جس نے خود کو پہچان لیا گویا اس نےاپنے رب کو پہچان لیا۔الحدیث
ایک علم ہے جسے اینتھروپولوجی کہا جاتا ہے ، یہ ایک بہت بنیادی علم ہے جس میں یہ پڑھا جاتا ہے کہ انسان کا رویہ کیسے تشکیل پاتا ہے ؟ انسان سوچتا کیسے ہے؟ اور انسان سوچتا کیوں ہے؟ یہ علم یہ بتاتا ہے کہ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ میں کون ہوں؟ دنیا کی کوئی دوسری مخلوق اپنے دل میں خود سے یہ سوال نہیں اٹھا سکی کہ میں کون ہوں؟ اور میں کدھر جا رہا ہوں؟
دراصل انسان کی ساری ڈیویلپمنٹ ، انسان کی ساری ترقی صرف اور صرف اسی سوال کے گرد گھومتی ہے کہ میں کون ہوں ؟ اور میں نے جانا کہاں ہے ؟ دنیا کے وہ تمام نام جن سے تاریخ بنی ہے ، دنیا کے وہ تمام نام جن لوگوں نے پرفارم کیا اور دنیا کے وہ تمام نام جنہوں نے کچھ بن کردکھایا، اور دنیا کے وہ تمام لوگ جن کا نام ہم عزت اور احترام سے لیتے ہیں، دنیا کے وہ تمام لوگ جن پر یقین کیا جا سکتا ہے، دنیا کے وہ تمام لوگ جن پر اعتبار کیا جا سکتا ہے ، ان تمام لوگوں کو اس سوال کا جواب مل گیا تھا کہ میں کون ہوں؟
خو دی کیا ہے؟اور اس کی طاقت:
دراصل انسان کی قوت ارادی اس کو مجبور کر رہی ہے کہ اس نے یہ چیز حاصل کرنی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو مجھے بھگا رہی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو میری ڈرائیونگ فورس بن جاتی ہے۔ تو پتہ لگتا ہے کہ وہ انسان کی اپنی خودی ہے انسان کی اپنی شناخت ہے جو اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کچھ کرے۔
میرے ایک استادہیں واصف علی واصف صاحب، ان سے پوچھا گیا کہ خودی کیا ہے؟ انہوں نے کہا دنیا میں موجود ہر چیز کا ایک بنیادی مقصد ہوتا ہے، ایک کسی چیز میں سے اس کا مقصد نکال دیا جائے تو وہ چیز بے جان ہو جاتی ہے۔ ایک چیز ہے جس سے لکھا جا رہا ہے اور اگر اس سے لکھا نہ جا سکے تو ہم اسے قلم نہیں کہہ سکتے۔ ایک چیز ہے جس پر بیٹھا جاتا ہے اسے کرسی کہتے ہیں اگر اس پر بیٹھا نہ جا سکے تو اسے کرسی نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح ایک صفت ہے اور اگر اس صفت کو اس چیز میں سے نکال دیا جائے تو وہ اپنے معنی ختم کر دیتی ہے۔ اس کے بعد سوال کیا گیا کہ کیا جاندار اشیاء میں بھی یہ صفت ہو سکتی ہے کہ اگر جو ختم ہو جائے تو وہ جاندار شئے بے جان تصور ہو گی۔ واصف علی واصف صاحب نےجواب دیا کہ ایک مرغا ہے اگر اس کی ایک ٹانگ نکال دی جائے تو پھر بھی وہ مرغا ہی رہے گا۔ اگر مرغے کی پونچھ نکال دی جائے تب بھی وہ مرغا ہی رہے گا۔ لیکن اگر اس کی بانگ نکال دی جائے تو وہ مرغا نہیں رہے گا۔ اسی طرح شیر کے اعضاء کم کر دیں تب بھی شیر کو شیر ہی کہیں گے لیکن اگر شیر کا دھاڑنا اور جھپٹنا بند کر دیا جائے تو شیر کو شیر نہیں کہہ سکتے۔
حضور والا! کسی بھی جاندار اشیاء کی وہ صفت جو اسے بقاء دینے کے لئے دوام دینے کے لئے ،جو اسے قائم رکھنے کے لئے ، جو اس شئے کو آگے بڑھانے کے لئے ، جو اس کی شناخت قائم کرنے کے لئے کام آ رہی ہوتی ہے وہ اس کی خودی ہوتی ہے۔
دنیا کی ہر چیز کے لیے خودی کی ضرورت:
خودی صرف انسان کے لئے نہیں ہے دنیا کی ہر شئے کے لئے ایک خودی ہے۔ یہ انسان کا اصل ہوتی ہے اور اگر اصل انسان کے اندر نہ ہوتو وہ انسان ، انسان نہیں ہے۔ انسان کا کمال یہ ہے کہ تمام انسان لگتے ایک جیسے ہیں لیکن ہم ہوتے ایک جیسے نہیں ہیں۔ ہمارے اندر کی ول پاور ، ہمارے اندر کی قوت ارادی ، ہمارے اندر کی شناخت ، ہمارے اندر کا انسان ایک دوسرے سے بہت جدا ہوتا ہے۔ یہ اتنا مختلف ہوتا ہے کہ ایک تھری کلاس کا بچہ ، کلاس کے اندر بیٹھے ہوئے کھڑکی سے باہر ایک ہرن کو بھاگتے ہوئے دیکھتا ہے تواس کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیتا ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بچہ جب پلٹتا ہے تو دنیا اس کو شیکسپئر کے نام سے جانتی ہے۔ وہ بتیس ڈراموں کا رائیٹر بن کر واپس آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کھڑکی سے نکل کر ہرن کے پیچھے بھاگنے میں اس نے جو سفر طے کیا تھا وہ خود شناسی کا سفر تھا۔ خود شناسی کے اس سفر نے اس کو شناخت دے دی اور اگر آج بھی اس کے گاؤں میں جا کر اس کے نام کو پکارا جاتا ہے تو ساٹھ فیصد لوگوں کے چہرے اس لئے پیچھے ہو جاتے ہیں کیونکہ لوگوں نے ادباً اس کا نام رکھا ہوتا ہے۔ اس نام کو شناخت مل گئی ہوتی ہے لوگ ادباً اپنے بچے کا نام اس کے نام پر رکھ لیتے ہیں۔ کسی بازار میں ساٹھ فیصد لوگ اسی کے نام سے منسوب نظر آتے ہیں۔
کارخانہ قدرت میں مزاج انسانی کا اختلاف ایک حسن ہے:
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کی شناخت ایک ہی ہوتی ہے لیکن فلسفہ یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کی شناخت ایک ہو نہیں سکتی۔ کارخانہ قدرت اگر تمام انسان ایک مزاج کے پیدا کر دیتا تو دنیا سے حسن ختم ہو جاتا۔ اگر تمام لوگوں کے سیکھنے کی صلاحیت ایک جیسی ہو جاتی تو دنیا سے حسن ختم ہو جاتا اسی طرح اگر تمام سکھانے والے برابر ہو جاتے تو دنیا سے حسن ختم ہو جاتا۔ اگر دنیا میں تمام ڈاکٹر ایک ہی درجے کے ہوتا تو کیا ماجرا ہوتا۔ اگر دنیا کے اندر تمام شاعر ایک ہی درجے کے ہوتے تو کیا معاملہ ہوتا۔ اگر تمام شاعروں کے شعروں کا وزن برابر ہوتا تو دنیا کے اندر توازن نہ رہ سکتا۔ قدرت نے اتنی ورائٹی رکھی ہے کہ ہر شخص کی جدا جدا خودی ہے اور ہر شخص کی جدا جدا شخصیت ہے کیونکہ قدرت نے اس سارے کارخانے کو چلانا تھا۔ میں اگر اکیلا ہوں تو میں اکیلا نہیں ہوں۔ میری جنت اگر اکیلی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اس میں کوئی دوسرا نہ ہو۔ ایسی جنت جس میں ، میں اکیلا ہی ہوں گا دراصل وہ جہنم ہو گی۔
حضور والا !یہ یاد رکھیے گا ہماری زندگی کے سارے رنگ دوسروں ہی کے دم سے ہیں ہماری زندگی کے تمام ذائقے دوسروں ہی کے دم سے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا مزاج ہے ، ہر ایک کی اپنی خودی ہے ، ہر ایک کی اپنی شناخت ہے۔
انسانیت کے جبلی تقاضے اور سٹیمانولوجی:
دوسرا فلسفہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ انسان دنیا کی وہ واحد مخلوق ہے جس کے جبلی تقاضوں کو، اس کی نفسیات کو، اس کے مزاج کو، اس کے نفس کو، اس کی روح کو ، اس کے علم کو، اس کی عقل کو ، اس کے دماغ کو ، اس کی سمجھ کواگر سامنے رکھا جائے تو انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے ۔ وہ دو چیزیں کون سی ہیں ایک اچھائیوں کا مجموعہ ہے اور ایک برائیوں کا مجموعہ ہے۔ یہاں پر بیٹھا ہوا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ آپ کے اندر موجود اچھائیاں آپ کا کمال نہیں ہے یہ خدا کا آپ پر انعام ہے ۔ اگر آپ کسی برے شخص کے ساتھ بھی اچھے ہو جاتے ہیں تو یہ آپ کا کمال نہیں ہے یہ چیز اللہ نے آپ کے ساتھ پیوست اسی طرح کی ہے۔ عین اسی طرح معاملہ انسان کی خامیوں کا بھی آ جاتا ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک یا دو خامیاں ایسی موجود ہوتی ہیں جو انسان کے بس میں نہیں ہوتیں۔ ہم نے کسی قلعے کو فتح نہیں کرنا ہوتا ، ہم نے کوئی پانی پت کی جنگ نہیں لڑنی ہوتی ، ہم نے صرف اور صرف ایک جنگ لڑنی ہوتی ہے جو انسان کی خود اپنے ساتھ جنگ ہے۔ یہ جنگ وہ ہوتی ہے کہ جو فالٹ یا وہ خامی جو ہمارے اندر بائی ڈیفالٹ موجود ہے اس کے خلاف لڑنا ہوتا ہے۔
ایران میں قالین بانی کی صنعت صدہا سال پرانی ہے۔ قالین بنانے کی مہارت کا درجہ یہ تھا کہ اگر آج سے چھ سو سال پہلے کے ایک قالین پر اگر تالاب کی تصویر بنائی جاتی تھی تو لوگ اس قالین پر پاؤں رکھنے سے پہلے اپنے کپڑے ٹخنوں سے اوپر کر لیتے تھے۔ ان کی بناوٹ میں حسن اتنا تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس پر پاؤں رکھنے سے ہمارے پاؤں پانی میں ڈوب جائیں گے۔ ایک دفعہ تمام قالین بنانے والے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کی مکمل اور کامل ذات تو صرف رب کی ہے ، ہم مکمل نہیں ہو سکتے اور اگر آج ہمارے کام میں پرفیکشن اتنی آ گئی ہے تو یہ بھی ہماری انسلٹ یعنی بے عزتی ہے کیونکہ مکمل اور پرفیکٹ ذات صرف اور صرف رب کی ہے۔ تو انہوں نے ایک کام کیا کہ اپنے بنائے ہوئے قالینوں کے کونوں کو تھوڑا سا نامکمل رہنے دیا۔ اس عمل کو سٹیمانولوجی کہتے ہیں اور اس کا مطلب ہے پرشئین فالٹ یعنی کہ تھوڑا سا فالٹ کا موجود رہنا۔
انسانی عمل میں فالٹ خداپرستی کا سبب:
یاد رکھیے گا انسان دنیا کی وہ واحد مخلوق ہے جو اپنے ساتھ تھوڑا سا پرشئین فالٹ لے کر آتی ہے یعنی کہ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کمی کوتاہی ہوتی ہے۔ خدا کے نظام میں کچھ باطل نہیں ہے سب کچھ مکمل ہے۔ یہ میرا فالٹ ہی میری خوبصورتی ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کر دیتی ہے کہ میں خدا کے سامنے جھک جاؤں۔ دراصل یہ فالٹ ہی وہ ذریعہ ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم درستگی کی کوشش کریں۔ دراصل میرے پیچھے کون پڑا ہوا ہےوہ میری ہی خامی ہے وہ مجھے ڈرائیو کر رہی ہے۔
اپنی ذات سے جنگ جہاد اکبر:
میری جنگ کس سے ہو رہی ہے ، میرے اپنے آپ سے ہی ہو رہی ہے۔ میری توانائی ، میری طاقت، میری سمجھ کہ میں اللہ کے سہارے کے بغیر خود سے نہیں لڑ سکتا۔ سو میری یہ جنگ دنیا کی سب سے بڑی جنگ ہے۔ یہ کون کہہ رہا ہے۔ یہ میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں جو غزوہ کے بعد واپسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین سے فرمارہے ہیں کہ جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ رہے ہو۔ تو صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ رہے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ اس سے بڑی جنگ کیا ہو سکتی ہے ؟جس میں ہماری گردنیں بھی گئیں، جس میں ہم سے ہمارے ساتھی بھی گئے اور آپ کے جانثار دوست بھی گئے۔ توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شہر میں تم داخل ہونے لگے ہو’’ شہر امن‘‘ میں وہاں تمہاری جنگ تمہارے نفس سے ہے اور اس نفس سے جنگ کو جہاد اکبر کہا گیاہے۔ اس جنگ سے جس میں تلواریں اور گردنیں استعمال ہوئیں اس سے بڑی جنگ وہ جنگ ہے جو میری اپنے آپ سے ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو میری میرے نفس کے ساتھ جنگ ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو میرے پرشئین فالٹ کے ساتھ جنگ ہے۔
تو حضور والا! کمال کی بات یہ ہے کہ اگر میرے اندر کا پرشئین فالٹ نکال دیا جائے تو میں انسان نہیں رہتا۔ ہماری ساری ذات کا حسن اور ہماری ساری شخصیت کا حسن اچھائیوں اور برائیوں کے مجموعے سے ہی ہے۔ بقول کسی صوفی کے ، بقول کسی درویش کے کہ’’ درحقیقت بہتر انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے چبھنے والے کونوں کو کاٹ دیتا ہے‘‘۔
بنیادی طور پر انسان کی پوری زندگی کا مواد اور مقصد دو چیزیں ہوتی ہیں نمبر ایک آپ کی ذات سے کسی کا نقصان نہ ہو رہا ہو اور دوسرا نمبر یہ کہ آپ کی ذات سے کسی کا فائدہ ہو رہا ہو۔ اگر آپ کی زندگی میں یہ سفر شروع ہو گیا کہ آپ نے بے ضرر ہونا شروع کر دیا ہے اور دوسرا قدم کہ آپ فائدہ دینے کی طرف آ گئے ہیں تو یقین کیجیے گا کہ آپ نے زندگی کے معنی کو پا لیا ہے۔
ایک بڑی خوبی ،چھوٹی سب خوبیوں پر بھاری:
مجھے یہ بتائیں کہ ایک کمرے کے اندر چھوٹی چھوٹی تین لائیٹیں جل رہی ہیں اور اچانک سے ایک ہزار واٹ کا بلب روشن ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے کہ چھوٹی لائیٹیں بند کر دیں گے۔ ہماری ساری خوبیوں میں ایک خوبی ایسی ہوتی ہے جو ایک ہزار واٹ کا بلب ہوتی ہے۔ اس ہزار واٹ کے بلب کا کمال یہ ہوتا ہے کہ باقی ساری لائیٹیں ڈم ہو جاتی ہیں۔ کتنا بد صورت لگے گا کہ سورج پورا نکلا ہو اور آپ چراغ لے کر شہر میں پھر رہے ہوں۔ یہ کام بے معنی لگے گا۔ آپ کے اندر ایک صفت ایسی ہوتی ہے جس نے آپ کو شناخت دینی ہوتی ہے۔ آپ کی ذات اس صفت کے بغیر صفر ہے ۔ ہر شخص نے اپنا تشخص اسی صفت کے ساتھ پانا ہے جس صفت کے ساتھ خدا نے اس انسان کو پیدا کیا ہے۔
جس وقت ہم اپنی بیٹی کو بیاہ دیتے ہیں تو اس وقت ہم جہیز بھی اس کو ساتھ دیتے ہیں لیکن باپ اپنے دو آنسو بہا کر اپنی حیا بھی ساتھ دیتا ہے۔ اور ماں خدا سے دعا کرتی ہے کہ اگر اے اللہ! میری زندگی میں تیرے لئے کوئی اخلاص تھا تو آج وہ میں اپنی بیٹی کے جھولی میں ڈال دیتی ہوں یعنی یہ عمل ماں اس لئے کرتی ہے کہ بیٹی کی اگلی زندگی بہتر ہو۔
انسان کی تخلیق سے پہلے اللہ نے زمین کو تخلیق کیا۔ یعنی خالق پہلے یہاں کام کرے گا۔ اس زمین پر بھیجنے سے پہلے خدا نے انسان کو کھربوں سال تک اپنے پاس رکھا ہے ۔ یعنی انسان کا اللہ سے تعلق بہت پرانا ہے۔ یعنی اللہ کہتا ہے کہ جب تیرے پاس کوئی سہارا نہ ہو تو میری یاد اور میرا چراغ روشن ہو جائے گا۔ وہ تمہارے تمام اعمال جو تو نے میرے لئے کیے ہیں میں ان کو روشنی بنا کر تیرے لئے محافظ کے طور پر لے آؤں گا۔ تیرے قلب کی ساری کی ساری کروٹیں ، تیری تکلیف کی ساری کی ساری کروٹیں، تیری یاد داشت، تیرے معاملات، تیری تنہائیاں، تیری بے بسی میں تیرا کوئی ساتھ ہے یا نہیں ہے تو وہ صرف خدا ہے۔ یاد رکھیے گا کہ پوری کائنات میں میرے ساتھ کھڑے ہونے کا کوئی دعویدار ہے تو وہ صرف اور صرف میرا خدا ہے۔
خداداد صلاحیت کا استعمال زندگی اوربندگی ہے:
تو حضور والا میری وہ صفت جو مالک نے میرے ساتھ میری ٹوکری میں ڈال کر بھیج دی جس کے بغیر میں میں نہیں ہوں۔ اس کو سنبھالنا، اس کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے عبادت۔ مجھے اپنے گاؤں کا وہ چھوٹا سا مولوی یاد آتا ہے جو ہر جمعے کی نماز کے بعد بندوں کو کہتا تھا کہ خدا کے بندو گھر اکیلے نہ چلے جانا رب کو ساتھ لے کر جانا ، کہیں اپنے رب کو یہیں نہ چھوڑ جانا۔ تم دن میں پانچ دفعہ یہاں آتے ہو اور یہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہو ، یہ یہاں چھوڑنے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ اپنے ساتھ لے کر جانے والا معاملہ ہے۔
حضور والا! میری وہ صفت جس ذات نے دی ہے، اس صفت کو اس ذات کے لئے استعمال کرنے کا نام ہے زندگی۔ اگر وہ صفت جو خدا نے مجھے دی تھی اور میں نے اس صفت کو شناخت نہیں کیا اور کام میں نہیں لایا تو میں نے گناہ کیا۔
اگر کوئی مہمان آپ کے گھر میں ایک کیک لے کر آئے اور آپ اس کو پاؤں کے نیچے رکھ کر مسل دیں۔ تو اس مہمان پر کیا گزرے گی۔ آپ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وہ صفت جو مالک نے آپ کو دی ہے اور ساری زندگی گزارنے کے بعد یہ یاد آئے کہ وہ صفت تو میں نے مسل دی ہے ۔ یہ ایک جرم نہیں ہے تو کیا ہے۔
میں سب سے پہلےاور سب سے زیادہ اہم سوال پر دوبارہ جا رہا ہوں جو دنیا کے سنجیدہ ترین انسانوں کے ذہن میں اٹھا ہے کہ میں کون ہوں؟ اور اس کے بعد اگلا قدم یہ ہے کہ مالک کون ہے؟ کسی نے سوال کیا کہ نعمت کا بہترین استعمال کیا ہے ؟ تو اس کا جواب ہے کہ نعمت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ اس ذات کے لئے کیا جائے جس نے یہ نعمت دی ہے۔ اگر آپ کی نعمت اس ذات کے لئے نہیں استعمال ہو رہی جس نے یہ نعمت دی ہے تو یاد رکھیں یہ ایسی نعمت باقی نہ رہے گی۔ چیزوں کا ذائقہ بے ذائقہ ہو جائے گا۔ چیزوں کی لذتیں ختم ہو جائیں گی۔ زندگی کے معنی بے معنی ہو جائیں گے۔
شیخ سعدی شیرازی سے چونسٹھ سال کی عمر میں کسی نے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے ؟ تو انہوں نےجواب دیا کہ چار سال۔ اس شخص نے کہا کہ آپ چار سال کے تو نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ عمر رسیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ تو شیخ سعدی شیرازی نے بڑا پیارا جواب دیا کہ مجھے سمجھ چار سال پہلے ہی ملی ہے۔ تو حضور والا! سمجھ کا پہلا قدم زندگی ہے اس سے پہلے کے ساٹھ سال ناشکری کے ہو گئے۔
زندگی کا عظیم مقصد خدا کی ذات:
زندگی کی سمجھ آنے کے بعد اگر زندگی وزنی معلوم ہو تو یاد رکھیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی اس کام کے لئے استعمال نہیں ہوئی جس کام کے لئے بنائی گئی تھی بلکہ کہیں اور استعمال ہو گئی ہے۔ اگر قلم سے لکھنے کی جنگ کی بجائے میں لڑنے والی جنگ میں استعمال کروں تو قلم ٹوٹ جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیز اس کام کے لئے نہیں بنی۔ ایک چیز جس کام کے لئے نہیں بنی اگر اسے اس کام میں استعمال کیا جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ بالکل عین اسی طرح جو صفت جس کام کے لئے اس صفت کو اسی کام اور اسی ذات کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے وگرنہ وہ قائم نہ رہ سکے گی بلکہ ٹوٹ جائے گی۔
آج بھی گاؤں میں جب چھت ڈالی جاتی ہے تو اس میں ایک بالا رکھا جاتا ہے۔ اگر چھت کا وزن زیادہ ہو تو وہ بالا ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کی زندگی وزنی محسوس ہو رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک وزن اٹھایا ہوا ہے جس کی آپ کو ضرورت نہیں تھی۔
ایک بہت سادہ سے فقیر نے بہت اعلیٰ فقرہ کہا ’’ جب پریشان ہونے لگو تو یہ ضرور دیکھ لینا کہ آیا یہ میری پریشانی بنتی بھی ہے کہ نہیں‘‘۔ پریشانی پر پریشان ہوتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ بندہ بن کر پریشان ہوئیے گا کیونکہ آپ کی فکر مندی کرنے والی کوئی اور ذات بھی ہے۔ جب وہ ذات پریشانی سے آزاد ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی پریشانی بے معنی ہے۔
انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی خامیوں کو سمجھے اور اپنے کونوں کو گول کرے جو چبھنے والے ہیں تا کہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ سمجھداری کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی خوبیوں کو سمجھے اور خوبیوں میں اس خوبی کو سمجھنا بہت ضروری ہے جو اس کی شناخت بن سکتی ہے، جو اس کی خودی کا سبب ہے۔ اس صفت کو شناخت کیجیے جس کے بغیر آپ کا وجود نہیں ہے اس صفت کو سمجھیں اور اس صفت کو استعمال میں لائیے ۔ یہ یاد رکھیں کہ آپ کی خیر اور دوسروں کی خیر اس صفت میں چھپی ہوئی ہے جو اللہ تعالی نے آپ کے اندر رکھی ہے۔