۱۔ حضرت عبیداللہ سندھیؒ یورپ کے سفر کے بعد روس کے بڑھتے ہوئے لادینی خطرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ آیٔے تھے۔آپ کا فرمانا تھا کہ امام شاہ ولی اللہؒکی تعلیم کی موجودگی میں روس کا لادینی فلسفہ کسی طور بھی ان پر اثر انداز نہ ہو ا اور پھر اس مشاہدے سے اسلام کی صداقت پر حق الیقین کا مقام حاصل ھو گیا۔
چونکہ روس کی لا دینی جماعت نے دیکھا کہ زار روس نے عیسائیت کے نام پر غریبوں پر بڑے بڑے ٹیکس لگائے تھے اور انہیں کنگال بنا دیا تھا اور مذہبی عالم یا پادری زار روس کے لیے دعا گو اور طرفدار تھے ، اس لیے عام غریبوں اور انقلاب لانے والے مزدوروں نے یہ سمجھ لیا کی شاید مذہب میں غریبوں کو کچلنا اور مسکین بنائے رکھنا اور امیروں کا عیاشیاں کرنا جائزہے،جس کی وجہ سے وہ مذہب سے اس قدر بیزار ہوئے کہ روس میں بادشاہت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ مذہب(عیسائیت ) کا خاتمہ بھی کر دیا، اور مزید ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ بشمول اسلام تمام مذاہب پر اپنے اس فیصلے کا اطلاق کر دیا۔
۲۔مگر اسلام کی تو بنیاد ہی انسانیت کی خدمت پر ہے۔ اسلام کی تحریک کی قبولیت مساوات یا نوع انسان کی ایک برادری یا برابری پر ہے جس کی وجہ سے اسلام نے فارس کی امیرانہ سلطنت اور قیصر روم کی زبردست بادشاہت کا خاتمہ کر کے وہاں پر غریبوں کی حکومت قائم کر دی۔یہ حکومتیں صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی اور مخلوق خدا کی خدمت کے لیے قائم کی گئیں۔ اسلام کی بنیاد ہی غریب پروری پر ہے۔ اس لیے غریبوں کی مدد کرنے کی حالت میں تو اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہر لمحہ پیش نظر رہتی ہے اور اسلام کی تحریک ملک میں چلا نے کا مطلب ہے غریبوں کی خدمت، اور غریبوںکی خدمت کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اللہ تعالیٰ کا اقرار۔
۳۔ یورپ کے اس لا دینی کے طوفان میں اللہ کے وجود کے متعلق ہزاروں شکوک وشبہات پیدا کیے جاتے ہیں، جن کے لیے حضرت سندھی ؒ کا ارشاد ہے کہ اس سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے یعنی کہ اسلامی تصوف۔ اسلامی تصوف میںچیزوں کی حقیقتوں ٔ سے بحث کی گئی ہے اور یہ کہ دنیا کی چیزوں کی اصل کیا ہے، ان کے سمجھنے سے پہلے خود شناسی اور پھر خدا شناسی پیدا ہوتی ہے جس کے بعد کافی شبہات رفع ہو جاتے ہیں۔
۴۔ حضرت مولاناسندھیؒ مرحوم کا ارشاد تھا کی یورپ کا انقلاب مادی انقلاب ہے۔ یورپ نے صرف مادہ ہی کو زندگی کا اصل مقصد سمجھ لیا ہے یعنی جو کچھ بھی ہے صرف دنیاوی چیزیں ہیں اور یہ ہی زندگی ہے جس میں سب کچھ ہے لیکن آگے چل کر یہ مادی انقلاب روحانیت کی طرف بھی ضرور توجہ مبذول کرائے گا اور انسان ان چیزوں کے پیچھے روحانیت کے متعلق بھی سوچنے لگیں گے۔
یعنی مولانا سندھیؒ کے نزدیک مادی تصور کی انتہا لازماً ہو گی اور رد عمل کے نتیجے میں حقیقی دینی انداز فکر ضرور پیدا ہو گا۔
جس کو تصوف کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے یا خود یہ سوچنا تصوف ہے اس سلسلے میں مولانا سندھی مرحوم کے اپنے الفاظ ہیں
ــ میں چاہتا ہوں کہ یورپ کی اس مادی ترقی کو تسلیم کر لیا جائے۔یعنی علم اور سائنس کی ترقیوں
کو ہم زند گی کی اساس کی حیثیت دیں۔لیکن یہ نہ سمجھیں کہ سائنس نے ساری زندگی
کا احاطہ کر لیا ہے۔بے شک سائنس نے مادی زندگی میں جو انکشافات کیے ہیں ،وہ سب
صحیح ہیں۔ لیکن زندگی صرف مادہ پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہ مادہ کسی اور وجود کا پرتو ہے
اور اس وجود کا مرکز ایک ذات ہے،جو خو د زندگی ہے اور زندگی کا سہارا اور باعث بھی
وہی ذات ـــالحی القیوم ہے۔ میںمادیت کے تصور کو سرے سے غلط نہیں مانتا، لیکن اسے
ناقص ضرور سمجھتا ہوں۔ مادی فکر کا منکر نہیں ہوں لیکن یہ جانتا ہوں کہ مادیت حقیقت کا
صرف ایک رخ ہے۔اور یہ رخ بے شک حقیقت کے ایک پہلو کا صحیح ترجمان ہے،لیکن
حقیقت کا ایک پہلو اور بھی ہے، جو مادہ سے ماورا اور بالاتر ہے۔ اس کو شرعی زبان میں؛ آخرت
کہا گیا ہے۔ زندگی کا مادی تصور حیات اس لحاظ سے ناقص ہے کہ وہ زندگی کے صرف ایک
پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔لیکن زندگی کا صحیح اور مکمل تصور: آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃحسنۃ:
ہے اور یہی تصور ہے جو زندگی کی ساری مادی اور ماورائے مادہ کائنات پر حاوی ہو سکتا ہیـ:
(مولانا عبیداللہ سندھیؒ، از محمد سرور۔ص۷۰)
مولانا عبیداللہ سندھیؒ صرف ذہن کو آگے بڑھانے کے لیے یورپ کی مادی سائنس یا مادیت کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان دنیاوی چیزوں کو زندگی کا مالک نہ سمجھا جائے بلکہ تھوڑا سا آگے بڑھ کر یہ تصور کیا جائے کہ زندگی صرف اس دنیا میں ہی ختم نہیں بلکہ اس سے باہر بھی ہے۔یہ ذات پاک ساری کائنات کے مرکزی نقظے کا حکم رکھتی ہے اسلام نے اس ذات پاک کو ماننے کے لیے صاف الفاظ میں حکم دیا ہے اور مسلمان صوفیاء نے اس کو دلائل اور حقائق کے ساتھ رموز و اثبات و امثال میں بھی سمجھایا ہے۔ گویا حقیقی تصوف اسلام کی روح سے آشنا کر دینے کا علم اور ایک فلسفہ ہے، جس کو سمجھنے کے بعد اسلام کی حقانیت میں کوئی الجھائو یا پیچیدگی نہیں رہتی۔
۶۔ حضرت مولانا صاحب کا ارشاد تھا کہ خدا شناسی کے لیے شاہ صاحب کی کتب ہمعات اور سطعات ابتدائی طور پر پڑھائی جائیں اور اس ارادے سے خود دہلی اور دار الرشاد پیر جھنڈا میں بیت الحکمت کی بنیاد رکھی اور ان کے شاگردوں میں سے کئی نوجوان عالم اس وقت اس کام میں مصروف ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ آواز انگریزی کالجوں تک پہنچائی جائے۔ اس طرح سے مادیت اور مذہب کا آپس میں اتحاد ہو جائے گا اور یورپ کی مادی ترقی کے ساتھ مسلمان نوجوان خدا شناسی کی نعمت سے مالامال ہو کر دنیا پر حکمرانی کرتا نظر آے گا۔