جزوی امن و امان کے کم و بیش دو سال گزارنے کے بعد ایک بار پھر وطن عزیز انسانیت دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ قیامت یہ کہ نہ تو حلقہ یاراں روش بدلنے کو تیار نظر آتا ہے اور نہ ہی رویوں میں تبدیلی آئی ہے۔ ہوا ہے تو صرف یہ کہ اب کی بار دشمن ایک نئی گھناؤنی حکمت عملی سے میدان میں اترا ہے۔ چند دنوں میں پے در پے دھماکے اس بات کا شبوت ہیں کہ امن کے متلاشیوں کا امتحان ختم نہیں ہوا۔ کارروائیوں کی تعداد، اہداف کے چناؤ اور دہشتگردی کے طریقہ واردات دہشتگردوں کی ایک نئی حکمت عملی کا پتہ دے رہے ہیں۔
اس سے پہلے یہ دہشتگرد کارروائیاں درحقیقت فورتھ جینریشن اربن وارفیئر (جو مشہور زمانہ گوریلا جنگ کی ترقی یافتہ شکل ہے) کی غمازی کرتی تھیں۔ جبکہ شاید امن کے وقفے، اور اس وقفے کے دوران ملکی، سماجی، سیاسی اور انتظامی سطح پر ریاست کے غیرمستحکم بیانیے، تبدیل ہوتی ہوئی کاؤنٹر ٹیررازم حکمت عملی اور سیاسی اشرافیہ کا مکروہ کردار، وہ بنیادی عوامل ہیں، جن کی بدولت دہشتگرد عناصر کو اپنی بنیادی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کا موقع ملا۔ اب کی بار دہشتگردوں کے حملوں میں اہم چیز جو سامنے آئی ہیں، وہ دور افتادہ، کم ترقی یافتہ اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے کمزور اہداف کا چناؤ ہے۔
کسی بھی دہشتگرد کارروائی کے پیچھے چھپے بنیادی مقاصد میں خوف و ہراس پھیلانا، زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچاکر اپنے مقابل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردینا اور لوگوں کو مسلسل خوف کی کیفیت کا شکار کردینا اہم ہیں۔ اپنے تبدیل شدہ اہداف سے دہشتگرد یہ تینوں نتائج حاصل کرنے میں خاطرخواہ کامیاب رہے ہیں۔ دہشتگردی کی پچھلی کارروائیوں میں اہداف اہمیت اور حیثیت کی بنیاد پر چنے جاتے تھے۔ اس کے لیے قومی و صوبائی دارالحکومت ہی زیادہ تر نشانے پر رہے۔ جبکہ حالیہ حملوں میں دہشتگردوں کا واضح انتخاب ایسے مقامات رہے جہاں جانی نقصان زیادہ سے زیادہ ہو۔
یہ اہداف حاصل کرنے کے لیے دورافتادہ اور کمزور انفراسٹرکچر والی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کی وجہ سے اولا خودکش حملے میں جانی نقصان کافی حد تک زیادہ ہوا اور دوسرے مرحلے میں ناقص ریاستی مشینری کی بدولت انسانی جانوں کو بچایا نہ جا سکا۔ دشمنوں کے اس بدلتے رجحان کو دیکھتے ہوئے قومی و صوبائی سطح پر سیکیورٹی اور اینٹی ٹیررزم پالیسی پر نظرثانی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
انہی دہشتگرد کارروائیوں کے ایک نفسیاتی ری ایکشن متشدد جذبات ہیں۔ گو کہ ہمارے ملک میں دہشتگردی کی بنیادی وجوہات میں متشدد دینی رویے ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں مگر اہل نظر جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں دہشتگردی ایک باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے، جس کی بدولت سامراجی عناصر پوری دنیا پر اپنے مقاصد اور اہداف حاصل کرتے ہیں۔ کسی بھی اور بزنس کی طرح، جہاں ایجادات کے ذریعے منافع اور کاروباری مقاصد کا حصول جاری رہتا ہے، اسی طرح بطور صنعت دہشتگردی میں بھی نت نئے طریقے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کی واضع مثال پاکستان ایسے جہالت سے بھرپور معاشرے میں مزید شدت پسند رویوں کی ترویج ہے۔
اس کارخیر میں میڈیا، مُلا، سول سوسائٹی، دانشور، غرض کہ ہر طبقہ شامل ہے۔ ایک گروہ ایسے طبقات کا ہے، جن کے نزدیک ہر اختلاف کرنے والا کافر اور واجب القتل ہے، جبکہ دوسرا ایسا طبقہ بھی ہے، جو ہر صاحب جُبہ و دستار کو طعنوں سے چھلنی کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اس کی واضح مثال سانحہ سہون شریف کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جہاں اس سانحے کی مذمت اور ریکوری کے لیے مختلف فرقوں میں آپس کا بغض واضح ہوا، وہیں نام نہاد انسانی حقوق کے بیوپاریوں کی سانحے کی مذمت کے لیے رقاص زبان زدعام ہیں۔ کسی بھی مسلکی، مذہبی یا لبرل پیرائے کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہر ذی ہوش انسان اس بات پر متفق ہوگا کہ مابعد سانحات، ریکوری ہی بنیادی ہدف ہونا چاہیے۔ کسی ظلم پر مذمت نہ کرنے والا بھی اتنا ہی ننگ انسانیت ہے، جتنا لاشوں پر صوفیت کی عبا پر رقص کرنے والا۔ انسانیت کا بنیادی تقاضا تو واضح ہے کہ دکھے دلوں کو ہمدردی، محبت اور رحم کے ذریعے غم کی وادیوں سے نکالا جائے، نہ کہ ان پر کسی بھی صورت نمک پاشی کی جائے۔
ہمارے سماج کو لاحق بنیادی خطرات میں سے ایک بہت اہم خطرہ ہر طرح کی شدت پسندی ہے۔ یہ صرف مذہبی طبقے تک محدود نہیں، بلکہ اس غلام قوم کے بہ ظاہر لبرل اور سیکولر طبقات بھی بدترین متشدد ذہنیت کے حامل ہیں۔ ظرہ یہ کہ مُلا کو شدت پسندی کی توجیح شریعت کے خودساختہ ماڈل سے مل جاتی ہے اور لبرل اپنی شدت پسندی کا جواز مُلا کی شدت پسندی اور جدید فکر کی من پسند تشریح میں تلاش کر لیتا ہے۔