• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
جمہوری تماشے میں سرمایہ داری نظام کے حربے!: تحریر: محمد عباس شادجمہوری تماشے میں سرمایہ داری نظام کے حربے!: تحریر: محمد عباس شادجمہوری تماشے میں سرمایہ داری نظام کے حربے!: تحریر: محمد عباس شادجمہوری تماشے میں سرمایہ داری نظام کے حربے!: تحریر: محمد عباس شاد
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

جمہوری تماشے میں سرمایہ داری نظام کے حربے!: تحریر: محمد عباس شاد

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • جمہوری تماشے میں سرمایہ داری نظام کے حربے!: تحریر: محمد عباس شاد
ایک اہم تحقیقی کتاب کا اردو ترجمہ: تحریر: اوریا مقبول جان
مارچ 3, 2022
ٹیپو سلطان، کارل مارکس اور مئی: تحریر: ڈاکٹر منور صابر
مئی 9, 2022
Show all

جمہوری تماشے میں سرمایہ داری نظام کے حربے!: تحریر: محمد عباس شاد

گزشتہ ماہ ملکی سیاسی صورتِ حال میں ’’تحریکِ عدمِ اعتماد‘‘ سرِفہرست رہی ہے، جس کے ہمارے ہاں ذرائع اَبلاغ پر ہر چہار سُو چرچے رہے ہیں۔ اس پر سیاست و صحافت سے وابستہ شخصیات دانش کے دریا بہاتی رہی ہیں، اس سے قوم ایک عجیب وغریب ذہنی مخمصے سے دوچار ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے تحریکِ عدمِ اعتماد کا ڈول لیے اپوزیشن جماعتوں نے پورا پاکستان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ مارچ کا پورا مہینہ تو قوم سارے کام چھوڑچھاڑ اس اونٹ پر نظریں جمائے بیٹھی رہی کہ یہ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ میڈیا اور اہلِ صحافت کی بھی چاندی ہوئی کہ انھیں کوئی ایسا کام ملا، جس سے ان کے ٹاک شوز کی رونقیں لوٹ آئیں۔ تحریکِ عدمِ اعتماد کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے، بلکہ جس وقت یہ تحریر آپ پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت تک یہ اونٹ ضرور کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا، مگر اس سے اس نظام کے اونٹ کی کوئی بھی کَل سیدھی ہونے والی نہیں ہے، جیسے کہ اُردو کا محاورہ ہے: ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کَل سیدھی‘‘۔

ایسے ہی اس نظام کے کوئی بھی کَل پُرزے سیدھے نہیں ہیں۔ یہ نظام اپنی فکر اور ڈھانچے میں ایک معمہ اور چیستان ہے، جو سادہ لوح عوام کو صدیوں سے خوب صورت دعوؤں اور سلوگن سے لوٹ رہا ہے۔ ایسی دور اَزکار بحثوں کے ماحول میں جہاں عقل و شعور کی بات کرنا مشکل ضرور ہے، لیکن ہم اپنے ان نوجوانوں سے مایوس نہیں، بلکہ پُراُمید ہیں جو اس کھیل میں ناسمجھی سے کسی نہ کسی پچ پرپورے خلوص کے ساتھ اس اُمید سے ڈٹے کھڑے ہیں کہ شاید یہ قوم کی کایا کلپ کا آخری اور سنہری موقع ہے۔ ان کے سامنے اس نظام کے حقیقی چہرے کو سمجھنے کی غرض سے چند گزارشات پیش ہیں:

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال نے کوئی پہلی بار ایسی کروٹ نہیں لی۔ ایسی صورتِ حال کئی بار آچکی ہے، جب اپنے دور کے میڈیا کو یہ خبر جمانی پڑی کہ بعض ’’اتحادی‘‘ حکومتی گھونسلا چھوڑ کر اپوزیشن کے پیڑ کی شاخوں پر جابیٹھے ہیں اور باقی بھی پرواز بھرنے کو تیار ہیں۔ اس میں کچھ بھی نیا نہیں لگتا۔ یہ وہی کردار ہیں، جو چھانگا مانگا اور مری کی تاریخ کو دُہرا رہے ہیں۔ جس میں کہیں پیسے کی چمک دکھائی دے رہی ہے توکہیں نئے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کا لالچ دیا جارہا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے جمہوری تماشے میں ایسی کمزور حکومتیں قائم کرنا، جو اتحادیوں کے رحم وکرم پر ہوں، اس نظام کا اپنا حربہ ہے۔ وہ اپنے الیکشن کے نظام میں آزادانہ حیثیت میں الیکشن لڑنے کا جواز فراہم کرکے چند آزاد اُمیدواروں کی شکل میں تُرپ کے چند پتے اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، تاکہ بہ وقتِ ضرورت جہاں جمہوری ناٹک کے ذریعے قائم حکومت کو اس کی حیثیت یاد دلائی جاسکے، وہیں اپوزیشن میں بیٹھی جماعتوں کی اقتدار کے لیے رال بھی ٹپکائی جاسکے۔ ورنہ ساڑھے تین سال گزاردینے والی حکومت جو خود اپنی پالیسیوں اور ناقص کارکردگی کے باعث بڑی تیزی سے عوام میں اپنا اعتماد کھورہی ہے، اسے گر اکر ڈیڑھ سال میں کون سی دودھ شہد کی نہریں بہائی جاسکتی ہیں اور وہ بھی ان اپوزیشن جماعتوں کے ذریعے، جو اس سب کیے دھرے کی ذمہ دار ہیں۔

یہ بھی اس نظام کا ایک حربہ ہے کہ وہ عوام میں غیر مقبول ہوتے ہوئے اپنے مہروں کو تحریکوں کے ذریعے نئی زندگی دیتا ہے، جیساکہ موجودہ صورتِ حال میں عوام میں نامقبول ہوتی ہوئی حکومتی پارٹی اس عدمِ اعتماد کا شکار ہونے یا بچ نکلنے دونوں صورتوں میں عوام میں کھوئی ہوئی اپنی مقبولیت کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بہتر تو تھا کہ وہ اپنا دورِ حکومت (tenure) پور ا کرکے عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی اور اس کے دعوؤں اور کارکردگی کے حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا، مگر یہ سب کچھ اس نظام اور اس کی محافظ قوتوں کے وارے میں نہیں آتا۔

ایسی صورتِ حال میں امید کے کسی نئے چراغ کو روشنی کی کرن سمجھنامحض سراب سے دھوکا کھانے کے مترادف ہوتا ہے۔ پارٹیاں اپنے اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے خطابت کے نئے ریکارڈ ضرور قائم کرتی ہیں، ورنہ یہ پاور پالیٹکس ہوتی ہے، جو صرف نمبروں پر کھیلی جارہی ہوتی ہے۔ اس میں نظام کا کچھ بھی بدلنے نہیں جارہا ہوتا اور نہ ہی کسی قسم کے اُصولوں کی پاسداری مقصود ہوتی ہے، بلکہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی حقیقت ان کی زبان سے جاری بیانات سے ٹپک رہی ہوتی ہے۔ تہذیب اور شائستگی سے عاری گفتگو سے اس نظامِ سیاست کے بے نقاب چہرے کو اچھی طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ قومی سطح کی جماعتوں کے لیڈروں کا ایک دوسرے پر پھبتیاں کسنا اور نام بگاڑنا اس سنگین صورتِ حال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جدید جمہوری طرز ِحکومت سے پہلے انتقالِ اقتدار میں جنگی صلاحیتوں کا عمل دخل زیادہ ہوتا تھا۔ ایک طاقت جب پہلی طاقت کی جگہ لیتی تھی تو وہ پہلی حکومت میں شریک افراد کے خون سے ہاتھ رنگین کیے بغیر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں سمجھتی تھی، جب تک کہ وہ اپنے سب مخالفین کو ٹھکانے نہ لگادے۔ ووٹ کے ذریعے پُراَمن طریقے سے حکومتیں بدلنے کے اس طریقے سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے سرمایہ داری نظام نے ممبروں کی خریدوفروخت سے نمبر گیم کا ایک ایسا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے، جس میں نہ صرف جمہوریت کی روح گھائل ہوتی ہے، بلکہ انسانیت کی مسلمہ اَقدار کا جنازہ بھی نکال دیا گیا ہے۔ووٹ کے ذریعے پُر اَمن انتقالِ اقتدار کے باعث جہاں انسانی شعور نے انسانی جانوں کو تلف ہونے سے بچانے کا راستہ بنایا تھا، وہیں سے سرمائے کے پجاریوں نے ایمان، ضمیر اور صداقت کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا بندوبست کردیا ہے، جو انسانیت کا بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ بے رحم سرمایہ دارانہ نظام کی انسانی ذہن کی مثبت ترقی کو منفی ہتھکنڈے فراہم کرنے کی ایک مثال ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں گاہ بہ گاہ ایسی تحریکوں کے وقتی اُبال میں نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں صَرف کرنے سے پہلے اس کی فکر، ڈھانچے اور حربوں پر غوروفکر کرنا چاہیے۔ اس کے بعد تبدیلی کی کوئی ٹھوس راہ لی جائے، جس کے نتیجے میں اس نظام کے جبر سے قومی آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔

(اداریہ ماہنامہ رحیمیہ لاہور، اپریل 2022ء)

مناظر: 328
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جولائی 11, 2022

عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ