اس کے بال گیلے تھے اور پیکھے وال موڑ کا اشارہ بند تھا ۔ صبح کا ٹریفک کا بوجھ وحدت روڈ کی ناتوانی پر کافی گراں گذرتا ہے۔ میں نے اس کی گاڑی کے داہنے ہاتھ موٹر سائیکل کھڑی کر کے بند کر دی ۔ کیونکہ ٹریفک کی طوالت بتاتی تھی کہ انتظار کی طوالت بھی اسی قدر ہو گی۔۔ حالانکہ انتظار کی طوالت بذات خود کچھ اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔ طویل ہو یا طویل تر انتظار تو انتطار ہی ہوتا ہے۔ جیسے سانحہ کا ہونا اتنا درد ناک نہیں جتنا سانحہ ہونے کا خوف پیدا ہو جانا ہے۔ اس کے بال شانوں پر ٹہرے تھے ۔۔ پانی کا کوئی کوئی قطرہ اس کی گردن پر پنکھڑیوں پر اوس کو مثال دیتا تھا۔ ۔۔ ” اللہ تیرے بچے جیون ۔۔ اللہ سوہنا بندہ ڈیوے” ایک بوڑھی بھکارن نے آواز لگایی ۔
” یہ فقیر بھی ہم موٹر سائیکل والوں کے آگے تب ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ جب مانگنے کو گاڑی والے موجود نہ ہوں” میں نے پیچھے بیٹھے سلمان زاہد سے کہا۔
اس نے تھوڑا سا شیشہ کھولا اور دس روپے کا نوٹ اس بڑھیا کے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔ میری پہلی نظر دس روپے کے نوٹ پر پڑی اور دوسری اس کے ہاتھ پر۔ ایسا مخروطی ہاتھ کسی کلاکار کا ہی ہو سکتا ہے۔ ۔ اگر یہ ہاتھ دس روپے میری ہتھیلی پر رکھتا تو میں اس میں دس روپے اور ڈال کر سامنے کے ٹوٹل کے پمپ سے شام تک کا پٹرول ڈلوا سکتا تھا۔۔
” اللہ بوہتا ڈیوے۔۔ آساں مراداں پوریاں ہوون۔۔۔ حسن بلا کرے” ۔۔۔ابھی اس کی دعائیں جاری تھیں کہ اس کی گاڑی کا خود کار شیشہ اوپر ہو گیا۔ کیسے عجیب لوگ ہیں جنہیں دعاؤں کی بھی ضرورت نہیں۔ جانے کیوں مییرا دل چاہا کہ میں بھی اس بڑھیا کے ہاتھ پر دس روپے رکھوں پھر وہ بھی مجھے اتنی ساری دعائیں دے۔ اور وہ ساری پوری ہو جائیں۔ لیکن اس وقت میرے لیے دس روپوں کی اہمیت اتنی تھی کی میں دعائیں پوری نہ ہونے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ بڑھیا کسی اور اشارے کی طرف جا چکی تھی ۔ ” شالا پاس تھیویں۔” ۔۔ سرمائے کی بنیاد ہر قایم کردہ معاشرے میں۔ ۔ خدا ترسی ا اظہار بھی سرمایے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔۔۔ اور دعائیں بھی خریدی جاتی ہیں۔
سامنے والا اشارہ تاحال کھلا تھا ۔ گورنمنٹ گرلز ہایی سکول میں پڑھنے والے بچے نیلے رنگ کی یونیفارم پہنے ویگنوں اور رکشوں میں گذر رہے تھے۔ یہ گورنمنٹ کا ماڈل سکول تھا۔ جہاں آس پاس کی بستیوں میں رہنے والے بچے پڑھتے تھے۔ جن کے والدین کے ذہن میں تعلیم کا بعینہ وہی مفہوم ہوتا ہے جو ہماری سرکار کے کی حکمت عملی بھی ہے ۔ کہ سوسائیٹی کا ہر وہ شخص پڑھا لکھا ہے جو اپنا نام لکھ سکے۔ ان بستیوں کے والدین۔ اسی وحدت روڈ کے گرد و نواح میں بنے ہوے بیکن ہاوس ۔۔ سٹی سکول ۔۔ لنڈر ہاف میں پڑھنے والے بچوں کے گاڑیاں چلاتے ۔۔ ان کے گھروں کے گارڈ بھرتی ہوتے۔۔ ان کے مالی بنتے ۔۔ اور اپنے بچوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے کہ ایک دن وہ بھی اپنا نام لکھنا سیکھ کر ایسے ہی کسی کو گارڈ بھرتی کرنے ۔۔ ڈرائیور رکھنے کے قابل ہو جایں گے۔ ان کی سادگی کو کیا معلوم۔ سامنے والے سکول میں آنے والے بچے ان ہیروز کے مضامین لکھتے پڑھتے ہیں۔۔ جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں نئے باب رقم کیے۔۔۔ اور ان سکولوں کا ہونہال ساری عمر پوسٹ مین سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔۔ چنگ چی رکشے سے ایک بچے کا بیگ نیچے گرا تو میرا دھیان واپس ٹریفک کی طرف چلا گیا۔۔ چنگ چی رکشے کے باہر جیسے بیگ لٹکے ہویے تھے ویسے ہی اندر سیٹ نما تختوں پر بچے۔۔ ایک بچے نے بھاگ کر بیگ اٹھایا ور پھر کمال مہارت سے چلتے ہویے رکشے میں دوبارو سوار ہو گیا۔ اس کی زندگی میں فتح بس یہی تھی ۔۔ کہ چلتے رکشے میں سوار ہو کر سر تفاخر سے بلند کر لیا جایے ۔۔
” سوسائیٹی کے کسی بھی عمل کا نتیجہ انفرادی نہیں ہوتا ” ۔۔ زاہد نے اس بچے کو گہری نظروں سے گھورتے ہویے کہا۔۔۔
اس اشارے سے امرا کے سکولوں میں جانے والے بچے دائیں مڑ جاتے۔۔اور ماڈل سکول کو آنے والی ویگنیں اور رکشے سیدھے آتے۔۔ یہ دائیں بائیں کی تفریق بڑ ی بھیانک ہے۔۔ سماج میں ہو تو فتنہ ۔۔ مذ ہب میں ہو تو گمراہی اور اہل سیاست میں ہو تو انسان کشی۔ ایک سمت میں جانے والے محض جوتا خریدنے کی خاطر دوسرے ملکوں کا سفر کر لیتے اور دوسری سمت میں جانے والے جوتا گانٹھنے کا خاطر دوسری گلی کا سفر کرنےسے کتراتے ۔۔ ایک سمت میںں مڑنے والوں کے خواب پورے ہونے کو خود بے تاب ہوتے۔۔ اور دوسری سمت میں جانے والوں کے خواب پھلوں کی ریہڑی ۔۔۔ درزی کی دکان۔۔ گلیی محلےکے حجام ۔۔ تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتے۔۔
اس کے بال ہنوز گیلے تھے ۔۔ اے سی کی چلنے والی ہوا اس کی گاڑی کے اندر اس کے بالوں سے اٹھکھیلیاں کر رہی تھی۔ وہ اپنی مخروطی انگلیاں ان میں پھیر پھیر کر انہیں خشک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ شیخ زاید ہاسپٹل سے آنے والا اشارہ کھل گیا تھا۔ فقیر ابھی بھی ادھر ادھر منڈلا رہے تھے۔ اس اشارے کے سامنے بڑے بڑے بورڈز لگے تھے۔ جن پر بڑی بڑی کمپنیوں کے اشتہار لگے ہوتے۔۔ ایسی کمپنیاں جن کا سالانہ بجٹ دنیا کے ۷۰ فیصدی ممالک سے زیادہ ہوتا۔ اگر شام ہوتی تو اس اشارے پر رکنے والے زیادہ تر لوگ پنجاب یونیورسٹی کے طلباء ہوتے جو ایک دفعہ ٹیوشن پڑھانے کی خاطر گھر سے نکلتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آتے۔ زندگی میں ہر اس سفر سے واپسی ناممکن ہے جو ہم کرنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں گاؤں سے آنے والے طلباء عجیب مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کہاں ان کے والد صاحب جنہوں نے کلہہم بیس ہزار روپے فیس ادا کرنے کی خاطر گھر کا کویی نہ کویی اثاثہ بیچا ہوتا ہے۔ اور کہاں لاہور ایسے شہر کی چکا چوند روشنیاں۔۔ یونیورسٹی میں محض کپڑوں کی جنگ میں ہی فاتح قرار پانے کی خاطر مہینے میں اس سے زیادہ خرچہ درکار ہوتا ہےجتنا والد صاحب کی جیب اجازت دیتی ہے ۔ چناچہ والد صاحب کا ہی کویی اور اثاثہ بیچ کر ایک موٹر سائیکل لی جاتی ہے ۔ اور اس پر ایک ایسا سفر شروع ہوتا ہے ۔۔ جو تعلیم کے میدان کے شاہ سواروں کو کپڑوں اور جوتوں کی جنگ میں دھکیل دیتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ہزاراہا سال قبل سے آج تک۔ تعلیم میں ترقی کے لیے امیدواران علم کو معاشی فکر سے آزاد رکھنے کی حکمت عملی بنائی گئی۔ خدا معلوم وطن عزیز کب غار کے زمانے سے ہی سہی۔ مگر سبق تو سیکھے گا۔
اس وقت گذرنے والوں میں سے زیادہ تر دکاندار تھے۔ ایسے دکاندار جنہوں نے ساری عمر محنت کے بعد ایک شیراڈ گاڑی خریدی ہوتی ہے۔ اور اس اتوار جس کو یہ بچوں کے ہمراہ گھومنے کا ارادہ بناتے شیراڈ دھوکہ دے جاتی۔۔ اور سہ پہر کے بعد جب گاڑی کا کام کروانے کے بعد گھر میں داخل ہوتے تو بیگم کا موڈ اور جیب کی حالت دونوں مل کر ارادہ بدل دیتے ۔
شیراڈ مالکان کے علاوہ دوکانوں پر کام کرنے والے افراد جن کی زندگی کی آخری منزل ایسی ہی ایک گاڑی اور بیٹیوں کی خیر خیریت سے اپنے گھروں کو رخصتی ہوتی۔
“یار ۔ زاہد ۔۔ میں کبھی سوچتا ہوں۔ کہ دنیا میں کوئی ایسے لوگ بھی ہوں گے جو معاشی فکر سے آزاد ہوں گے” میں نے پیچھے بیٹھے زاہد کو گفتگو پر اکسایا۔
بچی نہ دیکھنے دینا۔۔ ظالم۔۔ زاہد نے مجھے گھورا۔ ” کوئی معاشی فکر سے آزاد نہیں ہوتا۔۔ کدھر چلے جاتے ہیں تمہارے معاشی نظریات۔ بھائیunlimited wants ہوتی ہیں دنیا میں۔ خواہشات کا پورا ہونا۔ ناممکن بات ہے۔ چاہے کسی کی بھی ہوں۔ “
“کمال کی بات نہیں زاہد۔۔ کہ خواہشات پوری نہیں ہو سکتیں ۔۔کیونکہ ذرائع کم ہیں۔ اور انہیں کے لیے زیادہ کم ہیں جو محنت کرتے ہیں ان پر۔ یہ جو ہیرا پھیری ہے نا ۔۔ بنیادی ضروریات کی۔۔ صرف ضروریات کی ۔۔ اور آسائیشوں کی ۔ یہ گفتگو کے اعتبار سے تو بڑی حسین ہے۔ لیکن اس میں غلط ہے کہیں کچھ۔ انسانوں کی بنیادی ضروریات صحت کے اعتبار سے تو مختلف ہو سکتی ہیں۔ لیکن یار میری بات سن ۔۔ دولت کے اعتبار سے کیسے ہو سکتی ہیں۔ “
” اوہ بھائی ۔۔ ایڈم سمتھ ثانی۔۔ جب تو ٹیوشنز پڑھا پڑھا کر امیر ہو جایے گا نا ۔۔ تو اپنی ڈیفنس کی کوٹھی میں بیٹھ کر ایسے نئے نئے فلسفے گھڑلینا۔ ” زاہد نے پھر مجھے گھورا۔۔
” لے بھلا ٹیوشن پڑھانے سے بھی کویی امیر ہوا ہے۔ ” میں نے افسردگی سے سر جھکا لیا۔۔ اور سوچنے لگا کوئی کتنی بھی اچھی بات کہہ لے اگر اظہار کے لیے سرمایے کی قوت نہ ہو۔ تو وہ مفاد عامہ کے لیے بھی کام نہیں آ سکتی۔
اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ مخروطی انگلیاں بل کھاتی نیچے کی طرف گئیں۔ جیسے تیز ہوا میں پانی کے قطرے بل کھاتے ہویے زمین کی طرف آتے ہیں ۔۔ گویا کویی خمار ان پہ طاری ہو۔
دبئی چوک سے آنے والا اشارہ کھل گیا تھا۔ اقبال ٹاون سے نکلنے والے لوگ ۔ تین اطراف میں مڑتے اوران سے تین مختلف کہانیاں جنم لیتیں۔ دائیں مڑنے والے ملتان روڈ پر کام کرنے افراد ہوتے۔ جو ملتان چونگی تک تو ویگن میں جاتے پھر آگے پیچھے موجود فیکٹریوں میں پیدل سفر کرتے۔ ایسی فیکٹریاں جن میں کام کرنے والے افراد کا ماہانہ بجٹ ایسے افراد بناتے جو مزدور کے گھر میں چلے جاییں تو دم گھٹنےسے ان کی موت واقع ہو جایے۔ چودہ پندرہ برس کی عمر میں جب لڑکے بالے یہاں نوکریاں شروع کرتے تو سیگرٹ پانی کی عادت محلےسے ساتھ لے کر آتے اور یہاں چرس کے سیگرٹ کے افادیت سے آگہی حاصل کرتے۔ ایسے لڑکے جب خاندان بھر کا پیٹ ۸،۹ ہزار میں پالتے پالتے ایک دم زمین کے بوجھ کے نیچے دب جاتے ہیں تو ان کا ماہانہ بجٹ بنانے والے پاکستان میں بڑھتی ہویی اموات پر مضامین لکھواتے ہیں۔ اور معاشی بدحالی اور سماجی زبوں حالی پر تاسف سے ہاتھ اور اس جلدی اٹھ جانے والے پر آنکھیں بھی ملتے ہیں۔
ایسی ہی ایک فیکٹری میں ایک جمعہ کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مولاناصاحب نے خدمت خلق پر ایسا جامع لیکچر دیا کی روح تک بالیدہ ہو گیی۔ پھر فرمایا ۔ ملازم کی سب سے بڑی خدمت خلق یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کی بات کو ہر حال میں پورا کرے۔ بیماری۔ پریشانی۔ خوشی میں چھٹی نہ کرے۔ اگر کام کا وقت آٹھ گھنٹے ہے تو دس گھنٹے کا م کرے۔ کیونکہ اللہ نے رزق جسکی وساطت سے دیا ہو اس کی خدمت عین عبادت ہے اور رب کو راضی کرنے کا سب سے بڑھیا طریقہ یہی ہے۔
انسانوں کی منڈی میں جنس انسانی کی خرید و فروخت کے لیے فرسودہ مذہب ہمیشہ سے آلہ رہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انسان میں رقم کی چاروں بنیادی خصوصیات نہ ہونے کے باوجود اس کا کاروبار عروج پر رہا ہے۔ اور بسا اوقات تو یہ کاروبار بلندیوں کی انتہا کو چھوتا ہی تب ہے جب رقم کی چاروں خصوصیات اس میں رہیں ہی نا۔ میں نے ایک دفعہ اکنامکس کے ایک استاد سے پوچھا۔ “سر جی کیا جنس انسان بھی منڈی کی ایک جنس ہے” فرمانے لگے
“دماغ ٹھیک ہے آپ کا۔ ممکن ہی نہیں”
میں نے عرض کی۔
” تو پھر سر جی اس کی قیمت کا تعین کیسے ہو جاتا ہے۔ کم ترین اجرت کے نام پہ۔ وہ بھی پارلیمنٹ جیسے مقدس ادارے میں بیٹھ کے”
انسانوں کی اس خرید وفروخت کے عمل میں اب انسانوں کے ساتھ حور وقصور بھی ترغیبی حیثیت میں شامل ہیں۔ جہاں قیمت کم معلوم پڑے وہاں۔ ان سہولیات سے فایدہ اٹھایا جایے اور بدلے میں بے شک نسل انسانی کی قتل گاہ ہی تعمیر کر لی جایے۔ کیسی عجیب بات ہے۔ ایک دوسری دنیا آباد کرنے کی خاطر ہم ایک دنیا کا مستقل خاتمہ کئے چلے جاتے ہیں۔
اس رمضان المبارک کی آمد پر جمعہ کی آدایئگی پر مساجد میں معمول سے زیادہ رش تھا۔ گناہ و ثواب کی دلدوز اور خوش آئیند باتیں تھیں۔ ایسی ہی ایک مسجد میں مولانا صاحب نے میرے سمیت موجود کویی پانچ سو نمازیوں کو جنت کی مکمل سیر کروایی بلکہ حوروں کے معاملات اور اخلاقیات بیان کرتے ہوے نماز کی ادائیگی میں تاخیر بھی کروایی۔ تمام روزہ دار سحری کرتے ہی جنت الفردوس کے حقدار ہو گئے تھے۔ اور پانی کے ہر گھونٹ کے ساتھ درجات کی بلندی اور حوروں کی حسن میں اضافہ کی نوید بھی سننے کو ملی۔۔
نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد کے دراوزے کے باہر دیکھا ۔ کہ کویی دو درجن حوریں سخت گرمی اور دھوپ میں اپنے سال دو سال بچوں کی صحت اور زندگی جھولی پھیلا کر تمام تر جنتیوں سے مانگ رہی تھیں۔۔ بچوں کی صحت اور حوروں کا حسن ایک ہی درجے کا تھا۔ ایک ۸۰،۹۰ سال کی حور جس کی زبان پیاس سے باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ ایک اور حور زادے کے سر پر اپنے ڈوپٹے نما کپڑے کا سایہ کیے ہوے تھی۔ کیوںکہ اس کا ماں کو بھیک مانگنے سے فرصت نہ تھی۔ اور اس عمر میں بڑھیا کو بھیک دیتا کون۔
اقبال ٹاون کا شمار ان علاقوں میں ہوتا جہاں ایک شہر امرا ءکا ہوتا اور ایک غرباء کا۔ ویسے تو ہمارے ہاں ایسی سوسایٹیز میں غربا ءکا شہر نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کا وجود بھی تسلیم کی منزل سے دور ہوتا ہے۔ مجھے یاد آیا کے ایک کام والی ماسی نے اپنی رہائش کا ذکر کرتے ہوے کہا تھا۔ “پتر سونے کا کیا ہے۔ چارپای پہ جگہ صرف اس وقت کم معلوم ہوتی ہے جب نیند کا غلبہ زیادہ ہو۔ ایسے میں ایک ہی چارپایی پر اپنی بہو اور اس کے تین بچوں کو جگہ دینے کی خاطر میں چارپایی کے نیچے سو جاتی ہوں۔ اور بیٹا جب چوکیداری کر کے واپس آتا ہے تو بہو بھی میرے ساتھ ہی آ جاتی ہے۔ “
اقبال ٹاون کے کچھ لوگ معاشی ترقی کے بعد سماجی ترقی کا زینہ بھی چڑھ چکے ہیں۔ اور اقبال ٹاون سے نقل مکانی کر کے ڈیفنس ۔ ماڈل ٹاون ۔ بحریہ ٹاون وغیرہ میں گھر بنا چکے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ ابھی تک علاقے کی محبت میں یہیں رنگ جمائے ہویے ہیں۔ دبئی چوک سے آنے والے اشارے میں گاڑیوں کی کثرت ہوتی۔ موٹر سایکل اور چنگ چی رکشے بھی بہتات میں ہوتے۔ پنجاب یونیورسٹی آنے والی بسیں ہوتیں۔ گاڑیوں پہ آنے والے نوکریوں پہ جانے والے ہوتے یا کاروبا ر پہ جانے والے۔ آسودگی ایک نعمت ہے جو حاصل ہونے چاہے تو ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس سے بھی حاصل ہو سکتی ہے ۔ یوں ایک گھونٹ اندر اترا ور آسودگی اور ٹھنڈک روح تک اتر آئی۔ اور آسودگی کا حصول نہ ہونا ہو تو ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھ کر بھی پسینے کے قطرے نیچے کو لپکتے۔۔ جیسے ذہن کے نچلی سمت کے سفر کے ساتھ وہ بھی متلاشی ہوں۔ پستی کا سفر ارادی بھی ہو سکتا اور غیر ارادی بھی۔ ارادی ہو ذلت کا احساس نتائیج پہ منحصر ہوتا ہے۔ غیر ارادی ہو تو موت سے بھی مشروط نہیں ہوتا ۔ خیال کی پرواز بھی ریاضی کے خطوط کی طرح ہے۔ مستقیم معدوم ہے اور عمودی بکثرت ۔۔ ہم وحدت میں کثرت کے قائل نہ بھی ہوں تو کیا۔ فطرت کی نگہبانی اپنی جگہ موجود ہے .
اس اشارے سے سیدھے جانے والےگلبرگ ۔ ڈیفنس ۔ ماڈل ٹاون ۔ گارڈن ٹاون میں واقع دفاتر میں جاتے ۔ ان لڑکوں کی مالی حالت دائیں مڑنے والوں سے بہتر اور جسمانی خراب تر ہوتی ۔ یہ جس چرس کا ذایقہ چکھتے اس کا نام محنت ہوتا۔ اور جو گھٹی انہیں ملتی اس کا نام چاپلوسی ہوتا۔ احباب کہتے ہیں۔ بیماری جسم کے کسی ایک حصے کو بھی تکلیف میں سارا جسم ہوتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں۔ صرف معاشی نظام خراب ہونے سے پورے معاشرہ زبوں حالی کا شکار کیوں نہیں ہو سکتا ۔ یہ لوگ سوسائیٹی کا متوسط طبقہ کہلاتا ۔ جو موجودہ سماجیات کے نصاب میں ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے۔ اس طبقےکا جرم سفید پوشی ہوتی ہے اور گناہ مالی بہتری میں خوشی کی تلاش ۔۔ اب ان کو کون سمجھایے کہ۔۔ خوشی کا حصول غیر ممکن بات ہے۔ جس چیزکی فطرت میں جز وقتیت ہو وہ بھلا استقللال کے دائروں میں کیونکر داخل ہو۔ محمود غزنوی کا غلام کس قدر عقلمند تھا کہ جس نے سلطانی انگوٹھی پر وقت گذر جانے کا الارم کندہ کروایا۔ اب نہ وہ عہد سلطانی کہ ایاز کے کہنے پر سلطانی سوچ بدل جایے نہ وہ عہد غلامی کہ خاندان غلاماں کو تین براعظموں کی حکومت میسر آ جایے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سلطانیت اور بادشاہت بھی جز وقتی ہیں۔ حاکم وقت ہو یا حاکم زماں۔ خوشی کے دربار فقیر ایسی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہاتھ پھیلانے والے۔ اگر کوئی انانیت کے دائرے میں رہنے کی کوشش کرے بھی تو لطف زندگی بھی گنواتا ہے۔ اور بعد الموت مدح بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک بادشاہ ہے۔ جس کی انانیت اسے ہاتھ پھیلانے سے روکتی ہے۔ اور وہ فقر اور فقیری سے دو ر رہتا ہے۔ اور کمال حسن تو یہ ہے کہ عمر بھر کی رائیگاں کوشش کے بعد جب رخت سفر باندھتے ہیں۔ تو احسا س ہوتا ہے کہ فقر کا نہ ہونا سزا تھا۔ اور غریب اولوطنی کاہونا خود ساختہ جلا وطنی۔
اس اشارے سے بائیں مڑنے والے زیادہ تر افرادموٹر سائیکلوں پر سوار ہوتے ہیں یا بسوں اور ویگنوں مِیں۔ یہ مسلم ٹاون اور اس کے آس پاس جانے والے افراد ہوتے ہیں۔ ایک کثیر تعداد طلبا کی۔ ایک ایسی یونیورسٹی جانے والی جسکو جب سے ایک مشنری ادارے نے سنمبھالا ہے۔وہ صف اول کا ادارہ بن گئی ہے۔ ہمارے زعماء ہمیں سکھاتے ہیں۔ کہ وہ اپنے مذموم مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔تا ریخ گواہ ہے آزاد قومیں اپنے مقاصد پورے کر ہی لیتی ہیں۔ چاہے وہ سرحد پار کیوں نہ ہوں۔ اور غلام قوموں کی سوچ پر بھی قدغن ہوتی ہے چاہے وہ سرحد کے عین اندر ہو اور قراداد کے مقدس نام سے ہی کیوں نہ ہو۔ نوکریوں والے افراد مسلم ٹاون موڑ سے دائیں بائیں واقع دکانوں میں نوکریاں کرتے ہیں اور زیریں متوسط طبقہ کہلاتےہیں۔ معاشیات میں ترقی کے ساتھ طبقات میں بھی ترقی ہو گئی ہے۔ اب متوسط طبقہ کے آگے کویی ۲۰ طبقات ہیں۔ نصاب کچھ بھی کہیں۔ زوال کے زمانے میں طبقات دو ہی ہوتے ہیں۔ استحصال کرنے والے۔اور استحصال کا شکار ہونے والے۔
فقیر گھومتے ہوئے پچھلی گاڑیوں کی طر ف جا نکلے تھے۔ ان کی آوازیں اب دور سے آتی محسوس ہورہی تھیں۔ ویسے بھی زوال شدہ معاشروں میں افلاس کی آواز نا پسندیدہ ہوتی ہے۔ اور وہ فطرت سے عین عدم موافقت کرتے ہوے دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ حالانکہ فطری طور پہ آواز جتنی بھیانک اور نا پسندیدہ ہو اتنی نزدیک معلوم ہوتی ہے۔ لیکن کیا کریں کہ سرمائے اور غرور کی پٹی آنکھوں اور کانوں پر پر اس قدر گہری ہوتی ہے۔کہ روشنی کا مطلب مال و دولت کی چکا چوند اور سماعت کا مفہوم غیر انسانی رویوں پر اٹھنے والی واہ واہ ہوتی ہے۔ ایک ٹریفک وارڈن کسی موٹر سائیکل والے کا چالان اس بات پر کر رہا تھا۔ کہ اس کا ایک اشارہ ٹوٹا ہوا تھا۔ اب اس کو کون سمجھاتا کہ اللہ کے بندے اگر وہ تیس روپے کا اشارہ ڈلوا سکتا تو دو سو روپے کا چالان کیوں کرواتا ۔ وہ تو گھر سے صبح حساب لگا کر نکلتا ہے ۔ پچیس روپے کا پٹرول ڈلوانا ہے۔ دس روپے کے نان چنےکی ہاف پلیٹ کھانی ہے۔ اور دس روپے ناگہانی آفت کی صورت میں اپنے پاس رکھنے ہیں۔ اب ایسے میں اگر اس کا دو سو روپے کا چالان ہو جایے تو اس کا مہینے کا بھر کا بجٹ اور دن بھر کا ذہنی توازن خراب ہو جاتا ہے ۔ناگہانی آفت اگر تصور سے بڑی ہو تو اس کا پہلا اثر ذہنی حالت پر ہی پڑتا ہے۔ بعض دفعہ تو آفت ہو کر بیت جاتی ہے ۔ اورآدمی اس گمان میں رہتا ہے کہ یہ اس کے ساتھ ہوا ہی نہیں۔ کسی اور کے ساتھ ہوا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ جب اثرات جسم پر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ تو بے یقینی سایے کی طرح ڈھلنا شروع ہو تی ہے۔
دبئی چوک والا اشارہ بند ہونے ہی والا تھا کہ ایک ایمبولینس مخصوص شور مچاتی ہویی وہاں سے گذری۔ اس کے پیچھے کیی احباب نے موقع غنیمت جانا اور اس کہ نقش پا پہ چلتے ہوےاشارہ توڑتے ہوے رخصت ہوے۔ ہمارے دوست فیصل سعود صاحب کہتے ہیں۔ کہ جتنی عجلت میں زمانہ زندہ ہے۔ سرخ بتی پر رکنا بھی تقوی ہے۔ میرا دل چاہتا کہ فیصل صاحب سے پوچھوں کہ کیا سماجی غلامی اور معاشی بدحالی کے ہر نئے دور میں تقوی کی تعریف بدل جاتی ہے۔ یا پھر ہم رویوں کے اظہار میں غلام ہو کر تقوی کا اظہار بھی بھول جاتے ہیں۔ لیکن پھر اپنی کم علمی کے باعث چپ رہتا ہوں۔
ہمارے اشارے پر عجلت پسند نواجوان اشارے سے رینگتے رینگتے کویی دس فٹ آگے چلے گیےتھے۔ ان کو بھی کہیں نہ کہیں سے دیر ہو رہی ہو گی۔ کیونکہ اس اشارےسے دائیں مڑتے ہی کالجز اور یونیورسٹیز کا ایک طوفان ہے۔ جہاں والدین کے سفید پوشی کے بھرم کو توڑنے کے لیے سینکڑوں ذریعے ہوتے۔ والدین ایسے کالجز میں اپنے بچوں سے مسقبل کی امیدیں لگاتے جن کا سال دو سال بعد اپنا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔
میں نے ٹیڑھی آنکھوں سے گاڑی والی کو دیکھا۔ اس نے سن گلاسز لگا لیے تھے۔ زاہد نے مجھے چوری چوری دیکھتے ہوے دیکھا تو بولا۔۔ “تیری موٹر سائیکل جتنی مالیت کے تو ہوں گے ” اشارہ کھلا تو موٹر سایکل والے تیزی سے نکلے۔ اس نے شاید انگریزی میں کوئی گالی دی۔ میں نے بس ہلتے ہو ہونٹ اور گلابی سے لمحہ بھر کو لال ہوتا ہو ا رنگ دیکھا۔ میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر پر موٹر سائیکل ایک قدم اور پیچھے کر نے کی کوشش کی۔۔ دو چار موٹر سائیکلوں کے تیز ہارن کان پھاڑنے لگے۔ اس کی گاڑی نکلی تو میں نے بھی پیچھے اپنی موٹر سایکل بھگا دی۔ انمول ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے وہ نظروں سے اوجھل ہونے لگی تو میں نے ریس بڑھانے کی کوشش کی۔۔
“میری بات سن۔۔ “زاہد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
“ہاں” میں گویا خواب سے چونکا
” ۱۸۰۰ سی سی ہنڈا سیوک اور ۸۲ ماڈل کی ہنڈا ۷۰ کی آپس میں ریس نہیں ہوتی”
میں نے چپ کر کے بائیک سڑک کے کنارے کھڑی کی ۔۔ اور خالد پٹھان کے پاس کھڑا ہو کر پرانی کتابیں دیکھنے لگ گیا۔
مناظر: 131