کتنے ہی لوگ موسیقی میں مسلمان عربوںکے کام کی نسبت یکسر غلط تاثر رکھتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ موسیقی کو مسلمان عربوں کے دورِحکومت میں بہت نظرانداز کیا گیا۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔اسلام کے عہدِعروج میںحکیم الفارابی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالمِ موسیقی تھا۔مغرب کے نامور موسیقی دان ایچ۔ای۔فارمر کے نزدیک الفارابی کی کتاب ’’الموسیقی الکبیر‘‘ سترھویں صدی تک مغرب کے موسیقاروں کے لیے مُوجبِ کشش رہی۔
الفارابی نے سن ۹۵۰ میں دمشق میں وفات پائی۔ اس کی تین شاہکار کتابیںموسیقی کے نظریے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ زبردست مغنّی تھا اور دُھنیں ترتیب دینے کے معاملے میں ذہنِ رسارکھتا تھا۔ حطّی بتاتا ہے: ’’ملاوی کے درویش اب بھی اس کی بنائی ہوئی دُھنوںمیں پرانے گیت گاتے ہیںاور وہ جس خوبصورتی سے بانسری بجاتا تھا اس کے بارے میں تو کئی افسانے سننے میں آئے ہیں۔اپنے مرّبی سیف الدّولہ کے دربار میں جب اس نے موسیقی کامظاہرہ کیا تو تمام سامعین کو مسحور کر لیااور ایک موقع پر تو اس نے دربانوں کو سُلا دیا۔‘‘
ابنِ سینا بھی موسیقی کے علم میں بہت دلچسپی لیتا تھا۔ راجر بیکن کے نزدیک وہ پہلا سکالر تھاجس نے موسیقی کی شفائی تاثیر کا اندازہ لگایا۔ حطّی جسے عرب فنِّ موسیقی کا بنیادی پتھّرکہتا ہے وہ اندلس میں رکھا گیا۔ یہ ۸۲۲ کی بات ہے۔ اس نے رباب میں پانچویں تار کااضافہ کیااور موسیقی کی درسگاہ بھی قائم کی۔ بعد ازاںطَلَیطَلہ، بلنسیہ(ویلینشیا) اور غرناطہ میں درسگاہیں کھُل گئیں۔ سب میں سے اہم ترین درسگاہ اشبیلیہ میںکھلی۔
اشبیلیہ نے موسیقی کے آلات تیار کرنے کی وجہ سے شہرت پائی اور ان مصنوعات کی برآمد کو فروغ دیا۔ مغنّیوں کے نزدیک اشبیلیہ کو وہی مقام حاصل تھاجو علماء کے لیے قرطبہ کو حاصل تھا۔
غالباً عیسائی راہب ایڈ یلارڈآف باتھ وہ پہلا شخص ہے جس نے سب سے پہلے لاطینی دُنیا کو عربی موسیقی کے نظریات سے آگاہ کیا۔ اس شخص نے ریاضی پر کئی عربی کے شاہکاروں کا ترجمہ کیا۔ ان میں سے الخوارزمی کی ایک کتاب میں ایک فصل موسیقی پر تھی۔عیسائی راہب نے بارھویں صدی کے نصفِ اوّل میں پیرس میں موسیقی کا مطالعہ کیا۔ یہاں اسے موسیقی کے موضوع پر کئی ایسے یونانی قلمی نسخے ملے جن کا ترجمہ مسلمان علماء نے کیا تھا۔
تیرھویں صدی کے آخر میں عیسائیوں کی موسیقی میں ایک یکسر نیا اصُول کارفرما ہوا جسے مسلمان علماء نے رواج دیا تھا۔ یہ تال کا اصول ہے جس کے مطابق سُر مقررہ وقفے سے لگائے جاتے ہیں۔ سُر تال کا یہ قاعدہ مدّت سے عربی موسیقی کا جُزوِ لا ینفک تھا۔
فلپ حطّی لکھتا ہے۔
’’سُر تال کی موسیقی اس شعبۂ علم میں عربوں کا عظیم ترین کارنامہ ہے لیکن ایک اسی کارنامے پر کچھ موقوف نہیں۔ عربوں نے مغربی یورپ کو دو ایسے ساز دیے جن سے فنِّ موسیقی کے فروغ میں سب سے زیادہ مدد ملی۔ ایک کا نام عُود تھا (اسے اندلسی زبان میں لاڈ کہتے) اور دوسرے کا نام رباب تھا ( جسے اندلسی دبیل کہتے)‘‘
حطّی ایسے دوسرے سازوں کی بھی فہرست دیتا ہے جو آج بھی یورپ میں مقبول ہیںاور جنھیں عربوں نے ایجاد کیا۔ ان میں ڈھول، طنبورہ، جھانجی اور کٹار کا نام شامل ہے۔ بلاشبہ رباب وہ ساز ہے جو مغربی سازوں میں مقبول ترین سازاور وائلن کا پیشرو ہے۔
مغربی موسیقی پر عربوں کے اثرات، نظریے اور حکمت کی بناء پر نہیں بلکہ اس لیے ہیں کہ لوگ عربی موسیقی پسند کرتے تھے ۔ ایک جانب تو اندلس کے عیسائیوں نے عربوں کے لائے ہوئے گیت اور شعر پسند کیے، دوسری جانب یکساں طور پر عربی غزلوں کی دُھنیں اور سُر تال قبول کیے اور اس سے لُطف اندوز ہوئے۔ اسپینی رِیوَیرا کی تازہ تحقیقات سے اس امر کا اشارہ ملتا ہے کہ تیرھویں صدی اور اس کے بعدپورے جنوب مغربی یورپ کی مقبولِ عام موسیقی کا اصل اندلسی مسلمانوں کی موسیقی ہے۔ اندلس ہی سے اس کا سراغ عرب میں جا ملتا ہے۔ اگر عرب علماء ایرانی، باز نطینی اور یونانی ماخزوں کو محفوظ نہ کرلیتے اور اپنی طبعی ذہانت کی بدولت انھیں اپنے اسلوب میں ڈھال نہ لیتے تو وہ کامل طور پر مغرب میں گُم ہو چکے ہوتے۔