تبدیلی کا ادھورا خواب
جولائی 1, 2020اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اور اقلیتوں کے حقوق: لیاقت علی ایڈووکیٹ
جولائی 3, 2020
سید منور حسن وہاں چلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔وہ ثابت قدمی سے جماعت کے ساتھ وابستہ رہے اوران کا شمارایسے سیاسی اورمذہبی افراد میں کیا جاسکتا ہے جو اپنے کٹر پنتھی عقائد میں اپنی فکری بقا اورمقبولیت تلاش کرتے ہیں اورایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جو عمومی طورپرسماج کوقابل قبول نہ ہوں۔منورحسن نے ایک سے زائد مرتبہ سیاسی و سماجی مسائل کے حوالے سے ایسے ہی نقطہ نظر کا اظہارکیاتھا۔ منورحسن ایمانداری سے اپنے خیالات کو بیان کرتے تھے اوراس میں کسی قسم کی فکری ملاوٹ کے قائل نہیں تھے۔وہ کوئی عہد ساز شخصیت کے حامل نہیں تھے۔ وہ روٹین کی بھرتی تھے جنھیں کسی میرٹ کی بجائے ان کی عمررسیدگی اور کراچی کی ارد سپیکنگ جماعت کی خوش نودی کے لئے اس عہدے پر مقرر کیا گیا تھا۔
مولانا مودودی کے بعد جماعت اسلامی کے امرا میں سے قاضی حسین احمد کو سیاسی طور پر متحرک شخصیت کہا جاسکتا ہے اوران کے تحرک کی وجہ بھی افغانستان میں جاری امریکہ سپانسرڈ جہاد تھا جس کے لئے جماعت اسلامی آئی،آیس۔آئی۔آئی اور سی۔آئی۔آے کے ساتھ ایک ہی پیچ پرتھی۔افغان جہاد کا تھیٹرکیونکہ پشتون علاقہ تھا اس لئے جماعت کے لئے ایک پختون امیر تلاش کیا گیا اور تلاش کا سہرا گورنر سرحد جنرل فضل حق کے سر تھا۔ یہ جنرل فضل حق ہی تھے جنھوں نے قاضی کو سینٹر منتخب کرایا تھا۔جہادی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئےقاضی حسین احمد کی میڈیامیں شخصیت سازی کی گئی تھی اور جب افغان جہاد کا ڈرامہ ختم ہوا اور سٹیج پر پردہ گرگیا تو قاضی حسین احمد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ مقام حاصل کرنے میں ناکام رہے جو انھیں کمپنی نے اپنی ضرورتوں کے تحت دلایا تھا۔۔
جماعت اسلامی اب اپنی طبعی سیاسی زندگی پوری کرچکی ہے۔ یہ نظریاتی بانجھ پن اورسیاسی افلاس کا شکار ہے اور جہاں تک عوامی حمایت کا تعلق ہے وہ اسے کبھی بھی حاصل نہیں رہی یہ جب بھی کسی کولیشن کا حصہ بنی ایسا کمپنی کی سفارش،ایما اورتعاون سے ہی ممکن ہوا تھا۔مستقبل میں جماعت اسلامی اگر زندہ رہی تو وہ اپنی سیاست کی بجائے اپنے اثاثوں کے سہارے زندہ رہے گی۔ جماعت پر قابض کارٹل کے معاشی مفادات کا تقاضا ہے کہ جماعت اسلامی سیاسی میدان میں خواہ محدود ہی سہی متحرک رہے تاکہ جماعت کےاثاثوں پر ان کے قبضے کا جواز موجود رہے
مناظر: 93