شاہ ولی اللہ دھلوی کی ولادت 4 شوال 1114 ھ بمطابق 21 فروری دھلی کے قریب پھلت نامی قصبہ میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے حضرت عمر رض اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد نے آپ کا نام ؐمعروف بزرگ شخصیت، قطب الدین بختیار کاکی کی نسبت سے قطب الدین رکھا، لوگوں نے بزرگی کی وجہ سے ولی اللہ پکارنا شروع کیا۔
پانچ سال کے عمر میں ہی شاہ صاحب کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ معلم کی خدمات والد ہی نے انجام دیں۔ انہوں نے دو سال یعنی سات سال کی عمر میں ہی قرآن مجید مکمل کرلیا۔ آپ نے دس سال کے عرصے میں معقولات اور طب کے علاوہ ہیئت، معیشت و عمرانیات اور ریاضی جیسے علوم میں مہارت تامہ حاصل کی۔
شاہ صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور اخلاقی حالت کے سدھار کیلیے ان کا فلسفہ ہے۔ شاہ صاحب کی پوری کوشش رہی کہ مسلمانوں کے اجتماعی و سیاسی نظم میں بہتری ہو اور مسلمانوں کا اقبال بحال ہو۔ اس عرض کے لئے آپ نے ان میں دینی شعور پیدار کرنے کے لئے رجوع الی القرآن کا نسخہ آزمایا۔ اور پہلی بار آپ نے قرآن حکیم کا ترجمہ عوامی زبان فارسی میں کیا۔ تاکہ ہر کوئی اس کی روشنی میں اپنی منزل متعین کرسکے۔ آپ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے معاشی توازن، نظم و ضبط کو بنیادی اہمیت دیتے تھے اسلامی اقدار کے اطلاق و نفاذ کے لئے وہ فاسد نظام حکومت کی برتری کو ختم کر کے ایسی حکومت کی داغ بیل ڈالنا چاہتے تھے جو صحیح نظریات کیآئینہ دار ہو اور معاشی توازن کے اصولوں پر کار بند ہو۔
آپ کے مختلف اللنوع خیالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کی خدمات کا احصا ممکن نہیں۔ علمی سیاسی، معاشی و اخلاقی حوالے سے آپ کا انجام دیا ہوا کام اس بات کا شاہد عدل ہے۔ تصنیفی میدان میں آپ نے قرآن حکیم، حدیث، تصوف اور منظق جیسے علوم ہی پر خامہ فرسائی نہیں کی بلکہ معیشیت و عمرانیات سے تعلق رکھنے والے بنیادی مسائل میں آپ نے جو گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں وہ رہتی دنیا تک یاد رہیں گی۔ آپ معرکتہ الاراء کتب کے مصنف ہیں، ان کی تصنیفات 100سے زیادہ بتائی جاتی ہیں جن میں نصف کتب نا پید ہو چکی ہیں، تمام کتب بلند پایہ ہیں ان میں جو مقام ” حجتہ اللہ البالغہ ” اور ” البدور البازغہ ” کو حاصل ہے شاید ہی کسی دوسری کتاب کو وہ مقام حاصل ہو۔
شاہ صاحب کی ولادت ہوئی، تو یہ اورنگ زیب عالگیر 1657 تا 1707 کا دور تھا۔ اور جب آپ کا انتقال ہو رہا تھا تو اس وقت شاہ عالم 1759 تا 1806 کا دور تھا۔ اس طرح انہیں اپنی زندگی میں گیارہ مغل سلاطین کی حکومت دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس طرح انہوں نے بہت سے انقلابات کو اپنے آنکھوں سے دیکھا۔ آپ نے وقت کی نزاکت کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے ایک جامع پروگرام تشکیل دیا، جو نظری اور عملی ہر دو لحاظ سے افادیت کا حامل تھا۔ آپ نے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے علمی مشاغل اور احیاء و تجدید کی مساعی کے ساتھ ایسے سیاسی تدبر اور ایسی ذہانت اور بلند نگاہی سے کام لیا کہ اگر مغلوں میں کچھ بھی صلاحیت اور امرائے سلطنت میں ہمت اور سیاسی شعور ہوتا تو ہندوستان نہ صرف تنگ نظر اور انتشار پسند ملکی طالع آزماؤں سے محفوظ ہوجاتا بلکہ انگریز کے اس تسلط سے بھی محفوظ ہوجاتا۔ جس نے انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان کو کمزور اور میدان کو خالی پاکر اپنے قدم جما لیے، اور اس کو برطانوی سلطنت میں نہ صرف شامل کیا بلکہ اس سے وہ قوت اور وسائل چھین لئے جس نے دنیا کے پوری سیاست پر اثر ڈالا۔ اور مسلم عرب پر اپنا اقتدار جما لیا۔
اور پھر ایسے حلات میں آپ نے فک کل نظام کا نطریہ دیا۔ غلامی اور اس زوال کے دور میں آپ بتلاتے ہیں کہ امت پر مجموعی طور پر جب ایسی مصیبت آتی ہے تو آللہ تعالی انسانیت کو اس سے نجات دلانے کے لئے ٖ ضرور کوئی سبیل نکالتا ہے۔ آپ انبیاءکرام ؑ کی بعثت کا ایک مقصد معاشی مفاسد کو مٹانا بھی قرار دیتے ہیں۔ آپ ان مصائب کا حل ” فک کل نظام ” قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام استحصالی نظاموں کو مٹا کر نظام عدل کو نافذ کیا جائے۔ شاہ صاحب کا یہی ہمہ گیر نظریہ ہے کہ معاشرہ میں جو خرابیاں عہد رسالت میں موجود تھی وہ سب آج کے معاشرے میں بھی موجود ہیں۔ لہذا قرآن حکیم کا جامع فلسفہ یہ ہے کہ اس کا نزول ہر دور کے حوالہ سے ہے اور یہی نکتہ اس کی عالمگریت کی دلیل ہے کہ قرآن کے آئینے میں مسلمان اپنے عہد کا مسلم معاشرہ اور طبقات دیکھے۔ اور فکر کریں کہ معاشی معاشرتی خرابیاں اور کمزوریاں دبے پاؤں ان میں کیسے سرا ئیت کر جاتی ہیں۔ قرآن سرچشمہ ہدایت ہے اور ان مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔
آپ نے اکسٹھ سال کی عمر میں میں 29 محرم الحرام 1176 ھ میں وفات پائی۔ آپ کی اولاد میں شاہ عبدلعزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالغنی، شاہ محمداسحاق جیسے بزرگ عالم پیدا ہوئے، جو کہ شاہ صاحب کی تحریک اور نظریات کے صحیح ترجمان اور وارث تھے جنہوں نے ولی اللہی تحریک کو دوام بخشا اور جماعت کے ذریعے ہم تک پہنچایا۔
افسوس کا مقام ہے کہ جس انسان اور ہستی نے جدید ساینسی دور کے مسائل کا ادراک کر کے ڈھائی سو سال سے پہلے حل دیا، انقلاب فرانس سے بھی پہلے حقیقی جمہوریت کا فلسفہ دیا، قرآن حکیم کا سب سے پہلے ترجمہ کیا، سماجیات، معاشیات، اخلاقیات، اقتصادیات، عمرانیات وغیرہ جیسے مضامین پر مبنی قرآنی علوم کا مجموعہ 100 سے زیادہ کتابوں میں تصنیف کیا، اسلام کے فکرکو زوال سے نکالنے کی حکمت عملی کو مدون کیا، اور سب سے بڑھ کر کا ایک ایسا فلسفہ دیا جس پر ایک جماعت بھی بنائی اور وہ جماعت ایک تاریخ کی شکل لئے ہوئے تاریخ آزادی کی شمع جلا کر آج تک انکا نطریہ ( فک کل نظام ) کو لئے ہوئے ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہمارا نصاب تعلیم اور تعلیمی ادارے نئی نسل کو اس دانشور کے بارے میں کچھ بتانے کو تیار نہیں ہیں۔