آئیے اس پس منظر میں مغربی قوانین جنگ پر ایک سرسری نظر ڈالیں۔ اور یہ معلوم کریں کہ ان قوانین نے کہاں تک انسان کی خدمت کی ہے۔؟
سترہویں صدی کی ابتداء تک یورپ میں قوانین جنگ کا کوئی تصور موجودنہیں تھا۔ محارببن کو ایک دوسرے کی مضرت رسانی کا غیر محدود اورغیر مشروط حق حاصل تھا۔ مشہور مقنن’’گرویٹس‘‘ کے قول کے مطابق’’قانون میں ان تمام لوگوں کوقتل کردینا جائز ہے جو دشمن کی حدود میں پائے جائیں۔ ان میں عورتوں اور بچوں کا کوئی استثناء نہیں ہے اور نہ وہ اجنبی باشندے مستثنیٰ ہیں جو ایک معقول مدت کے اندر دشمن کے علاقہ کو نہ چھوڑدیں‘‘۔
پہلی مرتبہ جنگ سی سالہ کے خاتمہ پر1648ء میں صلح نامہ ویسٹ فالیہ کی ترتیب کے وقت’’گرویٹس‘‘ کی اس تجویز کا لحاظ رکھا گیا جنگ میں بطور ایک شریفانہ رعایت کے بچوں، بوڑھوں، عورتوں، پادریوں، کاشتکاروں، تاجروں اور اسیران جنگ کوقتل وغارت سے محفوظ رکھنا چاہیے۔‘‘‘لیکن یورپی قانون بین الممالک میں جنگ کے متعلق کوئی واضح اصول1899ء کی ہیگ کانفرنس سے پہلے نظر نہیں آتا………اس کانفرنس میں جنگ کے مختلف شعبوں کے متعلق کچھ سمجھوتے اور اقرار نامے مرتب کیے گئے تھے۔ لیکن کام کی تکمیل نہیں ہوسکتی تھی۔اس لیے1907ء میں اس کا دوبارہ اجلاس ہوا۔ اور پہلی مرتبہ ایک مکمل قانون جنگ مرتب کیا گیا جس کا نچوڑ یہ ہے۔
1۔اعلان جنگ
1700ء سے1872ء تک یورپ میں ایک سوبیس لڑائیاں ہوئیں جن میں سے صرف دس لڑائیوں میں رسمی اعلان جنگ کیا گیا تھا پہلی مرتبہ اس ہیگ کنونشن کے فقرہ اول میں یہ پابندی عائد کی گئی کہ بغیر اعلان کے جنگ نہ کی جائے۔ اور فقرہ دوم میں غیر جانبدار ممالک کو آگاہ کردینے کا لزوم بھی رکھا گیا ہے… پہلی جنگ عظیم میں ہر محارب فریق نے کسی نہ کسی صورت میں اعلان جنگ کیا تھا اور لڑائی شروع کرنے کے لئے وقت اور تاریخ کا بھی تعین کردیا تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے بغیر کسی اعلان جنگ کے پہلی ستمبر1939ء کو پولینڈ پر حملہ کردیا اور اس کے بعد اسی طرح ڈنمارک، ناروے، لکسمبرگ، بلجیم، ہالینڈ یوگوسلاویہ اور روس پر چڑھائی کردی۔اس کے برعکس برطانیہ اور فرانس نے ہیگ کنونشن کے احکام کی پوری طرح تعمیل کی۔ برطانیہ نے 3ستمبر کو گیارہ بجے صبح اور فرانس نے پانچ بجے شام کا وقت لڑائی کے آغاز کے لئے مقرر کیا ۔ اسی طرح1940ء میں اٹلی نے جب برطانیہ اورفرانس سے جنگ کرنی چاہی تو اس نے 11جون کو بارہ بجے کا وقت مقرر کیا…لیکن بزدل بھارت جو دنیا کادوسرا بڑا ملک ہے اس اخلاقی بلندی سے بے نیاز ہے، اس نے 6ستمبر1965ء کی صبح بغیر کسی اعلان جنگ کے پاکستان پر بھرپور حملہ کردیا تھا۔
2۔اہل قتال اور غیر اہل قتال
غیر محارب اور مقاتل میں فرق کیا گیا۔ مقاتل کے نظر آتے ہی گولی ماردی جاسکتی ہے اور اگر وہ زندہ گرفتار ہوجائے تو بحیثیت جنگی قیدی کے رکھے جانے کا مستحق ہے۔ اس تعریف میں بری، بحری اور ہوائی افواج کے سپاہی، تجارتی بیڑوں کے عہدیدار اور ملاح بھی شامل ہیں۔ اس میں غیر مفتوح ممالک کے ایسے باشندے بھی شامل ہیں جوکہ حملہ آوروں کے خلاف ہتھیارلے کر کھڑے ہوجائیں۔ بشرطیکہ وہ کھلم کھلا ہتھیاررکھتے ہوں۔ قوانین جنگ کی پابندی کرتے ہوں اوریونیفارم استعمال کرتے ہوں اور کسی سالار کی کمان میں لڑرہے ہوں۔
غیر محارب وہ ہیں جو لڑائی میں حصہ نہ لیتے ہوں اور کسی فوج سے کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں۔ دشمن کے غیر فوجی افراد کو جو ملک میں موجود ہوں، یا تو نظر بند کیا جاتا ہے یا ملک سے خارج کیا جاتا ہے۔مقبوضہ یا ایسے علاقہ میں جہاں کہ لڑائی جاری ہو غیر محارب کو اس وقت تک کوئی مضرت نہیں پہنچائی جاسکتی جب تک کہ اس کی سخت ضرورت نہ ہو۔ گوریلوں اور ایسے تجارتی جہازوں کے عہدیداروں کو جو دوسرے جہازوں پر حملے کرتے ہوں مراعات حاصل نہیں ہوسکتیں۔جاسوس بھی ان حقوق سے محروم ہیں۔ انہیں سزائے موت دی جاتی ہے۔
3۔جنگ
قواعد جنگ کی تدوین کی گئی اورجنگ کی وحشت کو گھٹانے کی سعی کی گئی۔ جان ومال کی غیر ضروری تباہی ، زہریلی اور پھٹنے والی گولیوں کے استعمال، قتل عام اور غیر محفوظ شہروں کی بمباری کی ممانعت کی گئی۔ اور اس امر پر زوردیا گیا کہ دشمن کی درخواست پر اسے امن دیا جانا چاہیے۔ اس بات کی بھی ہدایت کی گئی کہ بیماروں اور زخمیوں کا معقول انتظام کیا جائے۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا جائے۔ اور غیر فوجی آبادیوں پرحملہ سے حتی الامکان گریز کیاجائے۔ ہسپتالوں،کلیسائوں، تعلیم گاہوں، مدرسوں اورنمائش گاہوں وغیرہ کو جوکہ جنگی مقاصد کے لئے استعمال نہ کیے جارہے ہوں کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔
4۔جائیداد
دشمن حکومت کی غیرمنقولہ جائیداد کو دوران جنگ میں استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اسے ضبط نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی منقولہ جائیداد جس کا تعلق فنون لطیفہ سائنس اور علوم سے نہ ہو ضبط کی جاسکتی ہے ۔ دشمن ملک کے باشندوں کی خانگی جائیداد پہلے سے ضبط کی جاسکتی تھی لیکن ہیگ کانفرنس میں اس اصول میں ترمیم کی گئی۔ ایسی جائیداد اگر اپنے ملک میں موجود ہوتو حکومت مقامی اس پر نگرانی قائم کرسکتی ہے تاکہ اس کا استعمال دشمن کے مقاصد کے لئے نہ ہوسکے۔مقبوضہ علاقہ میں یہ جائیداد بغیر معاوضہ اداکرنے کے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر جنگ کی اغراض کے لئے ضرورت ہو۔ تو اس جائیداد کو بغیر معاوضہ کے تباہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ بدامنی کی صورت میں مقبوضہ علاقے کے باشندوں پر جرمانہ اور اقتصادی ضروریات کے لئے ٹیکس بھی عائد کیا جاسکتا ہے…دشمن حکومت کی بحری جائیداد عام طور پر ضبط کی جاسکتی ہے۔ لیکن خانگی جائیداد کی ضبطی مشروط ہے۔
5۔غیر جانبداری
انیسویں صدی تک مغرب غیر جانبداری کے اصول سے زیادہ آشنا نہیں تھا۔ درحقیقت یہ تصور بہت آہستہ آہستہ ابھرا ہے۔ امریکہ کی جنگوں تک غیر جانبدار ممالک کے لئے جائز تھا کہ وہ اپنی فوجیں محاربین کو کرایہ پر دیں۔ گرویٹس اس سواج کے خلاف تھا لیکن اس کے نظریہ کو عرصہ تک کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ پہلی مرتبہ1794ء میں امریکن کانگرس نے اعلان کیا کہ امریکہ کے باشندے ایسے محاربین کے خلاف جنگ خدمت انجام نہیں دے سکتے جن سے حکومت امریکہ بر سر جنگ نہ ہو۔ اس اصول کو بتدریج ترقی ہوتی گئی۔ اور 1818ء میں امریکہ نے ایک واضح قانون غیر جانبداری مرتب کرلیا۔ برطانیہ نے اس کی تقلید کی اورپھر سارے یورپ نے رفتہ رفتہ ایسے قوانین وضع کرلئے… لیکن غیر جانبداری کا بین الممالک قانون1907ء کی ہیگ کانفرس ہی میں منظور ہوا۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ غیر جانبدار سلطنت کی حدود واجب الاحترام ہیں اور ان پرتجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی سلطنتوں کی حدود میں کوئی حربی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ نہ ان میں سے فوجیں گزاری جاسکتی ہیں۔ نہ جنگی تیاریوں کے لئے بطور قاعدہ انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور ان میں گھس کر دشمن کا تعاقب کیا جاسکتا ہے۔ غیر جانبدار ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ محارب فریقین کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھیں اور کسی کو اسلحہ یا مالی امداد نہ دیں لیکن پہلی ہی جنگ عظیم میں اس اصول کی خلاف ورزی کی گئی اور دوسری جنگ عظیم میں غیر جانبداری محض ایک حیلہ بن گئی۔ ہر ملک کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی محارب گروہ کے ساتھ ہوگیا۔ اور ایک نئی اصطلاح’’محارب غیر جانبداری‘‘ معرض وجود میں آگئی جس کی رو سے کوئی ملک کسی فریق کی طرف سے عملاً میدان جنگ میں اگرچہ یہ کہ نہیں آتا تھا تاہم ہر قسم کی سہولت اسے فراہم کرتا تھا۔
منشور اقوام متحدہ
دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیاں جاری تھیں۔ قوموں کے حقوق چھینے جارہے تھے۔ آبادیاں فنا کے گھاٹ اتر رہی تھیں۔ حکومتیں متزلزل ہورہی تھیں۔ اور سطح ارض پر انسانی خون کو پانی سے زیادہ ارزاں کردیا گیا تھا۔ اس لئے متاثرہ قوموں نے لیگ آف نیشنز کے کھنڈرات پر مجلس اقوام متحدہ کی تعمیر کا قصد کیا۔ اور اکتوبر1944ء میں اپنے منشور میں اعلان کیا کہ:۔
ہم باشندگان متحدہ اقوام اس عزم صمیم کا اظہار کرتے ہیںکہ آنے والی نوع انسانی کو جنگ وجدل کی ان تباہ کاریوں اور ہولناکیوں سے مامون کیا جائے جو ہماری اپنی زندگی کے دوران میں 2مرتبہ نسل انسانی پر آفت ڈھاچکی ہیں۔ اورناقابل بیان مصائب وآلام نازمل کرچکی ہیں۔
ہم بنیادی حقوق انسانی جسم انسانی کی قدر وقیمت مردہ عورت اور چھوٹی بڑی اقوام کے مساویانہ حقوق پر اپنے ایقان واذعان کی توثیق مزید کرتے ہیں۔
اس منشور کے چھٹے باب میں نزاعات کے پرامن تصنیفوں کی صورتیں پیش کی گئی ہیں۔ اور ساتویں باب کی دفعہ41میں حکم دیا گیا ہے کہ:
’’سلامتی کونسل طے کرے گی کہ اپنے فیصلوں کو نافذکرنے کے لئے مسلح افواج کے استعمال کے بغیر اور کیا تدابیر اختیار کرے اور وہ ارکان متحدہ اقوام کوان تدابیر کے اختیار کرنے کا حکم دے گی۔ ان میں معاشی تعلقات، بحری، ہوائی ،ڈاک، تار، ریڈیو اور دیگر مواصلاتی اورسیاسی تعلقات کا کلی یا جزوی انقطاع بھی شامل ہے۔‘‘
اورجارحانہ کارروائی کرنے والے کی گوشمالی کے لئے دفعہ42میں بتایا گیا ہے کہ :۔
’’اگر سلامتی کونسل کے نزدیک دفعہ کی مندرجات کافی نہ ہوں یا ناکافی ثابت ہوں تو وہ ہوائی، بحری اور بڑی افواج کے ذریعے بین الاقوامی امن وصیانت کی برقراری وبحالی کے لئے ضروری کارروائی کرسکتی ہے۔ اس کارروائی میں ارکان متحدہ اقوام کی طرف سے مظاہرے، ناکہ بندی در ہوائی بحری اور بری افواج کی دیگر کارروائیاں داخل ہیں۔‘‘
منشور اوقیانوس
بتاریخ14اگست1941ء سلطنت متحدہ امریکہ کے صدر اور حکومت برطانیہ کے وزیراعظم نے ایک مشترکہ اعلان جاری کیا جس کے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں۔
ان کی حکومتیں علاقہ داری یا دیگر نوع کے استحصال کی جویا نہیں ہیں۔
ایسی علاقہ داری تبدیلیوں کو بھی وہ نہیں چاہتے جو متعلقہ اقوام کی آزادانہ طور پر ظاہر کی ہوئی خواہشات کے مطابق نہ ہوں۔
وہ تمام اقوام کے اس حق کا احترام کرتے ہیں کہ وہ کسی قسم کی حکومت کے تحت زندگی بسر کر نا چاہتے ہیں۔ اور ان کی آروز ہے کہ ان اقوام کو اقتدار اعلیٰ اور حکومت خود اختیاری واپس ملے جن سے وہ زبردستی محروم کردی گئی ہیں۔‘‘
ان کا عقیدہ ہے کہ حقیقت پسندانہ اور روحانی اسباب کی بنا پر دنیا کی تما م اقوام کو طاقت کا استعمال تر ک کردینا چاہیے۔
اعلان حقوق انسانی
منشور اقوام متحدہ کی دفعہ55ضمن(ج) میں بتایا گیا ہے کہ مجلس اقوام متحدہ امور ذیل کے لئے کوشش کرے گی۔
’’بلاامتیاز نسل،نوع، زبان یا مذہب تمام لوگوں کے لئے انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کا عام احترام ‘‘۔
اس غرض کے لئے حقوق انسانی کی تدوین کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا گیا۔ جس نے دیگر امور کے علاوہ قتل عام کی ممانعت کی بھی سفارش کی ۔ اس کمیشن کی رپورٹ کو دسمبر1948ء میں جنرل اسمبلی نے منظورکیا۔
دوسری جنگ عظیم
1941ء اور1945ء کے درمیان دنیا میں جو وحشت انگیز واقعات رونما ہوئے وہ ہیوگوگرویٹس کے لئے بھی حیرت کا باعث ہوں گے جس نے مذہبی جنگوں کی تباہ کاری ، خونریزی اور بربریت کا مشاہدہ کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں غیر محاربین اور جنگی قیدیوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ یا کام کی زیادتی اور زہریلے اثرات کے تحت ماردیا گیا۔ اوران کے جسم سے کھاد، روغنیات اور صابن بنائے گئے۔ہزاروں طیاروں نے بے شمار شہر تباہ کئے۔ اور لاکھوں انسان زندہ دفن کردئے گئے۔ فوجی اور غیر فوجی آبادیوں میں کوئی امتیاز باقی نہیں رکھا گیا۔ امریکہ کی آبدوزکشتیوں نے انیس سوچالیس جاپانی تجارتی جہاز غرق کئے۔ محوری ممالک نے امریکہ اور متحدین کے چار ہزار سات سو ستر جہاز ڈبودئیے۔ جن کا مجموعی وزن 21140ٹن تھا…… غیر جانبداری کے حقوق کی ہرطرف مخالفت کی گئی اور پھر ایٹم بم کے ذریعے ہیروشیما اور ناگاساکی بربادی ہوئی اور اعلان کیا گیا کہ یہ طریقے زندگی اورتہذیب کے تحفظ’’جنگ کے اختصار‘‘ اور فتح کے حصول کے لئے ضروری ہیں…!
دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے دنیا کے ہوش اڑ گئے۔ اور اس کے بعد بڑی قوموں نے انسانیت پر ایسے مظالم ڈھائے کہ اعلان حقوق انسانی منشور اقوام متحدہ اور منشور اوقیانوس پر دنیا کا اعتماد باقی نہیں رہا۔ متحدین نے کوریا میں قوانین جنگ کی جو بے حرمتی کی ہے اسے آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کرسکیں گی۔ وہاں غیر فوجی کو بلاامتیاز ہلاک کیا گیا۔ خوفناک بمباری،زہریلی گیس اور ممنوعہ اسلحہ کے بہیمانہ استعمال سے خدا کی اس زمین پر قیامت بپا کی گئی۔
اوردوسری طرف شمالی افریقہ میں استعماریت کے تحفظ اورچھوٹی چھوٹی قوموں کی غلامی کی بقاء کے لئے انسان نما درندوں کو حریت پسندوں کی آبادیوں میں اس طرح آز اد چھوڑ دیا گیا کہ ہلاکو اورچنگیز کی روحیں بھی ’’الامان‘‘ اور ’’الحفیظ‘‘ پکار رہی ہوں گی۔
ان حالات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ تیسری جنگ عظیم میں بڑے بڑے شہر راکھ کے ڈھیر ہوجائیں گے۔ اورکروڑوں مرد، عورتیں اور بچے معمولی ہلاک ہوجائیں گے آج انسانیت دوسست مصلحین تحدید اسلحہ پر زور دے رہے ہیں۔ اور خطرناک ہتھیاروں کے استعمال کو ناجائز قرار دینا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی اس خواہش کی تکمیل مشکل معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہماری دنیا متعدد مقتدر اعلیٰ مملکتوں پر مشتمل ہے اوران مملکتوں میں محض معاہدات کے ذریعے امن کا قائم کیا جانا دشوارہے۔
بڑی قومیں اپنے مفاد کے لئے ساری دنیا کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں لینے کی جدوجہد کررہی ہیں۔ چھوٹی قومیں باہمی اعتماد سے محروم ہوگئی ہیں۔ اسلحہ سازی کی دوڑ تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ مادہ اندر ہی اندر پکتا جارہا ہے اور اس وقت اور اس مقام کا تعین مشکل معلوم ہوتا ہے جبکہ یہ کوہ آتش فشاں پھوٹ پڑے گا۔ اور اپنے جلتے ہوئے لادے کے سیلاب میں ساری متاع انسانی کو بہالے جائے گا۔
مغربی قوانین جنگ کی ناکامی
مغرب کے قوانین جنگ کی اکثر قوموں نے خلاف ورزی کی ہے اور وقتاً فوقتاً اپنے اپنے مقاصد کے لئے ان کی ہیت کو بدل دیا ہے یہی سبب ہے کہ یہ قوانین انسانیت کے تحفظ میں بڑی حد تک ناکام ہورہے ہیں اس ناکامی کی حسب ذیل وجوہ ہیں۔
1۔ ان قوانین نے کسی جنگ کے جواز یا عدم جواز پر کوئی توجہ نہیں کی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ کن صورتوں میں جنگ کی اجازت ہے اورکن میں اس کی ممانعت ہے یہی وجہ ہے کہ مغرب میں ہر جنگ جائز ہے خواہ وہ کسی نیکی کے لئے ہویا ملک گیری کے لئے یا توسیع تجارت، لوٹ اور غارت گری یا استعماریت کے استحکام کی خاطر کی جارہی ہو۔ اس کے برعکس اسلام نے جنگ کے اغراض ومقاصد کا تعین کیا ہے۔ اورجدال وقتال کی حدود قائم کردی ہیں جن کے باہر خونریزی بدترین گناہ اور ایک سنگین جرم ہے۔
2۔ان قوانین پر ’’قانون‘‘ کی تعریف صادق ہی نہیں آتی۔ کیونکہ ان میں وہ پائیداری نہیں ہے جو کسی قانون کے لئے ضروری ہوتی ہے ان میں بڑی قومیں ردوبدل کرتی اور انہیں اپنی اغراض کے مطابق ڈھالتی رہتی ہے۔ بالفاظ دیگر قوموں کا عمل قانون کے مطابق نہیں ہوتا۔بلکہ خود ہی ان کے عمل کے ساتھ ترمیم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی قانون ایک مضبوط اور مستحکم قانون ہے جسے خداے ذوالجلال نے مدون فرمایا ہے اور جس کے اصولوں میں کسی انسان کو سرمو فرق پیدا کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہ قانون دنیا کی تمام قوموں کے لیے یکساں طورپر مفید اور منفعت بخش ثابت ہوسکتا ہے۔
3۔ان قوانین کا انحصار لڑنے والی قوموں کی باہمی مفاہمت پر ہے۔ جو قومیں آپس میں طے کرتی ہے کہ جنگ کی صورت میں ان قوانین پر عمل کیا جائے گا صرف وہی ان کی پابند ہوتی ہے۔ اوروہی ان سے استفادے کا دعوی کرسکتی ہیں۔ نیزکوئی فریق ان کی خلاف ورزی کر بیٹھے تو دوسرے فریق کو اس بات کا مکمل اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ اس مفاہمت کو نذر آتش کرکے من مانی کارروائیاں شروع کردے! لیکن اسلامی قانون اخلاق اور فرض کے احساس پر قائم ہے جس کی پابندی ہر صورت اور ہر حال میں مسلمانوں پر واجب ہے ۔ دشمن کی زیادتی بہیمیت، وحشت اور بربریت کے باوجود مسلمان ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتے جوکہ اسلام نے ان کے لئے مقرر کردی ہیں۔
یہی وجوہ ہیں جن کی بدولت اسلامی قانون جنگ کی برتری ثابت ہوگئی ہے اور جن کے مدنظر برناڈر شا نے بیانگ دبل کہا ہے کہ آج نوع انسانی کو ایک محمدؐ کی سیادت نصیت ہوتی تو خوف ہراس اورخونریزی واستحصال کا دنیا سے خاتمہ ہوجاتا۔ اور سارا عالم امن اورچین کی زندگی بسر کرسکتا ۔!
صدقت یا رسول اللہ
اغیار کا تعصب
عام طور پر یورپ اورامریکہ کے باشندے غزوات نبویؐ کو تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں اور انہیں خوفناک پیرایہ میں بیان کرتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ جنگیں وحشت وبربریت کا ایک طویل سلسلہ ہیں جہاں انسانی خون کی ارزانی ہے جہاں بے پردہ لونڈیوں کی قطاریں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ اور لوٹے ہوئے خزانوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ جن کو مجاہدین اپنے دامن حرض وآزمیں سمیٹ لیتے ہیں… یورپ کی قدیم تاریخ سے اگر چہ ان الزامات کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ اور صلیبی جنگوں کی دیوانگی سے ان معترضین کو خاموش کیا جاسکتا ہے۔تاہم عہد حاضر میں مغربی تمدن کی خو ن آشامی کی وجوہ بھی ان سے پوچھی جاسکتی ہیں۔
قدیم وحشیوں کی طرح تہذیب حاضر کے ان جدید وحشیوں کی قدریں بھی پست ہیں۔ ان کے سامنے بھی کوئی بلند نصب العین نہیں ہے انسانیت کا کوئی قابل احترام معیار ان کے پیش نظر نہیںہے۔ وہی دولت کی محبت، اقتدار کی خواہش اورلوٹ اور غارت گری کا لالچ جو ہزاروں سال پہلے کسی قبیلہ کو جنگ پر ابھارسکتا تھا ، آج بھی تہذیب مغربی کے فرزندوں کو شدید خونریزی، زہریلی گیس کی نقصان رسانی ایٹم بم کی تباہ کاری اور ہائیڈروجن بم کی ہلاکت خیزی پر آمادہ کرتی ہے۔
انسانیت کے یہ دعویدار ہیروشیما کی طرف ذرا دیکھیں منشور اوقیانوس اور اعلان حقوق انسانی کے علمبردار ناگاساکی کی بربادیوں کی طرف ذرا رخ کریں اپنی تہذیب وتمدن کی برکتو ںکو مراکش اورکوریا کی آبادیوں میں تلاش کریں جہاں آج بھی انسانی خون کے جمے ہوئے ٹکڑے موجود ہیں وہ اپنی رحمتوں کو الجیریا ،افغانستان ،عراق ،لیبیااورویٹ نام میں دیکھیں جہاں کے دریا آج بھی انسانی خون سے رنگین ہیں آج بھی جلتی ہوئی آبادیوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادل آسمانوں پرچھائے ہوئے ہیں۔ یتیموں کی آہ وبکار سے آج بھی فضائیں معمور ہیں بیوائوں کی آہیں آج بھی عرش اعظم سے ٹکرارہی ہیں اور…… ان نعشوں کا شمار کون کرے جو ان ملکوں کے چپہ چپہ میں بیگوروکفن پڑی ہوئی ہیں۔ عہد حاضر میں جبکہ خدا کی اس زمین پر خون کے طوفان امڈ رہے ہیں۔ موت کی آندھیاں چل رہی ہیں،انسانیت خونیں سمندر کی لہروں میں ڈوبتی جاری ہے، امن واطمینان کو ایٹمی توپوں کا دہن آزنگل رہا ہے۔ اور صلح وآشتی کا حسین چہرہ زخموں سے چور چور ریزہ ریزہ پاش پاش ہوتا جارہا ہے عہد نبویؐ کی جنگوں پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ رسولؐ عربی ایک چھوٹی سی شہری مملکت سے اپنی حکومت کا آغاز کرتے ہیں۔ روزانہ دوسو چوہتر مربع میل کے حساب سے یہ مملکت وسعت اختیار کرتی ہے۔ اور دس سال بعد جب آپؐ کا وصال ہوتا ہے تو دس لاکھ مربع میل سے زائد رقبہ زیر اقتدار آچکتا ہے۔ لیکن ایسے وسیع علاقہ کی فتح میں دشمن کے بمشکل ڈیڑھ سو آدمی قتل ہوتے ہیں اور مسلمان فوج کا اس دس سال میں اوسطًاماہانہ ایک سپاہی شہید ہوتا ہے۔ انسانیت کی یہ عزت تاریخ تمدن میں اپنا جو اب آپ ہے۔ نوع انسانی کی یہ حفاظت تاریخ عالم میں بلاشبہ بے نظیر ہے۔ اورانسانی خون کی یہ حرمت تاریخ جنگ میں بلا خوف تردید بے مثال ہے!