• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
خوشی حاصل کرنے اور غم سے نمٹنے کا فن — تحریر: قاسم علی شاہخوشی حاصل کرنے اور غم سے نمٹنے کا فن — تحریر: قاسم علی شاہخوشی حاصل کرنے اور غم سے نمٹنے کا فن — تحریر: قاسم علی شاہخوشی حاصل کرنے اور غم سے نمٹنے کا فن — تحریر: قاسم علی شاہ
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

خوشی حاصل کرنے اور غم سے نمٹنے کا فن — تحریر: قاسم علی شاہ

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خوشی حاصل کرنے اور غم سے نمٹنے کا فن — تحریر: قاسم علی شاہ
صحبت یاراں سوالات و جوابات — تحریر: قاسم علی شاہ
جنوری 10, 2017
گویڑو: جھنگ کے پنچائتی نظام کا گم ہوتا کردار — تحریر: ثریا منظور
جنوری 11, 2017
Show all

خوشی حاصل کرنے اور غم سے نمٹنے کا فن — تحریر: قاسم علی شاہ

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ زندگی میں سنجیدہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے ہر چیز کو اس کی پراپر جگہ پر رکھنا یعنی قابل قدر چیز کو قابل قدر جگہ پر سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سنجیدہ انسان ہیں۔ اور جو غیر سنجیدہ چیز ہے اس کو غیر سنجیدہ سمجھ لیں۔ جس چیز کو اہم سمجھنا چاہیے اس کو اہمیت دیں۔ اگر آپ نےشعوری طور پر ترجیحات کا تعین کر لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سنجیدہ انسان ہیں۔ اور اگر آپ نے زندگی میں ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سنجیدہ انسان نہیں ہیں۔ ایک سنجیدہ آدمی زندگی کے ہر دائرے میں اس بات کا تعین سب سے پہلے کرتا ہے کہ کیا اس نے کرنا ہے اور کیا اس نے نہیں کرنا؟

ایک نشست میں مجھے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو فیصلہ کرتے وقت کتنا وقت لگتا ہے؟ تو میں نے جواب دیا کہ بہت تھوڑا ٹائم لگتا ہے۔اس نے وجہ پوچھی: تو میں بتایا کہ میری ترجیحات کا تعین پہلے کرتا ہوں اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں کہ اس صورت حال میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ لہذا فیصلے کرنے کا وقت کم ہوتا ہے لیکن اس کے تعین کا کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔

میرے ایک دوست میرے پاس آئے ان کی ٹریننگ کی ایک کمپنی ہے وہ کہنے مجھے تھوڑا سا وقت دے دیا کریں اور اس کا میں آپ کو دو لاکھ روپے ماہانہ دے دیا کروں گا۔ تو میں نے ان سے فوراً معذرت کر لی۔ اس نے پوچھا کہ اتنا جلد جواب کیوں دیا، تھوڑا سا تو سوچ لیتے۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنی ترجیحات کا تعین کر لیا ہے کہ میں نے کہاں سے پیسے کمانے ہیں اور کہاں سے نہیں کمانے۔ یہی مطلب ہے کہ جب آپ نے جیزوں کو سنجیدگی سے طے کر لیا کہ کون سی چیز کرنی ہے اور کون سی چیز نہیں کرنی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک سنجیدہ انسان ہیں۔

لوگ عموماً یہ کہتے ہیں کہ جب انسان سنجیدہ ہو جاتا ہے تو وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ میں اس کے لئے پھر یہی کہوں گا کہ جب انسان سنجیدہ ہو جاتا ہے تو اس کو یہ پتہ  چل جاتا ہے کہ بولنا کہاں ہے اور کہاں چپ رہنا ہے۔ کس بات کو کتنا کہنا ہے ، کس بات کو نہیں کہنا اور کتنی شد ت سے بولنا ہے۔

بعض اوقات زندگی میں خوشی اور غمی کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کی نفسیاتی بیماری بھی ہے۔ ایسا اگر اکثر ہوتا ہے تو اچھی بات نہیں ہے۔ اگر ایسا کبھی ہوتا ہے تو یہ ایک نارمل بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے دو قسم کے وجود ہیں۔ ایک اس کا مادی وجود جو ہمیں سامنے نظر آتا ہے، ایک بچہ پیدا ہوتا، وہ جوان ہوتا ہے ، وہ بوڑھا ہوتا ہے اور وہ مر جاتا ہے۔ جس طرح مادی وجود کے مرحلے ہیں اسی طرح روح کے کچھ مرحلے ہیں جن کو روح کے اد وار کہتے ہیں۔ بعض اوقات لوگ بیٹھے بیٹھے گم سم ہو جاتے ہیں یا ان کی طبیعت بوجھل سی ہونے لگ جاتی ہے۔ اس گم سم ہونے کی یا طبیعت بوجھل ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا یقینی مطلب ہے کہ یہ روح کی پرواز ہے۔ لیکن اگر آپ اکثر گم سم رہتے ہیں اور اکثر طبیعت  بوجھل ہو جاتی ہے تو یہ ایک سائیکولوجیکل ڈائلما ہے یعنی ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر کو چیک کروانا چاہیے۔

یہ یاد رکھیں کہ نارمل آدمی خوش بھی ہوتا ہے اور غم ذ دہ بھی ۔ایک چھوٹا سا نکتہ یہ ہے کہ جب زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی غم ملتا ہے تو انسان کی جان سی نکل جاتی ہے۔ لیکن جب ایک د و یا اس سے زیادہ مرتبہ انسان غم زدہ ہوتو وہ یہ اس کے لئے عام سی بات بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پرانی خوشی د وبارہ خوشی بن کر آئے تو اس کی شدت وہ نہیں رہتی جو پہلی مرتبہ کی شد ت ہوتی ہے۔

ہمیں زندگی میں نئے غم اور نئی خوشیوں سے بھی واسطہ رکھنا پڑتا ہے۔ یہ ایک نیچرل پراسیس ہے کیونکہ آپ جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں غموں اور خوشیوں کی شکلیں بد لتی رہتی ہے۔ بچپن میں ہمارا کھلونا ٹوٹ جاتا تھا تو ہم رونے لگ جا تے تھے۔ جوانی میں چھوٹی سی ٹھوکر کا ذہن پر اثر بڑا ہوتا تھا، لیکن بڑھاپے میں کئی بڑے نقصانات کی صورت میں بھی انسان غم زدہ نہیں ہوتا۔

انسان بڑا ہی تب ہوتا ہے جب اس کے غموں اور خوشیوں کی شد ت تبد یل ہوتی رہے۔ خطرناک بات یہ ہوتی ہے کہ پرانے غم اگر تاذہ اور ہرے بھرے ہیں تو یہ غلط بات ہے۔  یعنی پرانے غم بھلائے نہیں جا رہے۔ نئی خوشی کو انجوائے کرنا نہیں آر ہا جیسے ہی خوشی آتی ہے کوئی پرانا غم بیچ میں آ کر اس خوشی کو ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ عورتوں کو اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ عین خوشی کے موقع پر پچھلے مرے ہوئے لوگوں میں سے کوئی یاد آ جاتا ہے۔ یہ ایک ابنارمل رویہ ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ رویے مینج نہیں کئے ہوئے کیونکہ اس چیز کا پتہ نہیں ہے کہ خوش کب ہونا ہے اور غمزدہ کب ہونا ہے۔

لیکن اگر آپ کی خوشیاں یا غم دونوں کا احساس بالکل ختم ہوچکا ہے توآپ کو چاہیے کہ دماغ کی کھڑکیاں کھولیں اور زندگی میں کوئی نیا علم نیا فلسفہ لے کر آئیں۔ پرانے وقتوں میں بہت ہی آسانی تھی کہ بابے بڑے سائیکلوجیکل ٹرینر ہوتے تھے۔ یہ  اپنے ڈ یروں پر باتیں کر کے، گپیں لگا کر، اشاروں سے ، مختلف مثالیں دے کرکے اس طرح مختلف نسخے لگا کر لوگوں کو ٹھیک کر د یتے تھے۔ کیتھارسس کا ایک بہترین ذ ریعہ یہ پرانے بابے ہوا کرتے تھے۔

نفسیاتی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ کسی انسان کے نفسیاتی مسائل اسی فیصد اس کے بیان کرنے سے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ یعنی جب وہ بابے کسی کی بات سنتے تھے تو اس طرح اسی فیصد اس کا علاج وہیں ہو جاتا تھا اور باقی وہ مثالیں دے کر اور گپیں لگا کر سلجھا دیتے تھے۔

مسائل وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں قابل اعتبار لوگ ملنا ختم ہو جائیں۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ یہاں اعتبار کی بہت سخت کمی ہے اور نہ کوئی بابا قابل اعتبار ہے اور نہ کوئی سائل قابل اعتبار ہوتا ہے۔

یاد رکھیے گا جیسے جیسے زندگی گزرتی ہے ، زندگی گزارنے کا شعور آتا جاتا ہےتو زندگی کی کوالٹی بہتر ہو رہی ہوتی ہے اور آپ اگلے مرحلے کے لئے تیار ہو رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر زندگی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شعور نہ آ رہا ہو تو اس کا یقینی مطلب ہے کہ زندگی رکی ہوئی ہے اور آپ اگلے مرحلے کے لئے لیٹ ہو رہے ہوتے ہیں۔

مناظر: 230
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 8, 2022

حقیقی لیڈر شپ کیا ہوتی ہے؟


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ