• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
عرب اور موسیقی — تحریر: نور احمدعرب اور موسیقی — تحریر: نور احمدعرب اور موسیقی — تحریر: نور احمدعرب اور موسیقی — تحریر: نور احمد
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

عرب اور موسیقی — تحریر: نور احمد

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • عرب اور موسیقی — تحریر: نور احمد
قومی ،غذائی، اخلاقی اور تخلیقی صلاحیتوں کا سیاسی نظام سے باہمی رشتہ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
مارچ 6, 2017
میرے چار دوست، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید(1) — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
مارچ 8, 2017
Show all

عرب اور موسیقی — تحریر: نور احمد

کتنے ہی لوگ موسیقی میں مسلمان عربوںکے کام کی نسبت یکسر غلط تاثر رکھتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ موسیقی کو مسلمان عربوں کے دورِحکومت میں بہت نظرانداز کیا گیا۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔اسلام کے عہدِعروج میںحکیم الفارابی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالمِ موسیقی تھا۔مغرب کے نامور موسیقی دان ایچ۔ای۔فارمر کے نزدیک الفارابی کی کتاب ’’الموسیقی الکبیر‘‘ سترھویں صدی تک مغرب کے موسیقاروں کے لیے مُوجبِ کشش رہی۔
الفارابی نے سن ۹۵۰ میں دمشق میں وفات پائی۔ اس کی تین شاہکار کتابیںموسیقی کے نظریے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ زبردست مغنّی تھا اور دُھنیں ترتیب دینے کے معاملے میں ذہنِ رسارکھتا تھا۔ حطّی بتاتا ہے: ’’ملاوی کے درویش اب بھی اس کی بنائی ہوئی دُھنوںمیں پرانے گیت گاتے ہیںاور وہ جس خوبصورتی سے بانسری بجاتا تھا اس کے بارے میں تو کئی افسانے سننے میں آئے ہیں۔اپنے مرّبی سیف الدّولہ کے دربار میں جب اس نے موسیقی کامظاہرہ کیا تو تمام سامعین کو مسحور کر لیااور ایک موقع پر تو اس نے دربانوں کو سُلا دیا۔‘‘
ابنِ سینا بھی موسیقی کے علم میں بہت دلچسپی لیتا تھا۔ راجر بیکن کے نزدیک وہ پہلا سکالر تھاجس نے موسیقی کی شفائی تاثیر کا اندازہ لگایا۔ حطّی جسے عرب فنِّ موسیقی کا بنیادی پتھّرکہتا ہے وہ اندلس میں رکھا گیا۔ یہ ۸۲۲ کی بات ہے۔ اس نے رباب میں پانچویں تار کااضافہ کیااور موسیقی کی درسگاہ بھی قائم کی۔ بعد ازاںطَلَیطَلہ، بلنسیہ(ویلینشیا) اور غرناطہ میں درسگاہیں کھُل گئیں۔ سب میں سے اہم ترین درسگاہ اشبیلیہ میںکھلی۔
اشبیلیہ نے موسیقی کے آلات تیار کرنے کی وجہ سے شہرت پائی اور ان مصنوعات کی برآمد کو فروغ دیا۔ مغنّیوں کے نزدیک اشبیلیہ کو وہی مقام حاصل تھاجو علماء کے لیے قرطبہ کو حاصل تھا۔
غالباً عیسائی راہب ایڈ یلارڈآف باتھ وہ پہلا شخص ہے جس نے سب سے پہلے لاطینی دُنیا کو عربی موسیقی کے نظریات سے آگاہ کیا۔ اس شخص نے ریاضی پر کئی عربی کے شاہکاروں کا ترجمہ کیا۔ ان میں سے الخوارزمی کی ایک کتاب میں ایک فصل موسیقی پر تھی۔عیسائی راہب نے بارھویں صدی کے نصفِ اوّل میں پیرس میں موسیقی کا مطالعہ کیا۔ یہاں اسے موسیقی کے موضوع پر کئی ایسے یونانی قلمی نسخے ملے جن کا ترجمہ مسلمان علماء نے کیا تھا۔
تیرھویں صدی کے آخر میں عیسائیوں کی موسیقی میں ایک یکسر نیا اصُول کارفرما ہوا جسے مسلمان علماء نے رواج دیا تھا۔ یہ تال کا اصول ہے جس کے مطابق سُر مقررہ وقفے سے لگائے جاتے ہیں۔ سُر تال کا یہ قاعدہ مدّت سے عربی موسیقی کا جُزوِ لا ینفک تھا۔
فلپ حطّی لکھتا ہے۔
’’سُر تال کی موسیقی اس شعبۂ علم میں عربوں کا عظیم ترین کارنامہ ہے لیکن ایک اسی کارنامے پر کچھ موقوف نہیں۔ عربوں نے مغربی یورپ کو دو ایسے ساز دیے جن سے فنِّ موسیقی کے فروغ میں سب سے زیادہ مدد ملی۔ ایک کا نام عُود تھا (اسے اندلسی زبان میں لاڈ کہتے) اور دوسرے کا نام رباب تھا ( جسے اندلسی دبیل کہتے)‘‘
حطّی ایسے دوسرے سازوں کی بھی فہرست دیتا ہے جو آج بھی یورپ میں مقبول ہیںاور جنھیں عربوں نے ایجاد کیا۔ ان میں ڈھول، طنبورہ، جھانجی اور کٹار کا نام شامل ہے۔ بلاشبہ رباب وہ ساز ہے جو مغربی سازوں میں مقبول ترین سازاور وائلن کا پیشرو ہے۔
مغربی موسیقی پر عربوں کے اثرات، نظریے اور حکمت کی بناء پر نہیں بلکہ اس لیے ہیں کہ لوگ عربی موسیقی پسند کرتے تھے ۔ ایک جانب تو اندلس کے عیسائیوں نے عربوں کے لائے ہوئے گیت اور شعر پسند کیے، دوسری جانب یکساں طور پر عربی غزلوں کی دُھنیں اور سُر تال قبول کیے اور اس سے لُطف اندوز ہوئے۔ اسپینی رِیوَیرا کی تازہ تحقیقات سے اس امر کا اشارہ ملتا ہے کہ تیرھویں صدی اور اس کے بعدپورے جنوب مغربی یورپ کی مقبولِ عام موسیقی کا اصل اندلسی مسلمانوں کی موسیقی ہے۔ اندلس ہی سے اس کا سراغ عرب میں جا ملتا ہے۔ اگر عرب علماء ایرانی، باز نطینی اور یونانی ماخزوں کو محفوظ نہ کرلیتے اور اپنی طبعی ذہانت کی بدولت انھیں اپنے اسلوب میں ڈھال نہ لیتے تو وہ کامل طور پر مغرب میں گُم ہو چکے ہوتے۔

مناظر: 263
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

مئی 2, 2020

تسخیر فطرت یا بقائے باہم — تحریر: پروفیسر ڈاکٹر امجد علی شاکر


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ