اس موضوع پر اہل علم و قلم نے نہایت عالمانہ اوردانشمندانہ قلم جوئی کی ہے۔الحمداللہ، انھوں نے کافی سہل،مدلل اورمعتدل مزاجی سے حضرت امام عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کی علمی و عملی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ عاقبت نا اندیش اور متعصب لوگوں کے مصنوعی، منفی اور حقیقت سے دور پروپیگنڈہ کا سدباب بھی کیا ہے۔
جو حضرت سندھی کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی ایک متعصبانہ کوشش کررہے تھے ۔ جس کو اِن حقیقی متعلقین سندھی نے اپنے قلم سے حضرت سندھی کے خلاف کئے گئے پروپیگنڈہ کو نہ صرف دفع بلکہ ان کا اعتماد دل میں اَور بھی گہرا اور زیادہ مظبوط و مستحکم کردیا ہے۔ اس مُدبرانہ کاوش کے لیے مَیں ان کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں۔
چونکہ حضرت سندھی سےعلمی،عملی،فکری،تحریکی اورعلاقائی وابستگی ہونے پر میرا بھی فرض بنتا ہے کہ چند سطریں ان کی شان میں رقم کروں۔ جو ان سے وابستگی کی دلیل و ثبوت ہوں۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ “محشر میں ھر شخص کو اپنے رھنما کے ساتھ اُٹھایا جائے گا” پس حسرت دل ہے کہ اس احقر کو بھی محشر میں کوئی کونہِ اجتماع خانوادہِ ولی للّٰہی(عبیداللہ سندھی) میسر آجائے۔
اس موضوع میں پیش نظر حضرت سندھی کے استاذ محترم شیخ الہند مولانا محمود حسن رحہہ اللہ اور حضرت سندھی کے رفقاء کے ملفوظات ہیں۔ جن سے نہ صرف اُن کی علمی و عملی کوششوں کو سَراہنا بلکہ ان کے ساتھ اعتماد و یقین اور سرپرستی کا روز روشن کی طرح عیاں ہونا ہے۔
حضرت سندھی ایک نو مسلم شاگرد تھے۔ جنھوں نے دیوبند کے بہت سے نامور علماء اور قلب شناس بزرگوں سے وافر مقدار میں ظاہری و باطنی تعلیم حاصل کی۔ اور ان اساتذہ میں حضرت شیخ الہند ستاروں کی گِرد چاند کا سا مقام رکھتے تھے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اُس دور کے سُلگتے مسائل کے تحت اپنے استاذ شیخ الہند کی علمی اورعملی تحریکوں میں پیش پیش تھے۔ جن کے بارے میں حضرت سندھی خود رقم طراز ہیں ” میرے شیخ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ اس سلسلہ تعلیم کے اساتذہ میں میرے باپ کا سا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں، جب کہ باقی اساتذہ چچاؤں اور اجداد کی حیثیت رکھتے ہیں”۔(سرگزشت حیات ص-58)۔
حضرت سندھی طالب علمی ہی کے زمانے میں سے نہایت ذہین و فتین اور اپنے اساتذہ کے با اعتماد شاگرد تھے۔ اس بارے میں حضرت سندھی فرما تے ہیں۔ ” 1890ع کے آخر رمضان المبارک میں مَیں نے اصول فقہ میں ایک کتاب ” مراصدالوصول الی مقاصد الاصول” لکھی۔ جب مَیں نے یہ کتاب اپنے استاذ محترم حضرت شیخ الہند کی خدمت میں پیش کی تو آپ نے اس کی بہت زیادہ تعریف فرمائی۔ اور متعدد مرتبہ میرے لیے تعریفی کلمات دہرائے۔(سرگزشت حیات س-56)
مزید شیخ الہند کا اعتماد حضرت سندھی پرارشادات شاہ عبدالقادر رائے پوری(خلیفہ شاہ عبدالرحیم رائے پوری ) سے ہوتا ہے۔ شاہ صاحب اور حضرت سندھی کا آپس میں گہرا ربط تھا جس طرح ان کے حضرات، شیخ الہند اور شاہ عبدالرحیم کے مابین تھا۔ دونوں حضرات، حضرت سندھی اور شاہ عبدالقادر رائے پوری عصر حاضر اور سیاسی امور میں بہت دوربین و گہرے تھے۔ اِن دونوں بزرگوں کے درمیان بہت سے امورمیں مماثلث بھی ظاہر تھی۔
حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری فرماتے ہیں۔ ” مَیں نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی زبانی خود سنا ہے، وہ حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمہ اللہ کے سامنے بیان فرما رہے تھے کہ: “حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری اور حضرت مولوی عبیداللہ صاحب سندھی دونوں کی بڑی استعداد ہے۔ حضرت مولوی عبیداللہ دہلی جا رہے ہیں۔ مَیں نے ان کو کہہ دیا ہے کہ وہاں کوئی ایسی مشکل بات نہ کرنا، جس کو عام طور پر لوگ سمجھ نہ سکیں اور شور ہو۔ کیونکہ تمہاری بات مَیں ہی سمجھتا ہوں اور کوئی یہاں نہیں سمجھتا۔ اور مفتی اعظم مولوی کفایت اللہ دھلوی صاحب بھی مستعد ہیں”(ارشادات رائے پوری ص۔123)،۔ مذکورہ ارشاد گرامی حضرت شیخ الہند سے حضرت سندھی کی قابلیت و استعداد واضع ہوتی ہے۔
اسی طرح حضرت سندھی کے رفیق محترم حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری فرماتے ہیں: “حضرت شیخ الہند قدس سرہ جن(مولانا عبیداللہ) کی اتنی تعریف کریں تو مَیں ان کے متعلق نیک گمان ہی رکھتا ہوں۔ لہذا، مولانا عبیداللہ سندھی کے متعلق حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے مَیں تو مولانا عبیداللہ سندھی صاحب کو ایسا نہیں سمجھتا، جیساکہ عام نکتہ چین یا بعض حضرات فرماتے ہیں۔ مولانا سندھی کا اپنا علم بھی بڑا وسیع تھا۔ سیاست سے لگاؤ اس درجہ تھا کہ حضرت شیخ الہند قدس سرہ اپنے تمام شاگردوں میں سے کابل جانے کے لیے مولانا سندھی ہی کو بھیجنا مناسب سمجھا تھا”(ارشادات رائے پوری ص۔132) ۔
مزید حضرت سندھی کے رفیق فدائے ملت و جانثار شیخ الہند، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہاللہ، حضرت سندھی کے بارے میں رقم طراز ہیں۔ ” مولانا عبیداللہ صاحب حضرت شیخ الہند کے خاص فدائی اور نو مسلم شاگرد تھے۔ عرصہ دراز تک خدمت میں رہے تھے۔ سمجھ اور حافظہ نہایت اعلی پیمانہ کا، ھمت و استقلال بے نظیر قدرت نے عطا فرمایا تھا” (نقش حیات ص-553، مطبوعہ، دارالاشاعت، کراچی)۔
اور بھی بہت سی طویل فہرست ہے جس میں وقت کے زیرک علماء،ولی اللہ،رفقا،سیاستدان اور معاصرین نے حضرت سندھی پراعتمادویقین ظاہرکرنےکے ساتھ انھیں قابل تقلید بھی جاناہے۔الغرض حضرت سندھی بزرگوں کے تربیت یافتہ،معتمد،پُرخلوص،شفیق ،عابد،عاجز ولی اللہ اور اہل بصیرت,علم و عمل میں گہرے،باصلاحیت، بےغرض،باہمت،نِڈر، حق گو، یَکسو اور پختہ عالم تھے۔ ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں کی علمی و عملی امانتوں کے امین بھی تھے۔ بہ الفاظِ دیگر حضرت سندھی رحمہ اللہ ایک حقیقی خداپرست اور انسان دوست تھے۔ اللہ رب العزت ہمیں ان کے فکر و عمل پر چلنے کی توفیق ارزاں عطا فرامائے ۔ آمین۔