کا جب آتش جواں تھا تووہ    بھی فلمی دنیا کی ایک ریشمی زلف کے اسیر  ہوئے۔ بعد  میں انہیں  ایک عبادت گزار خاتون سیاست دان کی دختر  پسند آئی  تو وہ سرکاری خرچ پر امریکا یاترا  کرنے لگے اور کم وبیش اتنے ہی چکر لگائے جتنی  موجودہ امریکی دوشیرہ نے  پاکستان کے لگائے ۔ ان  برفیلے  سیاست دان  کے  چکروں کی بھنک جب ایک اخبار نویس کو پڑی اور اخبار میں یہ خبر لگی تو باکمال لوگوں  نے  لاجواب سروس یہ کی کہ اس اخبار کی  اپنے دفاتر میں ترسیل  بند کردی ۔

 اشرفیوں کے شیدائی راجے، مہاراجے اورشیخ بھی رہے ایک راجہ صاحب  کے متعلق مشہورہے کہ انہیں کنول کا پھول بہت پسند تھا  جبکہ ایک شیخ صاحب  ایک زمانے میں  اشرفیوں کی آنکھ کے تارے تھے ۔اب بھی تارے ان کے دل میں اترنا چاہتے ہیں  لیکن  ان کے دل کے تاروں میں ارتعاش پیدا نہیں ہوتی  اور اب وہ اس کا برا  بھی مان جاتے ہیں۔

بات ایک روشن خیال  جماعت کے رہنماؤں کی اشرفی دوستی سے شروع ہوئی تھی جس  کی قیادت کو  ڈالر گرل سے بدنام کرنے کی بھی کوشش  کی گئی ایسے ہی جیسے موجودہ  دوشیزہ کررہی ہے اور ان کو بھی کررہی ہے جن  کے ایک   احتجاجی ریلی کا شریفانہ ویڈیو کلپ  خوب وائرل ہوا تھا۔ان سب کے باوجود اللہ کرے کہ دشمن کی کوشش ناکام ہو ان کے آلودہ ذہنوں میں  ایسے کیڑے پڑیں کہ انہیں کھانے کے لئے اس  سےبڑے کیڑے پیدا ہوں  جو  ہمارے پاک دامن اشرافیہ کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مذکورہ  تمام قصے کہانیاں غلط ہیں تو دروغ بر گردن  راوی ، اور آخر میں ایک بات۔۔۔وہ  تمام  اشرافیہ  جن کی  رنگینی  مزاجی کی داستانیں ہیں  ،  کس نے کتنی اشرفیاں رکھیں کس نے اس کا اظہار کیا اور کس نے   کاغذات نامزدگی میں اسے چھپایا  اور پھر مجبوری میں اسے ظاہر کیا، ان کا ذکر خاص  رہ جانے پر  دلی معذرت! 

(شہزاداقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے  مسافر ہیں۔وہ  صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے گزشتہ20سال سےحالت سفر میں ہیں۔ان دنوں 92 نیوز چینل میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

مناظر: 252
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ