وقت یا ٹائم مینجمنٹ کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا وقت قیمتی کتنا ہے؟ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جو وقت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اور انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ جو وقت وہ ضائع کر رہے ہیں وہ کتنا قیمتی ہے۔ یہ زندگی ایک بار ملی ہے اور ایک بار ہی موقع ملتا ہے اسے جینے کا ، اور اس زندگی میں کہیں جا کر آپ کو شعور ملا اور جب شعور ملا بھی تو آپ نے باقی وقت ضائع کر دیا۔
آپ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ اس وقت کو کہاں استعمال کرنا تھا اور جو شعور مل گیا ہے اس کو استعمال کیسے کیا جائے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے آپ کے پاس پیسے ہوتے ہیں ، اور پیسوں کی بھی ایک قدر و قیمت ہے ، آپ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ پیسوں کو کہاں خرچ کیا جائے ، پیسوں کو بہتر استعمال کہاں ہیں۔ لیکن جب وقت کی بات آتی ہے تو ہم یہ نہیں دیکھتے کہ وقت کتنا قیمتی ہے اور اس کو استعمال کہاں کرنا ہے؟ اس طرح وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ جس طرح پیسہ ایک وسائل میں شمارکیا جاتا ہے اسی طرح وقت بھی وسائل کی ایک اہم شکل ہے۔ جس طرح لوگ اپنا پیسہ ضائع کر دیتے ہیں اسی طرح بہت سے لوگ اپنا وقت کا وسیلہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا وقت کی اہمیت کو جانیے یہ زندگی ایک بار ملی ہے آج جو وقت ملا ہے وہ دوبارہ نہیں ملےگا، لہٰذا وقت کی قدر کریں اور اس کے استعمال پر غور کریں۔
قدرت کی سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ ہر شخص کو دن کے چوبیس گھنٹے ہی ملتے ہیں ۔ کوئی بادشاہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے دن کے گھنٹے پچیس ہیں اور ایک عام آدمی یہ کہے کہ میرے دن کے چوبیس گھنٹے ہوتےہیں۔ وقت سب کو برابر اور ایک جیسا ملا ہے یہ قدرت کا ایک انمول انصاف ہے۔ تمام لوگوں کو ہفتہ میں سات دن ملتے ہیں۔ سب لوگوں کےمہینے کے دن برابر ہوتے ہیں اور سب کے لئے سال کے دن ایک جتنے ہوتے ہیں۔ ہر شخص کی جیب میں دنوں کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت کو استعمال کیسے کرنا ہے؟ اس وقت کو ٹھکانے کہاں لگانا ہے ، یا اس وقت کو کہاں ضائع کرنا ہے؟ ہم پروفیشنل لوگ ہیں ہر شام کو ہم کہتے ہیں کہ کام بہت زیادہ تھا ہمیں وقت نہیں ملا۔ ہر شام ہم چاہتے ہیں کہ ایک گھنٹہ ہمیں اور مل جاتا۔ ہر شام میںمیٹنگز ختم کر کے گھر جارہا ہوتا ہوں تو میں یہ سوچتا ہوں کہ کاش ایک گھنٹہ اور مل جاتا تو دو کام اور کر سکتا تھا۔
ہمارے معاشرے میں لوگوں کی ایک کثرت ایسی ہے جو یہ کہتی ہے کہ جی ہم تو وقت گزار رہے ہیں؟ اگر ہم ان سے پوچھیں کہ اس وقت میں کیا کر رہے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ جی بس وقت گزار رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس ٹائم گزارنا بھی ایک سرگرمی کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ وقت کا استعمال ایسے طبقے کے پاس ٹی وی دیکھ کر گزرتا ہے، سوشل میڈیا پر بیٹھ کر گزرتا ہے، اخبارات کا مطالعہ کر کے گزارنا ہے، یا آوارہ گردی کر کے وقت کو گزارنا ہے۔ سو ایسے طبقے کے پاس وقت ایک سرگرمی کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ بے معنی قسم کی گفتگو میں وقت کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔
اللہ کی طرف سے ایک انصاف ہے کہ وقت ایک بہت بہترین منصف ہے جو انصاف کرتا ہے ہر انسان کے اعمال کا۔ اللہ تعالی تمام انسانوں کو برابر وقت دیتا ہے اس کے بعد ہر انسان پر منحصر ہے کہ اس وقت کے انسان کچھ بن گیا یہ دنیا میں کچھ بنا کر دکھا دیا یا آپ کے وقت کو ضائع کر دیا۔ پرانی کہاوت مشہور ہے کہ آپ نے وقت کو ضائع کر دیا تو پھر وقت آپ کو ضائع کر دے گا۔ ہمارے معاشرے کے نوے فیصد لوگ اپنے ذہن کو فارغ رکھتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے آپ کو کسی نہ کسی پروڈیکٹو کام میں مصروف رکھے تو معاشرے کے نوے فیصد مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ فراغت ایک عذاب ہے اور ہمارے جیسا شخص تو یہ کہتا ہے کہ اگر ہم مصروف نہ رہیں تو ڈپریشن کا شکار ہو جائیں۔
اس تناظر میں دنیا کے لوگوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جو وقت کی اہمیت کو سرے سے جانتے ہی نہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو وقت کی اہمیت کو تو جانتا ہے لیکن اس کے استعمال کو نہیں جانتا؟
یونیورسٹی میں زیادہ نمبر لینے والا یہ ہی سمجھتا ہے کہ ڈگری مکمل کرلینے کے بعد مجھے توپوں کی سلامی دی جائے گی اور انڈسٹریل میڈیا مجھے خرید لے گا اور مجھے اچھی سیلری دے گا اور بہت اچھی نوکری مل جائے گی۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ڈگری مکمل کر لینے کے بعد کا وہ وقت جس میں آپ نے اپنے آپ کو مارکیٹ کے لئے تیار کیا وہ وقت بہت قیمتی اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ آپ نے اس وقت کو استعمال کیسے کیا۔ چند دن پہلے میں ایک انٹرویو میں شامل ہوا جس میں وہ لوگ خصوصی طور پر بلائے گئے تھے جو اپنی ڈگریاں مکمل کر لینے کے بعد دوسال تک فارغ رہے۔
میں نے ان سے سوال کیا کہ ان دو سال میں انہوں نے کیا کیا؟ تو نناوے فیصد لوگوں نے جواب دیا کہ ہم فارغ رہے اور اس کا انتظار کرتے رہے کہ ہمیں نوکری ملے گی اور وقت کو ضائع کیا۔ اس پر میں نے ان کو جواب دیا کہ اگر بس میں سیٹ نہیں ملی تو کھڑے ہو کر سفر کر لیتے یا لٹک کر بھی سفر طے کیا جا سکتا تھا۔ جب آپ نے اپنی منزل کی طرف جانا ہی ہے تو چاہے سیٹ ملے یا نہ ملے آپ آگے بڑھنا شروع کر دیتے۔ کچھ سیکھ لیتے یا کسی کے اسسٹنٹ بن جاتے۔ کوئی ایسا پروجیکٹ پکڑ لیتے جو آپ کے معیار کا نہ ہوتا لیکن اس میں کچھ سیکھنے کو مل جاتا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عمارت کی بلندی کو دیکھ سکتے ہیں لیکن ہم عمارت کی بنیاد کو نہیں دیکھتے۔ اگر ہم عمارت کی بنیاد کو دیکھیں تو وہ بھی اتنی ہی گہری ہوتی ہے جس قدر کہ بلندی کی اونچائی۔ تو وہ لوگ جنہوں نے وقت لگایا محنت کی اور وقت پر چیزوں کو تیار کیا بعد کی زندگی میں ان کو کہیں نہ کہیں اس کا فائدہ ضرور مل جاتا ہے۔
ٹائم مینجمنٹ کے راستے کی رکاوٹیں بہت سی ہیں مثال کے طور پر سوسائٹی کی ویلیوزہے کہ لیٹ ہو جانے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ کیا ہو گیا اگر ہم لیٹ ہو گئے اس سے کچھ فرق پڑتا ہے۔ شادی کے فنکشنوں میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لیٹ ہونا معمول بن چکا ہے۔ یہ تو گورنمنٹ کی مہربانی ہے کہ اس نے وقت پر پابند کیا۔
سب سے پہلے ہمیں اس چیز کا ادراک حاصل کرنا ہے کہ ہمارا وقت مینیج ہو کیوں نہیں رہا؟ مس مینجمنٹ کی وجوہات کیا ہیں؟ تو یہ ممکن ہے کہ آپ کو پتہ لگے کہ آپ کے اردگرد ایسے فیکٹرز ہیں جو آپ کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ یا یہ ممکن ہے آپ نے ایسے سٹینڈرذ بنائے ہوئے ہیں جو آپ کی وقت کے ضائع ہونے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ آپ کے کچھ اعتقاد یعنی یقین بنائے ہوئے ہوں جس کی وجہ سے آپ کا وقت مینج نہیں ہو رہا۔
اعتقاد یا یقین شعوری اور لا شعوری طور دونوں طرح سے ہوتے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹائم ایک ایسی چیز ہے جو منیج نہیں ہو سکتا یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ ایک ایسا شخص جو اس چیز پر یقین نہیں رکھتا کہ وقت کو مینج کرنا ممکن ہے وہ ان ٹول کٹس یا آئیڈیاز کو جو ہم آج دیں گے اس کے جواب میں یہ کہے گا کہ یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ لیکن پرسنلی میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ میں نے اپنے پچھلے آٹھ دس سالوں میں برین کو استعمال کر کے دیکھاہے ۔ میں نے اپنے رول ماڈلز مختلف رکھے ہیں۔ ایک صاحب تھے جن کا نام قاسم محمود ہے اور ہم نے ان کے انسائیکلو پیڈیاز بہت پڑھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے لٹریچر پر بہت کام کیا اور بہت سی کتابیں لکھیں۔ ان کے آخری ایام کے زمانے میں ایوان اقبال میں ان کی ایک نمائش منعقد کی گئی جہاں پر ان کی بہت سی کتابیں رکھی گئیں۔ بہت سی میزوں پر ان کی کتابیں پڑی ہوئی تھیں۔ پوری ایوان اقبال کی بیسمنٹ ان میزوں سے بھری ہوئی تھی جن پر ان کی کتابیں پڑی ہوئی تھیں۔ میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ ایک فرد ہیں اور آپ نے ایک ادارے جتنا کام کیسے کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا صرف اور صرف میں نے وقت کو صحیح استعمال کیا ہے۔ تو میں ان کے جواب پر اس نتیجہ پرپہنچا کہ انہوں نے اپنی ایک زندگی میں زندگی سے بڑا کام کر دیا ہے۔ آپ ایدھی صاحب کو دیکھیں کہ وقت کے درست استعمال سے انہوں نے اپنی زندگی سے زیادہ کام کر دیا۔ قائد اعظم صاحب کو دیکھیں کہ ایک زندگی میں انہوں نے کئی زندگیوں کا کام کر دیا ہے۔ جن لوگوں کے پاس وقت کی قدر ہوتی ہے وہ بہت سا کام کر رہے ہوتے ہیں اور ورسٹائل بھی ہوتے ہیں اور کتنا کچھ کام بیک وقت کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنی کتنی مصروفیات کے باوجود بھی بہت سے پروگرام کر رہے ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ ٹائم مینجمنٹ میں رکاوٹیں کہاں کہاں پر ہیں۔ کیا یہ بیرونی عناصر ہیں جو ہماری زندگی میں وقت کو مینج نہیں ہونے دے رہے یا یہ اندرونی عناصر ہیں جو ہمارے اندر موجود ہیں جو وقت کو مینج نہیں ہونے دے رہے۔