لوگ اپنا گھر علاقہ اور محلہ بدلتے رہتے ہیں،دنیا بھر میں دیہات سے شہروں کی اور کبھی کبھی شہروں سے دیہات کی جانب نقل مکانی جاری رہتی ہے۔ ایسا کونسا شخص ہے جو اپنے آپ کوآسائشوں سے دو ر رکھنا چاہتا ہے۔ جس کسی کے پاس دولت آتی ہے وہ مہنگے شہری علاقوں کی جانب رجوع کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی تیزی سے ہونے والی اربنائزیشن کی وجہ بھی یہی ہے۔ شہری آبدی کے پھیلائو میں لاہور نے دوسرے شہروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اس وقت لاہور کا اربن ایریا 81فیصد اور دیہی صرف 19فیصد رہ گیا ہے۔ کراچی اور دوسرے شہروں میں اگرچہ شرح نمو بعض سالوں میں نقل مکانی کے باعث 5فیصد ر ہی ہے۔ لیکن وہاں بھی شہری اربنائزیشن کا تناسب 70فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکا۔ آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی ،اس لئے ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم ہیں کتنے۔ جب ہمیں اپنی تعداد اپنے ہاں ناخواندہ اور خواندہ بچوں اور افراد سمیت کسی بھی تعداد کا صحیح علم ہی نہیں ہے توہم جو پالیسی بھی بنائیں گے اس کی کامیابی ممکن نہیں۔ غلط اعداد و شمار کی بنیاد پر مرتب کی جانے والی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ شہروں کی ترقی جانچنے کے 5پیمانے ہیں۔ وہاں سیاسی و سماجی استحکام کتنا ہے، صحت عامہ ، تعلیم، انفراسٹرکچر، ثقافت اور ماحول کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے نئی دہلی کا نمبر 140میں سے 110تھا۔ جس سے پتہ چلا کہ نئی دہلی ناصرف آسٹریلیا یورپ اور امریکہ سے بہت پیچھے ہے بلکہ یہ آذر بائیجان کے شہر باقو ،فلپائنی شہر منیلا اور تیونس سے بھی بہت پیچھے ہے۔ اس سروے میں 140ممالک کی فہرست میں کراچی کا نمبر 135تھا۔
آخری نمبر پر دمشق تھا۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2030ء تک اربنائزیشن کی رفتار جنوبی ایشیا میں سب سے تیز ہوگی۔ یعنی جنوبی ایشیائی ممالک میں اربنائزیشن امریکہ ، یورپ اور آسٹریلیا سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرے گی۔ اور 2030ء تک مزید 30کروڑ لوگ بڑے شہروں اور ٹائونز میں رہائش پذیر ہوں گے۔ پہلے سے دبائو کا شکار شہری آبادیاں 30کروڑ مزید افراد کی شمولیت کے باعث خوفناک بحران سے دو چار ہوں گی۔ 1980ء کی دہائی میں زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک دوست پیر اعجاز ہاشمی امریکہ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو وہاں سب سے حیرت ناک بات کیا لگی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں انھیں ایک افسر کے کمرے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جس میں کئی لائٹس لگی ہوئی تھیں جن کے نیچے درج اعداد و شمار مسلسل بدل ہو رہے تھے۔ ہاشمی صاحب نے امریکی افسر سے اس بارے میں استفسار کیا، افسر نے بتایا کہ دراصل یہ اعداد و شمار ریاست میں ہونے والی پیداوار،اس کے استعمال ، آبادی اور اس کی ضروریات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی مدد سے انھیں ہر گھنٹے میں اپنی ریاست میں دستیاب خوراکی مصنوعات اور اس کی ضروریات کا علم ہو رہا ہے۔ وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ کتنے لوگ بذریعہ ٹرین جہاز یا کار ان کی ریاست سے نکل گئے ہیں۔ اسی عرصے میں امریکہ میں داخل ہونے والے تمام افرادکی تعداد کا بھی انھیں علم تھا۔یہ تمام نظام کمپیوٹر سے منسلک تھا۔
ریاست میں آنے جانے والوں کی تعدادکمپیوٹر میں مسلسل اپ ڈیٹ ہو رہی تھی۔ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق ہونے کی صورت میں وہ فوری طور پر انتظام کرتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں کیا ہے۔ ہماری ہر ’’شماری‘‘ اندازہ تھی۔ کچھ علاقے اور معاشی طبقات وغیرہ منتخب کر لیے، تیس چالیس ہزار افراد سے کوئی سروے کر لیا جس کی بنیاد پر سماجی اشاریے جاری کر دئیے جاتے ہیں۔ ابھی تک تو ہمیں صحیح طریقے سے یہی نہیں معلوم کہ لاہور کی آبادی کتنی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ بائیس لاکھ اور دوسری رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ کراچی کے رہائشی اپنے شہر کی آبادی کو ڈھائی کروڑ سے تین کروڑ تک بتا رہے ہیں۔ ایک سابقہ مردم شماری میں ایک چھوٹے شہرکی آبادی کو دس گنا زیادہ بتادیا گیا تھا۔ یہی وہ خوف ہے جو مردم شماری کے حوالے سے ہم سب پر جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے عام انتخابات سے قبل مردم شماری کا حکم دیا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ واقعی حقیقت پسندانہ ہوتی ہے یا زیادہ سے زیادہ وسائل کے حصول کی خاطر ہر شہر کے لوگ اپنے اپنے شہر کی آبادی کو بڑھا چڑھا کر شامل کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ شہروں کی طرف نقل مکانی ، آبادی کے پھیلائو زرعی پیداوار میں کمی اور شہری سہولتوں کے فقدان کا باعث بن رہی ہے لیکن صرف پاکستان ہی نہیں، تمام ترقی پذیر ممالک کو ایسے ہی بحران کا سامنا ہے۔ سب صحرائی امریکی ممالک کا عالمی جی ڈی پی میں حصہ تین فیصد لیکن شہری آبادی نو فیصد تھی۔ جو وہاں شہروں میں غربت کی نشاندہی کرتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر شہر بدترین اربنائزیشن اور غربت، کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سری لنکا اور بھوٹان نے انتہائی غربت پر کافی حد تک قابو پالیا ہے۔ تاہم پاکستان، بھارت،بنگلہ دیش ، نیپال، افغانستان میں شہری آبادی کا تناسب غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ پاکستان کے شہروں میں ہر 8واں آدمی اور افغانستان میں ہر چوتھا شخص غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ مشرقی بعید اور یورپی ممالک میں شہری صورتحال اچھی ہے۔ جس سے عالمی اشاریے بہتر دکھائی دے رہے ہیں۔بھارت پاکستان میں کم از کم 13 کروڑ افراد بدترین رہائشی صورتحال سے دو چار ہیں۔ ناقص تعمیرات ، غیر محفوظ عمارتیں اور ماحول سماجی خدمات سے محروم بستیاں ان افراد کا مسکن ہیں۔یہ لوگ باوقار شہری زندگی کی استعاعت ہی نہیں رکھتے۔ گھریلوں آمدنی کا داروامدار زیادہ سے زیادہ مردوں پر ہونے کے باعث ذرائع آمدنی محدود ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک کی یہ پسماندہ بستیاں ناقص منصوبہ بندی کی بھی علامت ہیں۔
حیرت انگیز طور پر بنگلہ دیش ، بھارت نیپال اور پاکستان کے بعض شہری علاقوں میں 5سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات دیہی بستیوں سے زیادہ ہے۔ اربن علاقوں کی آلودگی ، متعدد بیماریوں کا سبب ہے۔ دہلی کا شمار دنیا کے گندے ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ جس کی آلودگی کا تناسب بیجنگ سے 3گنا زیادہ ہے۔ اسی دہلی شہر میں دنیا کے سب سے گنجان آباد شہر ہونے کا اعزاز میں حاصل کیا ہے۔ کم از کم تین کروڑ لوگ کچی آبادیوں میں مقیم ہیں۔ پاکستان میں صاف پانی کے استعمال میں 1990ء کے مقابلے میں 2015ء میں کمی آئی۔ 2015ء میں 94فیصد کو صاف پانی کی سہولت میسر تھی جبکہ 1990ء میں ان کا تناسب 96فیصد تھا۔ تاہم اسی عرصے میں پائپوں کے ذریعے پانی کی سپلائی 51فیصد سے بڑھ کر 61فیصد ہوگئی۔ صرف 10فیصد گندے پانی کو ٹریٹ کیا جارہا تھا۔ گڈاب ٹائون میں 20فیصد نالے کھلے ہوئے تھے۔ 54فیصد فضلہ کھلے عام پھینکا جارہا تھا۔ 12فیصد کو جلایا جارہا تھا۔ 24فیصد فضلہ مختلف گلی محلوں کے لوگ پھینک رہے تھے۔ جبکہ میونسپل کمیٹیاں صرف 10فیصد فضلہ اٹھارہی تھیں۔