پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے ہمارے جو خونی رشتےبنائے ہیں وہ ہمیں چھوڑنے نہیں ہوتے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع تعلقی کو سخت نا پسند فرمایا ہے۔ چونکہ ہماری زندگی میں بہت سے لوگ آتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں ان میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمیں اچھے لگ رہے ہوتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے بعد وہ برے ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ برے ہوتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ اچھے ہو جاتے ہیں۔
تعلقات کی سائنس یہ ہوتی ہے کہ قدرت نے ہمارا ان کے ساتھ ایک وقت لکھا ہوتا ہے جو ہم نے ان کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے۔ اس سے ہم بھاگ نہیں سکتے۔ وہ وقت جو ہم نے ان کے ساتھ گزارا ہے اس کی وجہ ہمیں پتہ نہیں ہوتی کہ ایسا کیوں ہوا۔ ہر ایک سے ہم نے پیسہ یا علم نہیں لینا ہوتا لیکن ان سے کوئی نہ کوئی چیز ہماری جڑی ہوئی ہوتی ہے وہ ہم نے ان سے لینی ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہماری سمجھ بوجھ ان لوگوں کی وجہ سے پوری ہونی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے ہماری سوچ کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
آج بھی کوئی بندہ پیچھے زندگی کو مڑ کر دیکھے تو کسی دشمن کے بارے میں یہی تاثر قائم ہو گا کہ اگر وہ نہ ہوتا تو شاید مجھے یہ سیکھنے کا موقع نہ ملتا۔ آج میں جہاں پہنچا ہوں اسی شخص کی مخالفت کی وجہ سے پہنچا ہوں۔ جب وقت ختم ہوتا ہے تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ میرا اس کے ساتھ وقت ختم ہو گیا ہے۔ وقت کے ختم ہونے پر چپ کر کے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ میرے مطابق ریلیشن کا اختتام لڑائی نہیں ہونی چاہیے یہ زیادتی ہے۔ کیونکہ آپ نے کسی کو ٹشو پیپر سمجھ لیا اور اس کو استعمال کیا اور پھینک دیا۔ ریلیشن کا اختتام اچھا ہونا چاہیے ، بے شک آپ اس کے بعد اس متعلقہ شخص سے نہ ملیں لیکن پھر بھی اختتام بہتر ہونا چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ پتہ کبھی دوبارہ واسطہ پڑ جائے۔
دانش ور لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی کمرے کو بند کر دیا جائے پھر بھی اس میں ایک کھڑکی کھلی رکھیں تا کہ اس سے تازہ ہوا اندر آ سکے۔ اسی طرح جس کے ساتھ ری لیشن ختم کرنے ہیں اس میں بھی ایک دروازہ چھوڑ دیا جائے کہ کبھی زندگی میں دوبارہ اس کی ضرورت پڑے تو انسان اس دروازے سے اندر آ سکے۔اس کا آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ کتنا فائدہ ہوسکتاہے۔ بعض اوقات پوری پوری نسل ایک طرح سے تیار ہو جاتی ہے یا ری بلڈ ہو جاتی ہے اگر آپ نے ایک دروازہ چھوڑ دیا ہے۔ ہاں ایک بات ہے کہ اگر کوئی کریمنلٹی پر اتر آئے تو پھر اس صورت میں آپ تمام دروازے بند کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں چپ کر کے علیحدہ ہو جانا چاہیے اور گلہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔
میرا ایک دوست ہے جو ایف ایس سی کے زمانے سے میرا دوست ہے۔ اگر میں اسے ساتھ وقت گزاروں تو میرے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ میں اس دوست سے ایک ایک دو دو سال نہیں ملتا لیکن جب بھی ملتا ہوں ایک دو منٹ کے لئے رک کر بات کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ بات ہے کہ ہماری لڑائی نہیں ہے۔ اگر ہماری سمجھ بوجھ کی وجہ سے ہماری زندگی کی لائنز بدل گئی ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہم اب لڑنے لگ پڑیں۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم رشتے یا ریلیشن کا اختتام لڑائی چاہتے ہیں۔ ہمیں ریلیشنز کا اختتام لڑائی پر نہیں کرنا چاہیے بلکہ چپ کر کے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ آپ کو ایک دروازہ کھلا رکھنا چاہیے جس سے آپ بھی جا سکیں اور دوسرا بھی آ سکے۔ وقت کا پتہ نہیں ہوتا کہ ایک بندہ آپ کے لئے دوبارہ کتنا بڑا پیغام یا میسج یا کوئی بہت ہی فائدہ مند چیز یا ایک نعمت لے کر آ جائے جس کی آپ کو خبر ہی نہ ہو۔