10 مارچ؛ آج امامِ انقلاب، انسان دوست مولانا عبیداللہ سندھی کا یوم پیدائشں ہے۔ دورِ حاضر میں مولوی کا نام سنتے ہی ذہن فوراً بم دھماکوں، مار دھاڑ، فرقہ واریت، مذہبی منافرت، اور قدامت پسندی کی طرف جاتا ہے مگر مولانا عبیداللہ سندھی کی تحریریں پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے مذہبی رہنما بھی رہے ہیں جو علم، جدت پسندی اور رواداری کی مجسم تصویر ہی نہ تھے بلکہ ان کی فرقہ واریت پھیلانے والوں پر بھی برابر کی نظر تھی۔
اُپل جٹوں کے سیالکوٹی گھرانے میں 10 مارچ 1872 کو پیدا ہونے والے بوٹا سنگھ ہی عبیداللہ سندھی تھے جنھوں نے 1915 سے 1939 تک افغانستان، سوویت یونین، ترکی اور سعودی عرب (حجاز) میں 24 برس گزارے۔
ان 24 برسوں میں انہوں نے افغانستان کے حکمرانوں کی سیاسی چالوں کو سمجھا، سوشلسٹ انقلاب پر چھائی روسی قوم پرستی کے منفی اثرات کو بروقت جانا، کمال اتاترک کے جدت پسند ترکی کا مشاہدہ کیا اور نومولود سعودی عرب کے بادشاہوں کی سیاسی ترجیحات اور جابرانہ طرزِ حکمرانی کا بھی مطالعہ کیا۔ اس تجربہ کی روشنی میں انہوں نے کہا کہ؛ “میں نے دہریہ روس سے مقدس حجاز تک حکمرانوں کو دیکھا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہمارے انقلاب کو کوئی دوسرا ملک مدد نہیں دے گا کیونکہ ہر ملک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسیاں ہیں۔ وہ اپنی خارجہ پالیسیوں کے تحت ہی انقلابیوں کو چکر دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔ اگر ہم حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنی عوام ہی پر بھروسہ کرنا ہوگا نہ کہ کسی بیرونی طاقت پر. یہ وہ سیاسی ویژن (بصیرت) ہے جو ہمارے بہت سے انقلابیوں کو آج تک پلّے نہیں پڑا مگر مولانا سندھی نے اس بارے 1939 ہی میں کھل کر اظہار کر دیا تھا۔
مولانا عبیداللہ سندھی آزادی ہند کے عظیم مجاہد، افکار امام شاہ ولی اللہ کے عظیم شارح، شیخ الہند مولانا محمود حسن کے شاگردِ خاص اور تحریکِ ریشمی رومال کے سرکردہ کارکن تھے۔ مولانا ہندوستان (پاک و ہند) میں یورپ کی قسم کا مادی انقلاب چاہتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصود علم اور سائنس کی وہ برکات ہیں جن سے آج کل یورپ مستفید ہو رہا ہے۔ وہ اسے اپنے ملک میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر صرف اس مادی انقلاب تک محدود نہیں۔ ان کے پیش نظر تو ہر فرد انسانی کا تعلق کائنات کی رُوحِ کل سے جوڑنا ہے، اور اسی کو وہ اسلام سمجھتے ہیں۔ تاہم ان کے نزدیک جب تک انسان مادی دنیا پر قابو نہ پا لے اور علم و سائنس کی برکتیں ہر شخص کے لیے عام نہ ہو جائیں، انسانیت بحیثیتِ مجموعی اسلام کے قریب نہیں آ سکتی۔ اسلام کی حکومت خدا کی حکومت ہے۔ خدا کی حکومت کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نعمتیں اس کے سارے بندوں کے لیے عام ہو جائیں۔
حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رح نے فرمایا:
“ہمارے موجودہ مذہبی طبقے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ وہ آسانی سے رجعت پسندی کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ نیز اب تک مذہب کے نام سے ہمارے یہاں جو تحریکیں چلیں، ان سے خود مسلمانوں کے اندر افتراق اور جھگڑے پیدا ہوئے۔”
“خالص اور بے میل انسانیت ہی قرآن کا صحیح اور مکمل نصب العین ہے۔ جو تعلیم عام انسانیت کے تقدم اور ترقی میں ممد و معاون ہے، وہ حق ہے اور جو تعلیم انسانیت کے ارتقاء میں حارج ہو وہ تعلیم حق نہیں ہو سکتی۔”
“جب کسی وجہ سے قوم کا ذہین طبقہ جو اخلاق اور افکار کا مالک ہوتا ہے اپنے فرائضِ منصبی سے غفلت برتتا ہے، تو اس کی یہ صلاحیتیں ذلیل کاموں میں صرف ہونے لگتی ہیں۔ ان کی ذلت کا پہلا قدم تملق ہے یعنی حکمران طبقے کی خوشامد کر کے ان سے زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی کوشش۔”
“خدا پرستی کی پہچان اس دنیا میں تو یہی ہے کہ خدا پرست انسان کو خدا کے سارے بندوں سے محبت ہو اور وہ خدا کی خوشنودی، اس کی مخلوقات کی خدمت اور اس کی بہبودی میں ڈھونڈے۔”
“ہم اس وقت جس مذہبیت کا شکار ہو رہے ہیں، یہ روگی ہو چکی ہے۔ یہ سُنی کو شیعہ سے لڑاتی ہے۔ اہلحدیث کا دل حنفی سے میلا کرتی ہے۔ احمدی اور غیراحمدی میں نفرت ڈالتی ہے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بناتی ہے۔ اس مذہبیت کے طفیل انسان انسان کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے۔ میں اس روگی مذہبیت کو مٹانا چاہتا ہوں۔”
“دس ہزار آدمیوں کی ایک بستی ہے۔ اگر اُس کا اکثر حصہ نئی چیزیں پیدا کرنے میں مصروف نہیں رہتا تو وہ ہلاک ہو جائے گی۔ ایسے ہی اگر ان کا بڑا حصہ تعیش میں مبتلا ہو گیا تو وہ قوم کے لیے بار بن جائے گا اور اس کا ضرر بتدریج ساری آبادی میں پھیل جائے گا۔ یوں ان کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے انھیں دیوانے کتے نے کاٹ کھایا۔”
“مولانا نے فرمایا کہ اگر شاہ صاحب (شاہ ولی اللہ) کے اس اصول کو سمجھ لیا جائے تو چینی قوم کے اعلیٰ اخلاقی تصور، یونانی فلسفہ، ایرانیوں کی حکمت آفرینی، ہندو رشیوں کے بلند فکری نظام اور اسلام، یہودیت اور عیسائیت میں بنیادی طور پر کوئی تضاد نہیں رہتا۔ یوں کل انسانیت کے چوکٹھے میں ساری قوموں کے نظام، ادیان اور اخلاق اپنی اپنی جگہ ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں۔”
” قرآن کے عالم کو چاہیے کہ وہ انسانی تاریخ کے اس مطالعے سے معلوم کرے کہ انسانی ترقی کے عام اور غیر متبدل قوانین کونسے ہیں، اس کے بعد وہ قرآن میں غور کرے وہ دیکھے گا کہ قرآن وہی عالمگیر اور نا قابلِ تغیر اصولِ حیات پیش کرتا ہے۔ یہ قرآن کا صحیح مفہوم ہے اور یہی چیز ہے جو ازل سے ابد تک قائم رہے گی۔ اور اس کے ماننے میں تمام انسانوں کا بھلا ہے۔ فی الحقیقت مسلمان وہ ہے جس کے ذہن میں کل انسانیت کی گنجائش ہے۔
جو امت قرآن کریم کا پروگرام نہیں اپنائے گی ۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔
مسلمان قرآن کی عالمی تنظیمی دعوت کا پروگرام لے کے اٹھے اور پھر وہ اپنی اس تنظیمی دعوت میں کامیاب ہوئے اور یہ صرف پچاس سال کی مدت یعنی واقعۂ صفین کی تحکیم تک ہوا۔ اب جب کوئی امت اپنی تنظیمی دعوت لے کر اٹھے گی تو وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہو گی جب تک قرآن کے پروگرام کو نہ اپنائے۔”
خصوصاً ہمارے نوجوان طبقے کو چاہیے کہ وہ اپنے لیڈروں کے فکر، نظریہ اور مشن کے بارے میں جانے۔ کیونکہ اگر ہم نے بروقت مولانا سندھی جیسی شخصیات کی باتوں کو مدِ نظر رکھا ہوتا تو آج جن انتہا پسندیوں کا ہم شکار ہیں ان سے بچ سکتے۔
مناظر: 139