سب سے بنیادی تھیوری جو زندگی میں انسان کے سامنے آتی ہے وہ آپ کی کوالٹی آف لائف سے متعلق ہے۔ آپ کی کوالٹی آف لائف کیا ہے؟ کیا آپ اپنے دفتر کی زندگی کو ہی لائف سمجھتے ہو؟ یا آپ اپنی ذات کو ہی اپنی لائف سمجھتے ہو؟ آپ اپنی فیملی کو ہی اپنی لائف سمجھتے ہو؟ یا آپ اپنی سلیف اپروومنٹ کو کتنا ٹائم دیتے ہو؟ میں نے اس کام کو سیون باسکٹس یعنی سات ٹوکریوں کے نام سے کر دیا ہےیعنی سات ٹوکریاں ہیں اور ہم نے اپنےوقت کو ان سات ٹوکریوں میں رکھنا ہوتا ہے۔
(۱)پروفیشنل لائف :
سب سے پہلی ٹوکری ہماری پروفیشنل لائف کی ہے۔ یعنی سب سے پہلے وقت ہم اپنی پروفیشنل لائف کو دیں۔ یعنی آپ کا پروفیشن کیا ہے اور آپ کی پروفیشنل لائف کیسی ہے۔
(۲ ) آپ کی فیملی :
دوسرے نمبر پر آپ کی فیملی ہے اور یہ بہت اہم چیز ہے۔ دوسرے درجے پر ہم اپنے وقت کو اپنی فیملی کو دیتے ہیں۔
(۳) آپ کی ذات :
تیسرے نمبر پر آپ کی ذات ہے۔ یعنی آپ کا کردار ہے۔ آپ کی اپنی مینٹیننس ہے۔
(۴) سوشل سرکل:
چوتھے نمبر پر آپ کا سوشل سرکل ہے۔ سوشل سرکل ہونا بہت ضروری ہے۔ میں بظاہر بہت سے کامیاب اکیلے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے شعبے میں بہت ماہر گزرے ہیں لیکن ان کا سوشل سرکل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اکیلا پن کا شکار ہو گئے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو انجان ہوتے ہیں اور اپنی کردار ایسے بناتے ہیں کہ انجان ہونے کے باوجود وہ اپنے بن جاتے ہیں۔
(۵) سماجی خدمت :
پانچویں نمبر پر نکتہ یہ ہے کہ آپ نے معاشرے کی خدمت کیا کی ہے؟
(۶) تزکیہ نفس :
چھٹا نمبر آپ کی روحانی تعلق اور مذہب ہے جس کے لئے آپ وقت دیتے ہیں۔ اللہ اور رسول پر ایمان رکھنا۔
(۷) اپنے ساتھ وقت گزارنا:
ساتویں اور آخری چیز سب سے اہم ہے۔ جس میں ہم نے اپنے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ یہ سائیکولوجیکل ایک بیماری کا نام ہے جو ایسے لوگوں میں پائی جاتی ہے جو تنہا نہیں رہ سکتے۔ ان کی شخصیت میں ایک خلا رہ جاتا ہے۔ وہ مسلسل زندگی میں اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں لہٰذا وہ اپنی شخصیت کے ان پہلوؤں پر غور نہیں کر پاتے جو تنہائی میں اپنے ساتھ وقت گزارنے کے درمیان ذہنی دریچے کھلتے ہیں۔ ایسے لوگ مصروف رہ کر خوش ہوتے ہیں تا کہ ان کے اندر کا درد اور اندر کی آوازیں سنائی نہ دیں۔ مصروفیت اور کام ان کا راہ فرار ہوتا ہے ایسے لوگوں کا جو اپنے آ پ سے بات کرنا نہیں جانتےاور اپنے آپ سے خوش نہیں ہوتے۔
لٹریچر میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شخص اپنی تنہائی کا مزہ لے سکتا ہے وہ خوش قسمت انسان ہے۔ اس کا مطلب ہے اس کے اندر زندگی کے آثار موجود ہیں ، اس کے اندر احساسات موجود ہیں ۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ پچیس سال کی عمر میں لوگ مر جاتے ہیں لیکن دفنائے پچیس سال کی عمر میں جاتے ہیں وہ معاملہ ایسے شخص کے ساتھ نہیں ہوتا جو اپنی تنہائی کا مزہ لینا نہیں جانتا۔
اب فرسٹ تھنگ فرسٹ کے اصول پر پرکھنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آج میری فیملی کو وقت چاہیے۔ ترتیب کے اعتبار سے وہ دوسرے نمبر پر آتی ہے لیکن مجھے آفس سے چھٹی لے لینی چاہیے تا کہ میں فیملی کو پراپر وقت دے سکوں۔ عین ممکن ہے کہ کسی دن میرے دفتر کے کام ایسے ہوں کہ مجھے گھر فون کر کے بتانا پڑے کہ میرے دفتر کے ضروری کام ہیں جن کو کرنا آج بہت ضروری ہے۔
عین ممکن ہے میرا ایک دوست تکلیف میں ہو تو مجھے اپنی اس باسکٹ کو وقت زیادہ دینا چاہیے۔ عین ممکن ہے مجھے اپنا اینول ہیلتھ چیک اپ یعنی سالانہ چیک اپ کروانا ہے۔ عین ممکن ہے آج میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں تنہائی میں جاؤں۔ میں موبائل سوئچ آف کرتا ہوں گاڑی نکالتا ہوں اور کہیں ویرانی میں اکیلے میں جا کر کافی کا مگ پکڑتا ہوں اور سوچتا ہوں اور چارج ہو کر واپس آ جاتا ہوں۔ تو میرے اوپر منحصر ہے کہ مجھے ایک اچھی لائف کے لئے اپنے وقت کو کہاں کہاں اور کیسے تقسیم کرنا ہے۔
یعنی ترجیحات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ کی زندگی میں ترجیحات نہیں ہیں اور آپ نے ترجیحات کے تعین کے بغیر وقت کو استعمال کیا ہے تو آپ نے اپنے ساتھ زیادتی کی ہے۔
زندگی کے عملی دائرے میں کچھ چیزیں ایسی ہوتیں جن کو روزانہ ہم نے کرنا ہی کرنا ہوتا ہے۔ ایک خاتون کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو بھی ٹائم دے ، اپنی جاب بھی کرے ، اپنے شوہر کو بھی وقت دینا ہے اور اس کی اپنی ہیلتھ کو بھی وقت درکار ہے تو ان تمام کاموں کو کس طرح مینج کیا جائے؟
اس چیز کا اندازہ آپ نتائج سے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کی زندگی روٹین والی ہے اور وقت کی تقسیم ان سیون باسکٹس کے حساب سے ہو رہی ہے اور کوئی ٹینشن نہیں ہے تو آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے کہ جہاں کام زیادہ ہو اور وقت کم ہو یا پھر کام کم ہو اور وقت زیادہ لگ رہا ہو۔ایسی صورت میں ٹائم کو مینج کرنا پڑتا ہے۔ کام زیادہ ہوں اور وقت کم ہو تو ٹائم مینج کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کام کم ہو اور وقت زیادہ لگ رہا ہو یعنی وقت فالتوموجود ہو۔ تو یہ فالتو ٹائم ضائع کرنے کے بجائے اس وقت کو کسی استعمال میں لایا جائے۔ کوئی کورس کر لینا چاہیے ، کچھ سیکھ لینا چاہیے ، کوئی پروفیشنل گرومنگ کی سرگرمی کرنی چاہیے، معاشی حوالے سے مزید بہتری کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔کچھ طالب علم اپنی چھٹیوں کو سو کر ہی گزار دیتے ہیں اور کوئی سرگرمی نہیں کرتے۔ یعنی کوئی کورس نہیں کرتے یا کوئی جسمانی یا ذہنی مشق نہیں کرتے۔
بحیثیت قوم ہمارا ایک المیہ اور بھی ہے ہم نے سیکھنے کے عمل کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھا۔ کسی بھی کام کو سیکھنا بحیثیت خود ایک بہت اہم کام ہے۔ سیکھنے کے لئے کتاب ایک بہت بڑا منبع ہے دوسرا بڑا مبنع مشاہدہ ہے۔ آپ کے ساتھ زندگی میں جو واقعا ت ہوئے ہیں ان کے معنی آپ نے کیا نکالے ہیں؟ زندگی کے کامیاب لوگ اپنی زندگی کی ٹریجیڈیز اور گڈلکس کی تفصیل بیان کرتے ہیں اور اس کو سمجھتے ہیں کہ یہ کام کیوں ہوئے اور ان کے معانی کیا تھے اور اصل میں ہوتا کیا کہ سب چیزیں آپس میں منسلک ہو رہی ہوتی ہیں۔گلہ ، شکوہ اور پچھتاوا یہ نشانیاں اس شخص کی ہیں جس نے وقت کو اچھا استعمال نہیں کیا۔ جس شخص کو دنیا میں سزا ملنی ہوتی ہے اس شخص کو گلہ شکوہ اور پچھتاوا فیس کرنا پڑتا ہے۔
یونان کے فلسفہ میں ایک کہانی ہے جس میں ایک شخص قریب المرگ ہوتا ہے اور تین شخص اس کے سامنے چیخ اور چلا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ تم ہمارے مجرم ہو۔ وہ شخص تینوں سے کہتا ہے کہ تم تینوں کون ہو میں تم لوگوں کو نہیں جانتا۔ تو پہلا شخص کہتا ہے میں وقت ہوں۔ میں وہ وقت ہوں جو تمہیں ملا اور تم نے مجھے ضائع کر دیا۔ دوسرا شخص کہتا ہے میں وہ انرجی ہوں جو مالک نے دی تھی تمہیں اور تم نے ضائع کر دی۔ اور تیسرا شخص یہ کہتا ہے کہ میں وہ وسائل ہوں جو بہانے بنا بنا کر مالک نے تمہیں دئیے اور تم نے مجھے ضائع کر دیا۔ جب آپ یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کاش، اگر اور پچھتاوا کے تو اس کا یقیناً مطلب یہی ہے کہ آپ نے اپنے وقت کو درست استعمال نہیں کیا۔
لرننگ کے بہت سے ذرائع ہوتے ہیں مثال کے طور پر میں اپنی گاڑی کو اپنی یونیورسٹی کہتا ہوں ۔ اگر سٹرک پر کہیں ٹریفک بلاک ہو گئی ہے میں اس دوران اپنی کتاب نکال لیتا ہوں یا لیکچرز کی سی ڈی لگا لیتا ہوں یا میرے موبائل پر کافی میسجز آئے ہوتے ہیں میں ان کا جواب دینا شروع کر دیتا ہوں۔ یعنی وقت کی تقسیم میں اس چھوٹے سے چھوٹے حصے کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ مجھے یہ دکھ کبھی نہیں ہوا کہ جو وقت میرے پاس بچا تھا اس کو میں نے استعمال کیسے کیا؟ توآپ کے پاس جتنا بھی وقت ہوتا ہے اس کو کسی نہ کسی سرگرمی میں استعمال کیاجائے۔ نئی نئی چیزیں سیکھیں اور آگے بڑھتے رہیں۔ ایسی صورت میں آپ کو گلہ شکوہ یا پچھتاوا نہیں ہوتا۔
آج کل کے مصروف دور کے اندر والدین کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لئے وقت نہیں ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ وہ بچے کئی کئی گھنٹے اپنے لیپ ٹاپ ، ٹیبلٹ یا موبائل پر کھیلتے رہتے ہیں اور ایسے بچوں میں وقت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور مزید جسمانی سرگرمیاں بچوں کی زندگی سے ختم ہوتی جا رہی ہیں اور بچوں میں لرننگ کے مواقع موجود نہیں ہیں۔ بچوں کی چھٹیاں ہوں تو پوچھا جائے کہ بچہ کیا کر رہا ہے تو وہ کہتا ہے سارا دن کھیلتے رہے ہیں یا لیپ ٹاپ دیکھتے رہے ہیں یا ویڈیو گیم کھیلتے رہے ہیں، ایسی صورت میں بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
یہ بہت خوفناک چیز ہے۔ دنیا کے جو بااثر شخصیات ہیں ان کی ایک خصوصیت پروایکٹو ہونے کی ہے۔ ہم بچوں کے لئے بیمہ کی پالیسی تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی سوچ کی تربیت نہیں کرتے جن کی مستقبل میں ان کو ضرورت ہوتی ہے اور جس سوچ کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی کی تشکیل دینی ہوتی ہے۔ خدانخواستہ اگر کل کو آپ کو اللہ تعالی کے پاس جانا بھی پڑے تو آپ کو خدشہ نہ ہو کہ بچوں کو شعور نہیں دیا۔ آپ کو یہ اندازہ ہو کہ بچوں کو شعور دے دیا ہے جس سے وہ زندگی کے چلینجز سے نبرد آزما ہو جائے گا۔ یہ پلاننگ روزانہ کی بنیاد پرہونی چاہیے۔ ہم نے آج کا پروگرام کرنے کے قابل اس لئے ہوئے ہیں کہ ہم نے کل ہی اس کی پلاننگ کر لی تھی۔ سو روزانہ کی بنیاد پر پلاننگ ، چیزیں وقت پر کرنا، ان چیزوں سے متعلقہ امور کو سوچا، بیٹھ کر یہ تمام چیزیں پروایکٹو اپروچ میں آتی ہیں۔
دراصل پروایکٹو نیس کا مطلب ہی یہی ہے کہ آپ وقت کو ضائع کرنا نہیں چاہتے۔ یعنی یہ اس پراسیس کا نام ہے کہ جو آئندہ پودا لگنا ہے اس کے ثمرات یا پھل کیسے حاصل کیے جائیں اور زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھایا جائے۔ پروایکٹونیس آپ کو زیادہ سمارٹ کرتی ہے اور آپ کو زیادہ پر اثر بناتی ہے اور آپ کا وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔