سابق وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر اور بیٹی مریم نوازشریف وطن واپس پہنچے تو کیپٹن صفدر کو نیب نے گرفتار کرلیا۔ سوموار کو مریم صفدر نے احتساب عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے۔(اس کالم کی اشاعت تک وہ یقینا عدالت کے سامنے پیش ہوچکی ہوں گی) جبکہ اُن کے دونوں بھائیوں حسین نواز اور حسن نواز عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ میاں نوازشریف کی عدالت کے سامنے پیشی سے استثنا کی درخواست دی جائے گی۔ موجودہ سیاسی صورتِ حال پاکستانی سیاست کی مکمل غیریقینی صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہے۔ اس منظرنامے میںمسلم لیگ (ن) اپنے دفاع کے لیے بھرپور مزاحمت کرتی نظر آ رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف ہر حال، ہر طرح اور ہر ممکن طریقے سے مسلم لیگ (ن) کو حکومت سے علیحدہ کرنے کی ہر سعی کررہی ہے۔ اس حوالے سے عمران خان بڑے کھلے انداز میں متحرک ہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت ختم ہونی چاہیے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بعد اُن کے اقتدار کے راستے واضح ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) سے محاذ آرائی اُن کی سیاسی زندگی کے لیے اہم ہے، وہ اس محاذآرائی کو ہر لمحہ شدت دینے کے درپے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے 1988ء کے بعد مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی سے ہر طرح ہر وقت محاذآرائی میں پیش پیش تھی۔ عمران خان اس پولرائزیشن کو اپنی سیاسی زندگی سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اب پاکستان کی سیاست اسّی اور نوے کی محاذآرائی کی سیاست سے نکل کر میچور ہوچکی ہے، اُن کے لیے یہ صورتِ حال قابل غور ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں آپس میں محاذآرائی نہ کرنے کا جو معاہدہ (چارٹر آف ڈیموکریسی) کیا، وہ اس صورتِ حال میں منہ چڑاتا نظر آتاہے۔ اس کی وجہ ہمارے سیاسی اداروں کا جمہوری انداز میں مضبوط نہ ہونا اور جمہوریت کی سماجی، ثقافتی، معاشی اور فکری جڑیں کمزور ہونا ہے۔ اور اس کے ساتھ عوام کا کمزور سیاسی شعور اس کا سبب ہے۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری اس صورتِ حال اور گزشتہ چار سال سے، جب سے مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی ہے، کسی وقت حکومت سے دوستی کا ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں اور کبھی دو دو ہاتھ کرتے۔ اسی لیے اُن کے نقاد انہیں حکومت کی اپوزیشن تصور نہیں کرتے۔ آصف علی زرداری درحقیقت ہوا کا رخ دیکھ کر حکمت عملی بناتے ہیں۔ اُن کا ایک ہاتھ مخالف کی گردن پر ہوتا ہے کہ اگر مخالف دبوچ لیا جائے تو ٹھیک اور اسے اگر دبوچا نہ جا سکے تو دوسرا ہاتھ پائوں پر ہوتا ہے۔ اُن کی سیاست کی یہ تشریح مجھے چھے سال قبل چوہدری شجاعت حسین نے ایک خصوصی ملاقات میں بیان کی۔ یقینا آصف علی زرداری اس حکمت عملی میں بھرپور طریقے سے کامیاب ہیں۔ وہ پاکستانی سیاست کے Beneficiary ہیں۔ اپنے سسر کی جماعت کے وارث ہیں۔ اُن کی سیاست کی تاریخ ایک مکمل موضوع ہے۔ یقینا حالات وواقعات نے اُن کو اس سیاست کا وارث بنایا، لیکن دو پہلو بڑے اہم ہیں۔ ایک یہ کہ بھٹو خاندان کی سیاست کی Transition زرداری خاندان کو، دوسرا پہلو حکمرانی کی سیاست۔ وہ یہ راز پا گئے ہیں کہ اپنے پتے پھینکنے سے بہتر ہے کہ دوسرے کی سیاسی چالوں کے مطابق کھیلا جائے۔
وہ دوسروں کی سیاست کے تضادات جس میں ریاست کے حکمرانی کے تمام ادارے بھی شامل ہیں، سے کھیلنے کا فن جان گئے ہیں۔ وہ پاکستان کی محلاتی سیاست کے تانوں بانوں کو خوب جانتے ہیں، اسی لیے وہ اپنا کوئی سیاسی Initiative نہیں لیتے۔ 2008ء کے بعد اگر اُن کی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کی حکمرانی کی سیاست میں وہ سب سے زیادہ کامیاب سیاست دان ہیں۔ اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کے رہنما ہیں جس کی تاریخ عوامی جدوجہد سے عبارت ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ یہ بھی جان گئے ہیں کہ ’’سیاسی تواہم پرست‘‘ سماج میں لوگوں کی سیاسی وابستگیاں، سیاسی بتوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ پتھر وگارے سے بت بنا کر انسان اگر اس کو اپنا نعوذ باللہ مالک و خالق مان لیتا ہے تو سیاسی دیوتا تو پھر چلتے پھرتے ناخدا ہیں۔ بت پرست سماج کے سادہ لوح لوگ ایسی سیاست کا شان دار ایندھن ہوتے ہیں۔ اُن کو یہ بھی معلوم ہے کہ اُن کی جماعت 2008ء سے پہلے والی مقبولیت نہیں رکھتی، لیکن اُن کو یقین ہے کہ وہ اسی ’’مقبولیت کے سرمائے‘‘ سے مزید سیاسی چالیں چل سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چند سال قبل وہ فوج کے خلاف ایک شان دار بیان دیتے ہیں، وہ ہواکا رخ جانتے ہیں اور پھر غائب اور پھر صورتِ حال مناسب ہونے پر در آتے ہیں۔ وہ سیاسی ہوائوں کا رخ جاننے کا فن بھی رکھتے ہیں اور سیاست کے تضادات سے کھیلنے کا بھی۔ کسی وقت وہ مسلم لیگ (ن) پر تیر برساتے نظر آتے ہیں اور کسی وقت اُن کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے اپنی چھتری کے سائے تلے لیے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی طاقت کا ادراک رکھتے ہیں۔
وہ اپنی اس کم یا زیادہ طاقت سے، حکمرانی کی سیاست کے سب سے اہم کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے متعدد بار یہ ثابت کیا ہے کہ اگر تم (مسلم لیگ (ن) کی حکومت) میں کوئی دَم ہے تو وہ ہم سے ہے۔ وہ سیاسی جدوجہد، نظریے، فکر اور عملی جدوجہد کے مقابلے میں حکمت عملی کو سیاست سمجھتے ہیں کہ کب، کس وقت اور کیا چال چلنی ہے۔ وہ حکمرانی کے محلات کی سیاسی کمزوریوں سے بھی خوب آگاہ لگتے ہیں۔ اُن کو دوسرے کی ’’قدروقیمت‘‘ کا علم ہے۔ سیاست کے بازار کے دائو پیچ اُن پر ختم ہیں۔ جو لوگ اُن کی شکل میں ذوالفقار علی بھٹو کے متلاشی ہیں، وہ اُن کے بھی ساتھ ہیں اور جو ایسا نہیں دیکھنا چاہتے، اُن کے ساتھ بھی۔ 2008ء کے بعد حکمرانی کے عملی میدان میں انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے، وہ حکمرانی کے مراکز کے تضادات کو اس تجربے میں مزید جان گئے ہیں۔ اسی لیے وہ اتنا کھیلتے ہیں جتنا وہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے ہیں۔ وہ وقت سے پہلے بات کرنے کو طاقت کا ضیاع تصور کرتے ہیں۔ حکمرانی کی سیاست کی شطرنج نے اُن کومزید تجربہ کار کردیا ہے۔ اسی لیے وہ کسی سیاسی مہم جوئی، بلندوبانگ دعوے داری کی بجائے وقت کا اور ہوا کے رخ کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ اپنی پتنگ کو ہوا کے بہائو سے اڑانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اب اُن میں کوئی مائوزے تنگ، احمد سوئیکارنو یا بن بیلا ڈھونڈے تو یہ اس کی غلطی ہے، اُن کی نہیں۔ وہ موجودہ سیاسی وجمہوری ڈھانچے کو اپنی سیاست کے لیے شان دار میدان سمجھتے ہیں اور اسی پچ پر کھیلتے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ وقت کے تضادات کو اپنے لیے جب موافق سمجھیں گے۔ اُن کی دوستی کا ہاتھ جو متعدد بار موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں میں نظر آتا ہے، یکدم کسی ’’کرامات‘‘ کا مظاہرہ بھی کرسکتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں اُن کی سیاسی بقا اور مستقبل ہے۔ وہ یقینا ان انتخابات کے بعد اس کے اہم ترین Beneficiary ہوں گے۔ طاقت کے مراکز یقینا اپنا آخری کھیل 2018ء کے انتخابات کے بعد ہی کھیلیں گے۔ تب بڑے بڑے باغی سر نکالیں گے، اپنی ایمان داری، شفافیت کا طرہ اور کلغی سروں پر سجائے نظر آئیں گے۔ بعد از انتخابات اس منظرنامے میں وہ سب سے زیادہ مفادات کو چنیں گے اور وہ اسی دن کے انتظار میں ہیں۔ اُن کی سیاست، حکمرانی سے عبارت ہے۔ اور وہ حکمرانی کے مراکز کے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔ پاکستان کی سیاست، حکمرانی اور غلامی سے عبارت ہے۔ یہی وہ راز ہے جو وہ پا گئے ہیں۔