اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں بہت ساری نعمتوں اور خوبیوں سے متصف فرمایا، اُن میں سے ایک بہت بڑی نعمت عقل و شعور بھی ہے، اور درحقیقت یہی وہ نعمت ِ کبریٰ ہے جو وجہ تمیز مابین انسان و دیگر مخلوقات ہے۔ ایک انسان معنوی لحاظ سے اُسی وقت انسان کہلوائےجانے کا سزاوار ہے، جب وہ قوت ِ عقل اور شعور سے مالا مال بھی ہو اور اپنے تمام امور میں اس کو وزیر بھی بناتا ہو۔ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے اقوال سے منسوب کتاب نہجہ البلاغہ میں ایک نہایت شاندار خطبہ درج ہے، جس سے جناب ِ امیر المومنین رض کی علمی بصیرت اور مقام کا پتہ چلتا ہے۔ اس خطبے کے اندر علاوہ دیگر نصائح اور ارشادات کے، آپ نے انسان کے ا ندر موجود مختلف قوتوں کے اسماء اور ان کے افعال تجویز کیے ہیں، جن میں ایک اہم قوت ، قوت ِ عقلی ہے۔ اور آپ رض نے نہایت دردمندانہ انداز میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ، اگر انسان کے اوپر قوت ِ عقلی کا غلبہ ہے تو وہ انسان کہلائے جانے کا حق دار ہے ۔ اور اگر صورت ِ حال اس کے برعکس ہے تو وہ درندوں ، سووروں اور بھیڑیوں میں سے ایک بھیڑیا تو ہو سکتا ہے ، لیکن اُسے ہم انسانوں میں شمار نہیں کرسکتے۔
انسان جیسے باقی معاملات میں ایک محدود قوت اور فکر کا مالک ہے، بعینہ اُس کی عقل بھی محدود ہے اور وہ ایک خاص مقام سے آگے نہیں دیکھ سکتی۔ لیکن جیسے ضعف ِ بصارت کا تریاق چشمہ ہے، ایسے ہی ضعف ِ عقل کا تریاق جناب ِ محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات ِ بابرکات اور قرآن ِ مجید ہے۔ کیونکہ جب انسان کاخالق جو اُس کے حوائج اور عوارض سے انسان سے بھی زیادہ آگاہ ہے، اور اس بات سے کماحقہ واقف ہے کہ اگر انسان کو محض اس کی عقل کے بھروسے پہ اس کائنات مین چھوڑ دیا جائے تو نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں، اُس نے اتمام حجت اور محض اپنے فضل سے اپنے یہاں سے برگزیدہ ہستیوں کو دنیا میں بھیجا تاکہ ، صاحبان ِ عقل و بصیرت نہ صرف اپنے خالق کو پہچان سکیں بلکہ اس کی رضا سے بھی واقف ہوجائیں۔ اس سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جب دنیا میں آئے ، تو ہر چند مکہ سمیت دنیا بھر مین صاحبان ِ عقل کی کمی نہ تھی، لیکن اس کے باوجود انسانیت کا ایک بڑا حصہ معاشی استحصال ، جہالت اور معاشرتی عدم مساوات کا شکار تھا۔ اس کے ساتھ ایک سلسلہ مذہبی رہنماؤں کی اجارہ داری اور من مانی تاویلات کا بھی تھا ، جس کے تحت یہودی قوم اپنے آپ کو خدا کا محبوب اور برگزیدہ سمجھ کر اپنے تئیں ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد اور من چاہی مذہبی تاویلات کا حق دار سمجھتی تھی۔ تاہم آپﷺ نے ان معبودان ِ باطل کے دنیوی اور مذہبی زعم کو وحی کے سہارے توڑا اور خدا شناسی کی پرانی روایت جو سیدنا عیسیٰؑ کے آسمانوں پہ چلے جانے کے بعد متروک ہوچکی تھی اُس کو از سر ِ نو زندہ کیا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب بھی کسی نظام ِ کہنہ پہ ضرب لگائی جائے، تو اول اول اس کی مخالفت لازم ہوتی ہے ، تاہم دھیرے دھیرے حقیقی عقل کے مالک صاحبان ِ بصیرت اس نئی دعوت کو قبول کرتے ہوئے حقیقت کو قبول کرلیتے ہیں۔ لہذا جب آپﷺ نے مدینہ کے اندر قوم ِ یہود کے ساتھ تبادلہ خیال فرمایا ، تو وہاں سے بھی مزاحمت ہوئی جس کی بایں وجہ ان کا وہی پرانا زعم تھا ، جس کے بل بوتے پر وہ اپنے آپ کو خدا کی برگزیدہ مخلوق گردانتے تھے۔ اُس زمانے میں نہ صرف قوم ِ یہود بلکہ کئی دیگر اقوام بھی اس قضیہ کی معترف تھیں کہ ، خدا کی رضا اور بخشش صرف اُن کے ہی دین میں موجود ہے اور صاحبان ِ عقل و بصیرت بھی اپنے اپنے متعین شدہ طرق پہ چلنے کو ہی موجب ِ فخر و مباہات جانتے تھے۔تاہم نبی کریمﷺ کے اوپر اتری گئی اس آیت : قل ان کنتم تحبون اللہ، فااتبعونی یحببکم اللہ گویا ایک قول ِ فیصل ہے ، کہ جو خدا کی اصلی رضا اور خوشنودی کے مقابلے میں دوسری من گھڑت تاویلات اور رسومات کے درمیان فارق کا کام کرتی ہے۔ یہ آیت تمام انسانیت کو دعوت ِ فکر دیتی ہے کہ ، خدا کا قرب، رضا اور بخشش کے تمام وسیلے اب متروک ہیں اور کوئی بھی ایسا راستہ جو شریعت ِ محمدیﷺ سے متصادم ہے وہ سوائے گمراہی اور جہالت کے کچھ نہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ پیغام بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک انسان ، چاہے وہ کتنا ہی عاقل اور با شعور کیوں نہ ہو، اگر اُس کی سوچ اور مطمح نظر جناب محمد الرسول اللہﷺ کے نظریات سے مماثلت نہیں رکھتا، تو ایسی عقل اور شعور کا نتیجہ سوائے گمراہی اور جہالت کے کچھ نہیں۔
جب آپﷺ کی جماعت نے دنیا کے اندر خروج فرمایا تو سب سے پہلی دعوت جو دیگر اقوام کو دی، وہ یہی تھی کہ ہمارے جیسے بن جاؤ۔ دراصل اس پیغام سے مراد محض شخصی اتباع نہیں بلکہ شریعت ِ محمدیﷺ کی پیروی اور آپﷺ کے راستے پہ چلنا مقصود تھا۔ چنانچہ دنیا کے اُس حصے پر جہاں تک یہ پیغام جماعت الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مساعی مبارکہ کی بدولت پہنچا، وہ خطہ جنت ِ ارضی کا نمونہ بنا جہاں معاشرتی عدم مساوات ، جہالت ، غربت اور دیگر تمام رسومات ِ قبیحہ کا خاتمہ ہوا اور انسانیت حقیقی معنی میں تمام اقسام کی جبری مشقت اور دیگر تکالیف سے آزاد ہوئی۔ آپﷺ کی بعثت سے قبل انسانیت اس قدر ظلم کا شکار تھی، کہ انسان اپنے خالق و مالک تک پہنچنے کیلئے بے شمار رکاوٹوں کا شکار تھا، جن میں مالی رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ مذہبی رکاوٹیں بھی شامل تھیں۔ تاہم اللہ کی کروڑ رحمتیں نازل ہوں سید الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ کی ذات ِ گرامی پر کہ ، آپﷺ کی بدولت انسانیت پہ عائد ان جبری پابندیوں کا خاتمہ ہوا اور یوں خالق و مخلوق کے مابین تمام رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ تاہم گزرتے ایام کے ساتھ اور نا اہل جانشینوں کی بدولت اس مبارک نظام کا خاتمہ جب ہوا، تو انسانیت پھر اسی پرانے نقطہ پر جا پہنچی ، جہاں ہمہ قسم کے مصائب اور مظالم نے اس کو آن گھیرا ہے۔
یہ دنیا جو نبی کریم ﷺ کی دی گئی تعلیمات کی بدولت جنت کا نمونہ بنی تھی، آج پھر ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں صرف مایوسی اور مشکلات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے روشنی کے تمام اسباب و ذرائع مسدود کر دیے ہیں۔ آج ہم پھر اُسی معاشرتی ناہمواری ، جہالت ، نا انصافی ، معاشی اونچ نیچ اور دیگر مظالم کا شکار ہیں، جس میں آج سے پندرہ صدی پیشتر ہمارا معاشرہ شکار تھا اوراس پہ سب سے بڑی مصیبت اُن نام نہاد صاحبان ِ عقل کی فہم و فراست ہے ، جو آئے روز اپنے نت نئے نظریات اور افکار کو اس نظر سے پیش کرتےہیں کہ اس سے حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں مگر:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کے مصداق ان تمام افکار و نظریات سے ایک خاص گروہ تو مستفید ہوجاتا ہے، لیکن انسانیت کا ایک بڑا حصہ اس کے ثمرات سے محروم ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں اقتصادی، دفاعی، سیاسی غرض ہر شعبے کیلئے صاحبان ِ عقل کی فوج طفر موج” تھنک ٹینک” کے نام سے دستیاب ہے، مگر اس مصیبت کا کیا ہو کہ ان کی بنائی ہوئی تمام اسکیمیں، تمام منصوبہ جات انہی کے حق میں مفید ثابت ہوتے ہیں، جو اس دنیا کو جہنم میں بدلنے کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب کوئی نیا نظریہ اور منصوبہ منصہ شہود پہ نہیں آتا ، اور ذرائع ابلاغ کے سہارے اس کی تشہیر نہیں کی جاتی، لیکن نتیجہ پھر وہی گھاٹ کے تین پات ہی رہتا ہے۔ ہم دیگر اقوام کو نہیں مگر بطورِ پاکستانی قوم اس بات کو نہ جانے کیوں نہیں سوچتے کہ ، جب ہمارے پاس اپنا سیاسی ، دفاعی اور معاشی نظام قرآن و حدیث کی صورت میں موجود ہے، اور اس کا عملی نفاذ ایک زمانے تک رہ چکا ہے، تو ہم کیوں اغیار کے دیے گئے نظاموں اور قوانین پہ قانع ہیں۔ اس ملک کو بنے ستر برس سے زائد کا عرصہ بیت گیا، مگر چند مخصوص خاندان ، اداروں اور اشخاص کے مجموعی ترقی نہ ہوسکی اور ہم بنیادی شعبے اعنی سیاست اور معیشت کو درست سمت میں گامزن نہ کرسکے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ معاشرے میں غربت، جہالت اور دیگر قبیح رسوم کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہمارے شہروں، گلیوں اور محلوں میں غربت کے باعث خودکشی کرنے والوں، اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کو فروخت کرنے والوں، اپنی خواہشات کے واسطے معصوم بچیوں کو مذہبی تبدیلی پہ مجبور کرنے والوں اور ہمارے بچوں کو جاہل رکھ کر اُن کو استعمال کرنے والوں کے ہاتھ اگر ہم نہیں روکیں گے تو کیا خدا ہمیں معاف کردے گا؟ نہ جانے ہم نے کیسے یہ جان لیا کہ بطور ِ انسان محض اپنی انفرادی بہتری کے بل بوتے پر میں جنت کا حقدار ہوں، اور اس تڑپتی سسکتی انسانیت کا بار ِ گراں میرے کندھوں پر نہیں ہے۔ یہ وہ دھوکہ ہے جس کو ہم نے پال کر اپنے آپ کو عاقل ہونے کی سند عطا کر رکھی ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ محض عقل کے نام پر دھوکہ ہے۔