مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ ہمارے ہاں کی یونیورسٹیاں ایک سے ایک نالائق پیدا کر رہی ہیں، لیکن میرے لیے یہ بات تسلیم کر لینا بھی ناممکن ہے کہ مغرب سے آنے والا ہر گورا یا گوری نابغہ ہوتا ہے ۔
ایسے میں یہ بات ناممکن ہے کہ کسی بھی مغربی جامعہ سے پڑھ کر آنے والا علم و دانش سے بھرپور ہوتا ہے ۔ ہم نے کئی ایسے اساتذہ دیکھے ہیں جو مغرب سے ڈگریاں لے کر آئے ، مگر یہاں کے بیچارے طالب علم کبھی ان کے علم سے فیض یاب نہ ہوسکے ۔ تازہ مثال ہمارے باکمال وزیر اعظم کی ہے ۔ وہ آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں اور عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ گوروں اور گوریوں کی صحبت میں بسر کر چکے ہیں ۔ مگر وہ ابھی تک ہمارے مسائل کی تفہیم سے محروم ہیں ۔ ابھی تک اس ملک کی اکثریت ان کی دانش سے فیض یاب نہ ہو سکی ۔ ان کے بہت سے احباب ہی ان کی وجہ سے بہت سے عہدوں پر براجمان ہو سکے ہیں اور ان کی صحبت کے باعث بہت سی مراعات سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔ لیکن ان سب کی دانش ٹی ۔ وی پر آکر بیانات دینے تک پہنچ پائی ہے ۔ اس ملک کی پالیسیوں میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں ہوسکی ۔ جس کا مفید نتیجہ عوام تک پہنچ پائے ۔
ان دنوں عمران خان کے احباب کی فوج ظفر موج کے بیانات کی تکرار نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ اوپر سے کورونا کے باعث باہر نکلنے کی ہمت نہیں کر پائے ۔ اس صورت حال میں سنتھیارچی کے بیانات ایک تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئے ہیں ۔ ہم لوگ جو موجود فضا میں سانس لینے ہیں مشکل محسوس کر رہے تھے ، کورونا کے ورد وظیفے اور عمران خان کے دوستوں کے بے مغز بیانات سے اکتا گئے تھے ۔ اچانک ایک گوری کے بیانات سامنے آگئے ۔ جنہیں پڑھ کر ہماری طبیعت میں تھوڑی سی بشاشت آگئی اور یوں لگا جیسے حبس کے موسم میں تازہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ذہنوں کو سکون دے گیا ہو۔
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنون سے حلقہ گردش حال لے گئی
سنتھیارچی مختلف سیاستدانوں پر چھوٹے چھوٹے الزام عائد کر رہی ہے ۔ کچھ اپنی آپ بیتی سنا رہی ہے اور کچھ سنی سنائی ، ہمارے ہاں سنی سنائی باتیں کتنی سچی ہوتی ہیں اور کتنی جھوٹی ، یہ تو ہم سب جانتے ہیں ۔ مگر جو کچھ وہ آپ بیتی سنا رہی ہے اسے سن کر ہم ان دنوں میں بھی ہنس سکتے ہیں ، حالانکہ ان دنوں نہ مجلسیں رہیں ، نہ قہقہے ۔ ہنسی ہماری زندگی سے ایسے نکل چکی ہے ۔ جسے ٹی ۔ وی کے ٹاک شو سے سنجیدگی ۔ ان دنوں جب ہم بات بات پر حسن نثار بن رہے ہیں اور ہر بندہ ارشاد بھٹی بننے کو ترس رہا ہے ۔ سنتھیارچی ہم سب کے شکریے کی مستحق ہے کہ اس نے ہمیں یاد دلایا کبھی ہم لوگ ہنسا بھی کرتے تھے ۔ بزرگ کہا کرتے تھے ہنسی علاجِ غم ہے ۔ مگر ہم اس علاج کو فراموش کیے بیٹھے تھے اچانک سنتھیارچی نے ہمیں یہ بھولی بسری باتیں یاد دلا دیں ، سنتھیارچی کے الزامات کتنے سنجیدہ ہیں ہماری ہنسی اس کا بہترین جواب ہے ۔
سنتھیارچی کی باتیں تو خیر زیادہ بامعنی نہیں ہیں مگر اس کا پاکستان میں ایک مدت سے قیام اور ممنوعہ علاقوں تک اس کی رسائی بہت معنی خیز ہے ۔ اسی معنویت کے باعث ہم نے ان پر یہ مضمون باندھا ہے ۔ سوشل میڈیا پر آں محترمہ کی بڑے لوگوں تک رسائی کی کئی داستانیں عام ہو رہی ہیں ۔ ہم حیران ہیں کہ ہم بیچارے لوگ نہ ان بڑے لوگوں تک رسائی پا سکتے ہیں نہ ان مقامات کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں ۔ جہاں یہ محترمہ روزانہ جاتی اور ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں ۔ ان کا گورا رنگ ہی ان کی سب سے بڑی ڈگری بھی ہے اور قابلیت بھی ۔ آج تک پتا نہ چل سکا ، آں محترمہ نے ہمارے کس مسئلے کا حل پیش کیا اور ہمارے کس درد کا ۔۔۔ تجویز کیا ممکن ہے ان کا گورا رنگ اور ان کی مادری زبان ہی ان کی دو قابلتیں ہوں ۔ ان کے طفیل وہ ترقی کے زینے پر قدم بہ قدم اوپر چڑھنے کی بجائے ایک ہی جست میں سارے فاصلے طے کر جاتی ہیں اور وہاں تک جا پہنچتی ہیں جہاں ہما شما پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر پاتے ۔
سفید رنگ ہمارا صدیوں پرانا کمپلیکس ہے ۔ شمال سے آنے والے حملہ آوروں نے مقامی لوگوں کو ہندو کہا ۔ ہندو فارسی زبان میں سیاہ اور کالے کو کہا جاتا ہے ۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا ۔
اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا
بخال ہندواش بخشم سمرقند و بخارا را
حافظ تو محبوب کے سیاہ تل پر سمرقند و بخارا نثار کر دینے کے لیے تیار تھے ہم لوگ گوری عورت پر اپنا سب کچھ نثار کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں ۔ ہماری شاعری میں محبوبہ کے لیے گوری کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اسی لیے ہمارے ہاں کی عورت کو رنگ گورا کرنے والی کریمیں بڑے شوق سے استعمال کرتی ہیں ۔ بیوٹی پالر والے پوڈر کریمیں تھونپ کر سانولی سلونی لڑکی کو ایک آدھ دن کے لیے گورا کر دیتے ہیں اسی لیے بیوٹی پالر والوں کا کاروبار روز افزوں ہے ۔ محبوب مرد کے لیے سانول کی ٹرم استعمال ہوتی ہے ۔اسی لیے کہیں کوئی مرد اپنا رنگ گورا کرنے کے جتن نہیں کرتا ۔
جن دنوں ہمارے حکمران افغانستان یا سنٹرل ایشیا سے آتے تھے تو ہمارے ہاں یہ تصور عام ہوا کہ کوہ قاف میں پریاں رہتی ہیں ،وقت گزر گیا کوہ قاف سے آنے والے فاتحین مع اپنے پریوں کے زار روس کی رعایا ہوگئے ۔پریاں ہماری لوک کہانیوں اور داستانوں میں محدود ہو کر رہ گئیں ۔ہمارے کچھ محاورے بچ گئے جن سے پتہ چلتا تھا کہ ہم کبھی پٹھانوں اور ترکوں کے غلام ہوا کرتے تھے ۔اب بھی ہمارے پنجاب میں یہ اکھان سننے کو ملتا ہے
چوڑھیاں دے پٹھان ونگارو
یعنی سیاہ رنگ کے لوگ سفید رنگ کے پٹھانوں سے کیا بیگار لے سکتے ہیں۔
ہم کبھی پٹھانوں کو ولایتی اور ان کے ملک کو ولایت کہتے تھے،آقاؤ ں کے بدلتے ہی انگلینڈ کو ولایت سمجھنے لگے۔ چینی کو ہمارے بچپن میں ولایتی کھنڈ کہتے تھے ان دنوں ہاتھ سے بنی ہوئی کھنڈ بھی بازاروں میں عام ملتی تھی ۔ہم بچپن میں ہر عمدہ شےکے لیے ولایتی کا لفظ استعمال ہوتے سنتے تھے تو ہمارا دھیان فوراً ولایت کی طرف جاتا تھا۔ یہ جو ولایت سے گورے رنگ کی لڑکیاں آتی ہیں اور فرفر انگریزی بولتی ہیں توایک بزرگ کا قول یاد آتا ہےکہ ولایت میں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی انگریزی بولتے ہیں ہم یورپ جائیں تو ہمیں یہ دکھ مارے دیتا ہے کہ ہم فر فر انگریزی بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جبکہ وہ ہمارے ہاں تشریف لائیں تو وہ بلاجھجک انگریزی بولتے ہیں اور اردو نہ جاننے پر ذرا نہیں شرماتے۔بلکہ ہم لوگ شرما رہے ہوتے ہیں کہ ہم انگریزی بولنے میں رواں ٰ نہیں ہیں ۔
ہمارے ہاں کے لوگ جب کبھی یورپ میں جا آباد ہوتے ہیں تو وہ چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں گٹر صاف کرتے ہیں، صفائی کرتے ہیں، برتن دھوتے ہیں اور اسی قسم کی جسمانی محنت سے اپنا رزق کماتے ہیں مگر کوئی گوری عورت ہمارے ہاں تشریف لے آئے تو اسے کسی بہت بڑے آدمی کی پرائیویٹ سیکرٹری کا منصب باآسانی حاصل ہوسکتا ہے ۔ہمارے دوسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کی گوری پرائیویٹ سیکرٹری کا ذکر ہماری تاریخوں میں بہت تواتر سے ہوتا ہے۔ آن محترمہ جناب گورنر جنرل کے مزاج اور زندگی میں بہت دخیل تھیں، جناب ملک غلام محمد سارا دن اپنے ماتحت افسران کی والدہ ہمشیرہ ایک کرتے رہتے تھے مگر یہ گوری پرائیویٹ سیکرٹری اپنی نسلی برتری اور پیدائشی رنگ کے باعث گورنر جنرل سے ناراض ہو جاتی ، ایسے میں گورنر جنرل کے ماتحت عملے کے فرائض میں شامل ہوتا تھا کہ اس گوری خاتون کو بہلا کرلائیں اور پھر سے گورنر جنرل کے مزاج کو شگفتہ کریں ۔
ہمارے ہاں بہت سی گوری خواتین آتی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کے راز ہائے سربستہ سے آشنا ہوتی ہیں ۔کرسٹینا لیمب محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمی کے پہلے دور میں تشریف لائیں اور پھر انہوں نے ہمارے ایک وزیر صاحب کے بارے میں جو کچھ دیکھا وہ لکھ دیا ،یہ کچھ پڑھ کر ہمارے بہت پڑھے لکھے بیرسٹر کو یقینا شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی، دوسرے لوگ شرمندہ ہوں تو یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔ویسے سوچنے کی بات ہے کہ ان وزیر صاحب کی عمر عزیز کا کچھ عرصہ انگلینڈ میں گزرا تھا اور وہاں عورت ذات کا تعلق اسی نسل سے ہے جنہیں گورا کہتے ہیں ۔اب تو خیر ان وزیر صاحب کی گوروں سے کڑمائی بھی ہوچکی ہے ۔
ایک گوری خاتون نے نواز شریف کے متعلق اپنی کتاب میں بہت سی باتیں لکھی ہیں۔ یہ سب عام سی باتیں ہیں ۔عام اس لیے کہ ہمارے یہاں کے لوگوں کا گوری عورتوں سے یہی رویہ ہے۔ کم بارکر کو نواز شریف نے ان کے رنگ کا کچھ خراج عطا کر دیا تو کیا برا کیا ۔ ممکن ہے نواز شریف اس کی جدائی میں سوچتے ہوں
دل کا حساب کیا کریں دل تو اسی کا مال تھا
نکہت زلف عنبریں اب کے دماغ لے گئی
میں یہ سوچ رہا ہوں ہو کہ گوری عورتوں کے رنگ اور زبان پر ہمارے ہاں کے بڑے لوگ بغیر کسی جھجھک کے ریشہ خطمی ہو رہے ہیں تو کل کلاں دس بارہ گوری عورتیں بعض بڑے لوگوں کا چین اور قرار لوٹنے آ جائیں تو ساتھ ہی ساتھ ہمارے وطن کے کتنے ہی راز ہائے سر بستہ اور راز درون مے خانہ لے جائیں گی۔ ایسے میں ہم کیا کر سکیں گے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہماری مصنوعی اور حقیقی حاکمیت دس بارہ گوریوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن سکتی ہے۔ ہم یہ گانے گاتے سنائی دیں گے:
میں نے تمہاری گاگر سے
تھوڑا پانی پیا تھا —پیاسا تھا میں
گوری وہ دن یاد کرو