اس وقت کشمیر دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ خصوصاً ہندوستان اور پاکستان کے میڈیا پر کشمیر ہاٹ ایشو ہے۔ اس کی وَجہ گزشتہ دنوں انڈین پارلیمنٹ کی طرف سے ہندوستان کے آئین میں درج کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35(A)کی منسوخی اور کشمیر کو دوسرے صوبوں کی طرح ہندوستان کا ایک صوبہ قرار دینا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا پسِ منظر یہ ہے کہ مہاراج ہری سنگھ اور وی پی مینن کے درمیان بات چیت کے نتیجے میں انڈین دستور میں آرٹیکل 370 کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت یہ طے کیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں یہ ایک عارضی انتظام ہے (Temporary Provisions with respect to the State of Jammu & Kashmir) ، جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی، دفاع اور مواصلات کے علاوہ اپنا الگ دستور، جھنڈا بنانے اور داخلی خود مختاری برقرار رکھے گی اور ریاستی اسمبلی کی منظوری کے بغیر انڈین یونین ریاستی دستور میں مداخلت نہیں کرے گی۔ جب کہ 14؍ مئی 1954ء کو صدارتی فرمان کے ذریعے آرٹیکل 35(A) کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی قانونی اسمبلی کو یہ حق دیا گیا کہ وہ کشمیری شہریت دینے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی اور کوئی انڈین شہری جس کے پاس کشمیر کی شہریت نہیں ہوگی، وہ ریاست جموں و کشمیر میں جائیداد کی خرید و فروخت نہیں کرسکے گا۔ اسے ووٹ دینے اور الیکشن لڑنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ہائر ایجوکیشن اور ہیلتھ کیئر سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
دونوں طرف کے سیاسی حریف مسئلۂ کشمیر پر اپنی اپنی پسند کا خاکہ بناکر اپنے اپنے عوام کے جذبات اُبھار رہے ہیں۔ گزشتہ پون صدی سے یہی فضا قائم ہے۔ ہمارے ہاں ان حساس موضوعات پر مطالعے کے آزادانہ ذرائع ہمیشہ عوام کی دسترس سے دور اور اہلِ جستجو کے لیے ناپید رہے ہیں۔ کسی بھی مسئلے میں جب تک تصویر کے دونوں رُخ نہ دیکھے جائیں تو منظر واضح نہیں ہوتا اور کسی حالیہ منظر کو دیکھنے کے لیے اس کا پسِ منظر دیکھنا بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر گزشتہ ایک صدی میں مختلف پہلوؤں سے لکھا جانے والا لٹریچر بہت ہی اہم ہے اور اس مسئلے کے تمام کرداروں؛ ڈوگرہ راج، انگریز، نیشنل کانفرنس، مسلم کانفرنس، انڈین نیشنل کانگریس، مسلم لیگ اور اقوامِ متحدہ کے ترجمانوں کی تحریریں ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں، لیکن پاکستان میں ایک خاص فضا نے تحقیق وریسرچ کے دائرے کو بھی اپنے حصار میں لے رکھا ہے، جس کی وَجہ سے عموماً لوگ کھلے اور آزاد ذہن سے سوچنے کے عادی نہیں رہے۔ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد استعمار نے جن خطوں سے قومی تحریکاتِ آزادی یا بین الاقوامی حالات کے جبر کی وَجہ سے ان خطوں سے انخلا کیا، تو وہاں کی جغرافیائی نوعیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے استعمار نے اپنی مستقبل کی حکمت ِعملی کے لیے خطے کی اقوام کے علیٰ الرغم اقدامات کیے۔ کہیں خطے کو تقسیم کرکے نئے ملک بنائے، کہیں سرحدوں کو متنازع بنایا اور کہیں اپنی مستقبل کی حریف قوتوں سے نمٹنے کے لیے بہ ظاہر انخلا کے باوجود اپنا اثر و رسوخ باقی رکھا۔
ہندوستان سے انخلا کے وقت انگریزوں کی خواہش تھی کہ یہاں کی 562 ریاستوں کو وہ آزاد ممالک کے طور پر آزاد کرے اور یہ شان دار تاریخ رکھنے والا خطہ ہمیشہ آپس میں برسرِ پیکار رہے اور دوبارہ قوت بن کر نہ ابھر سکے۔ ان ریاستوں کے راجاؤں کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ اپنے نوابی اطوار و اختیارات چھن جانے کو اپنی موت سمجھتے تھے۔ لیکن اس ملک کی قومی آزادی کی سرخیل شخصیات نے انگریزوں کی اس چال کو ناکام بنا دیا اور ریاستوں کے لیے آئینی طور پر وجود میں آنے والے دو ملکوں پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کو ضروری قرار دیا (انگریزی عہد کی نوابی ریاستوں میں انسانی حقوق کی حالت ِزار اور انگریز بیوروکریسی کی حاشیہ برداری کی تفصیلات دیوان سنگھ مفتون کی معروف کتاب ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں)۔
پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے کئی مواقع ہماری لیڈرشپ نے اپنے جذباتی پن، حکمت سے گریز اورمعاملہ نافہمی سے گنوائے ہیں۔ ورنہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ فطری الحاق کو بہ قول شیخ عبد اللہ بہت سے ہند پارلیمنٹ کے ممبر بھی تسلیم کرتے تھے۔ شیخ عبداللہ لکھتے ہیں :’’ہند پارلیمنٹ کے ممبر اور ہندو مہا سبھا کے رُکنِ رکین این سی چیٹرجی نے اپنے ایک تازہ مضمون میں ذیل کے الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے:’’ریاست جموں و کشمیر کا جغرافیائی محلِ وقوع ایسا تھا کہ وہ ہر طرف سے تازہ پیدا شدہ سلطنت ِپاکستان کی حدود سے گھری ہوئی تھی۔ کشمیر کا بیرونی دنیا کے ساتھ واحد تعلق جہلم ویلی روڈ کے ذریعے تھا، جو بہ راستہ راولپنڈی‘ پاکستان سے ہوکر گزرتی تھی۔ ریلوے لائن کا واحد تعلق جو ریاست کشمیر کو بیرونی دنیا سے جوڑسکتا تھا، وہ پاکستان میں واقع شہر سیالکوٹ سے ہو کر گزرتا تھا۔ ریاست کے ڈاک خانہ جات اور سلسلۂ تار کا عمل دخل بھی ان علاقوں سے وابستہ تھا، جو یقینا سلطنت ِپاکستان کی حدود میں آچکے تھے۔ ریاست ِکشمیر میں درآمد ہونے والی ضروریات مثلاً نمک، خانڈ (چینی)، پیٹرول اورزندگی کی دوسری ضروریات ان ہی علاقوں سے ہو کر آتی تھیں، جو پاکستان کا حصہ بننے والے تھے۔ سیاحوں کی آمد و رفت جو کشمیر کے لیے آمدن اور مالیات کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اس کے حمل ونقل کا سلسلہ بھی بہ راستہ راولپنڈی تھا۔ اپنی پیداوار، خاص کر اس کے قیمتی میوہ جات کو ریاست سے باہر برآمد کرنے کے لیے کُل ایک راہ تھی اور وہ بھی جہلم ویلی کی سڑک اور کشمیر کے جنگلات سے برآمد ہونے والی عمارتی لکڑی ریاست کے باہر صرف دریائے جہلم کے ♫راستے سے ہی جاسکتی تھی، جو بہتا ہوا جا، پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔‘‘ (کشمیر، ہندوستان اور پاکستان، از شیخ عبداللہ، ص 3-4)لیکن علاقہ پونچھ کی طرف سے سرحد کے قبائلیوں کے حملے نے راجہ ہری سنگھ کو مدد کے لیے ہندوستان کے پاس جانے پر مجبور کردیا اور ہندوستان نے کہا کہ ہم اس وقت بین الاقوامی قانون کے تحت آپ کی مدد نہیں کرسکتے جب تک آپ کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہ ہو۔ یوں مشروط الحاق پر را جہ مجبور ہوگیا۔ اسی طرح اَور بھی بہت سے مواقع ہیں، جو ہماری قیادت نے کشمیر کی قومی قیادت کو توجہ نہ دے کر ضائع کردیے۔ اور ڈوگرہ راج کے خلاف منظم ہوتی ہوئی قومی جدوجہد ِآزادی کو مسلسل فرقہ وارانہ سیاست کی طرف دھکیلا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیری کئی حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ کشمیر پر مسلمان لیڈروں نے ہمیشہ جذبات کی ناؤ بنائی اور اس مسئلے پر تدبر سے کام نہ لیا۔ جہاد کے نام پر لڑنے مرنے کو اپنا شعار بنائے رکھا اور اسی لہجے میں عوام سے مخاطب ہوتے رہے۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک ماضی کے جھروکوں میں دیکھی جاسکتی ہے کہ مسلم کاز کے لیے اپنا سرمایۂ تقریر و تحریر لٹانے والے اس مسئلے پر کتنے تدبر کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ شیخ عبداللہ اپنی سرگشت میں لکھتے ہیں:
’’مسلم لیگ کا مشہور اجلاس لاہور جس میں قرار دادِ پاکستان منظور کی گئی، اس میں مَیں اجلاس کا مشاہدہ کرنے کے لیے شریک ہوا۔ اس میں حیدرآباد کے مشہور رہنما نواب بہادر یار جنگ گرج رہے تھے۔ مرحوم ایک زور دار اور شعلہ بار مقرر تھے۔ شستہ اردو میں بڑی فصیح و بلیغ تقریر کرتے تھے۔ کشمیریوں کی مظلومیت بیان کرتے ہوئے انھوں نے ریاست میں مکمل ذمہ دار نظامِ حکومت کا مطالبہ کیا۔ حیدرآباد (دکن) کے لیے اس مطالبے کو اس لیے خارج از بحث قرار دے دیا کہ وہ مسلمانوں نے بہ زورِ شمشیر حاصل کیا ہے اورشمشیر کی طاقت ہی سے اس کو اپنے پاس رکھیں گے۔ یہ دلیل اتنی بودی تھی کہ نواب صاحب کی اردو معلی بھی اس کے پھسپھسے پن کو نہ چھپا سکی اور میں دل برداشتہ ہوکر جلسے سے اٹھ کر چلا گیا۔ دوسرے دن دفتر (روزنامہ) ’’انقلاب‘‘ میں میری ملاقات مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک سے ہوئی۔ میں نے ان سے بہادر یار جنگ کی تقریر کا ذکر چھیڑا اور پوچھا کہ جو بات کشمیر کے عوام کے لیے جائز ہو سکتی ہے، اسے حیدرآباد کے عوام کے لیے کیوں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا؟ ریاست حیدر آباد میں مطلق العنان حکومت کے حق میں نواب صاحب نے جو دلیل پیش کی ہے، وہی دلیل کشمیر کا مہا را جہ یا اس کے ہم خیال کیوں نہیں دے سکتے؟ جب دلیل کا جواب استدلال سے نہ دیا جا سکے تو غصے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مہر صاحب اپنی متین طبیعت کے باوجود جھلائے اور بولے کہ: ’’ہم حیدرآباد کے لیے لاکھوں کشمیری قربان کر سکتے ہیں۔‘‘ میں مہر صاحب کا احترام کرتا تھا، اس لیے بڑی نرمی سے ’’بولا: آپ ضرور کشمیری عوام کو قربان کر لیں، لیکن کیا خود کشمیری عوام بھی اس کے لیے تیار ہوں گے؟ مہر صاحب سے جواب تو نہ بن پڑا، لیکن دونوں اصحاب کے چہرے پر ناگواری کے آثار ضرور آئے اور میں نے قطع کلام کرنے کو ہی مناسب خیال کیا۔‘‘ ( آتش چنار، سرگزشت شیخ عبداللہ، ص 256-257)
ہمارے لیڈروں نے ہمیشہ کشمیری عوام کو نظرانداز کیا اور وہ کشمیر کے عوام کے بجائے اپنی اَنا کا مقدمہ لڑتے رہے، جس سے عوام پسِ منظر میں چلے گئے اور دوقومی نظریے کی بنیاد پر تخلیق کیا گیا تصورِ حقوق و برتری اوپر آتا چلا گیا۔ حال آںکہ کشمیر میں دوقومی نظریے کی سیاست کی نفی خود بانیٔ پاکستان کرچکے تھے۔
اس سوچ نے ہمیں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی سائنس سے بہت دور جا پھینکا۔ آج پاکستان میں عوام کے ہاں مقبول نعرے: ’لے کے رہیں گے کشمیر‘، ’کشمیر بنے گا پاکستان‘، ’ہندو بنیے کا علاج؛ الجہاد الجہاد‘ کشمیر کے مسئلے پر ہمارے عوامی شعور کا اظہار ہے کہ جس علاقے کو دنیا کے قانونی فورم پر ہماری قیادت اور ریاست ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرچکی ہے، لیکن وہ اپنے عوام کی ذ ہنی آب یاری خالصتاً اپنے ماضی کی تاریخی جذباتیت کی بنیاد پر کررہی ہے۔
تاریخ میں کشمیر کو ایک خود مختار ملک بنانے کا مؤقف بھی رہا ہے اور آج بھی گاہے گاہے یہ آواز سننے کو مل جاتی ہے، لیکن یاد رہے! کشمیر ایک خودمختار ملک اہلِ کشمیرکی خواہ کتنی ہی جائز اور شدید خواہش ہو، لیکن بعض زمینی حقائق کی موجودگی میں دونوں ہی ملک یعنی ہندوستان اور پاکستان کے لیے یہ کبھی بھی ممکن نہیں رہا کہ وہ اسے ایک آزاد، خود مختار اور علاحدہ ملک تسلیم کرلیں۔ ہاں! اگر کبھی دنیا کا نیا جغرافیہ تشکیل دینے والی قوتوں کو اس خطے کو ایک الگ ملک بنانے کی ناگزیر ضرورت پیش آگئی تو کلچرل، مذہب اور قومیت کے نام پر بہت سے جواز تراشے جاسکتے ہیں اور اسے ایک الگ ملک کے طور پر بین الاقوامی برادری کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
اب اس مسئلے کا اونٹ ایک خاص کروٹ بیٹھ چکا ہے اور اسے اسی نہج پر آگے بڑھنا ہے۔ شاید وہ ہماری سوچ اور مزعومہ خواہشات کے مطابق تو نہ ہو، لیکن زمینی حقائق سے قریب تر ’’بتایا جاتا‘‘ ہے۔ یاد رہے دنیا اس مسئلے کو ہماری آنکھ سے نہیں، بلکہ تاریخی اور معروضی حقائق کے تناظر میں زیادہ دیکھتی ہے۔ اسی لیے اس مسئلے پر دنیا ہمارے بجائے اپنا وزن دوسرے پلڑے میں ڈالتی ہے۔ عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا ترازو بدل جانے سے دنیا مسلسل تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ جن پیمانہ برداروں نے دنیا میں اپنے اتحادیوں کو بندوقیں تھمائی تھیں، اب وہ خود ان سے واپس لے رہے ہیں۔ پاکستان میں مسلح جماعتوں کے پَر اِسی حکمت عملی کے تحت ہی کُترے گئے ہیں اور مزید انتظار میں رہیے کس کس شاخ کو تراشا جاتا ہے۔ بندوق وہی واپس لے سکتے ہیں، جنھوں نے دی تھی، ورنہ کسی اَور کو یہ قدرت حاصل نہ تھی۔ پہلے افغانستان میں لڑنے والے سورماؤں کو نکیل ڈالی گئی، اب کشمیر کو ’’آزاد کروانے والے‘‘ زد میں ہیں۔
قصہ مختصر اور خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کے تجارتی تعلقات، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا، سی پیک اور خطے کے متعدد دیگر ایشوز سے اب کشمیر کے مسئلے کو علاحدہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اگر خطے کے دیگر مسائل کو حل کرنے کی بات کی جائے گی، وہاں مسئلۂ کشمیر کا بھی کوئی نہ کوئی حل مقتدر قوتوں کو کرنا پڑے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام کو اس سے بے خبر رکھا جائے اور وہ حسب ِسابق جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں سے اپنا دل بہلائیں اور ایک خاص ڈھب کی مردہ سیاست کے تن بدن کو نیا خون میسر آجائے اور وہ دوبارہ سے سرگرم ہوجائے۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ ستمبر 2019ء)