مشرقی یورپ میں اشتراکی ریاستوں کے خاتمے اور سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد عالمی سطح پرسرمایہ دار دنیا کے سرخیل دانشوروں نے اِسے تاریخ کا خاتمہ قرار دیا اور یہ اعلان ہوا کہ سوشلزم ناکام ہوگیا اور یہ کہ دنیا کا مستقبل سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے۔ پاکستان میں بھی یہی اعلان ہوا۔ ایک لحاظ سے اس اعلان کو یہاں اس لیے حتمی فیصلہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان وافغانستان میں اشتراکی دنیا اور سرمایہ دار دنیا نے اپنی آخری عسکری جنگ لڑی جس میں افغانستان Battlefield بنا۔پاکستان میںاس جنگ کو جہادِافغانستان قرار دیا گیا اور پاکستان سرمایہ دار دنیا کا جنگی Base Camp بنا۔ ’’کفرواسلام‘‘ کی اس جنگ میں پاکستان عالمی سرمایہ دار دنیا کا ہراول دستہ تھا اور افغانستان اشتراکی دنیا کا فیصلہ کن میدان۔
اس دوران پاکستان کی اندرونی سیاست میں اشتراکیت، سیکولر تو کجا، جمہوریت بھی کفر قرار دی گئی اور 1977ء سے 1985ء تک سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے دی گئیں۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست 1947ء کے بعد زیرعتاب ہی رہی، اس کی وجہ ہمارے پڑوس میں مائوزے تنگ کی قیادت میں چین میں اشتراکی انقلاب کا برپا ہونا اور کچھ ہی دور دنیا میں اشتراکیت کا بڑا مرکز سابق سوویت یونین تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو اس کیمپ میں داخل کیا جہاں Containment of Communism کی پالیسی عمل پذیر کی گئی۔ 1947ء تک برصغیر میں اشتراکی سیاست اس قدر بڑا جرم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تک بڑے بڑے اسلامی مذہبی علما بھی اشتراکی سیاست میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ 1947ء کے بعد اسے مکمل کفر اور الحاد قرار دے دیا گیا۔ راولپنڈی سازش کیس اشتراکی سیاست کو دفنانے کی سب سے بڑی ریاستی کوششوں کا آغاز تھا جس میں فیض احمد فیض جیسے شاعروں اور ادیبوں کو فوجی بغاوت برپا کرنے کے الزام میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں اشتراکی سیاست مغربی پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر صورتِ حال میں تھی لیکن بعد اسے شیخ مجیب کی تنگ نظر بنگالی قوم پرستی نگل گئی۔ مغربی پاکستان میں اشتراکی سیاست کرنے والے لوگ زیرزمین سیاست کرنے پر مجبور ہوئے اور ایک بڑا حصہ پشتون قوم پرستوں کی نیپ (National Awami Party) میں شامل ہوگیا اور اسے اپنا پلیٹ فارم قرار دیا۔ نیپ (NAP)میں پشتون قوم پرستی غالب تھی، اس لیے یہاں اشتراکی سیاسی کارکنوں کا درجہ اور مقام وہ نہیں تھا جو پشتون قوم پرستوں کو حاصل تھا۔ نیپ کی قیادت اس تنازع میں اپنے آپ کو افغان قیادت اور اشتراکی ممالک میں تعلقات اور چند ایک سیاسی مفادات کی حد تک استعمال کرتی رہی۔ پشتون قیادت باچا خان اور ولی خان، اوپری طبقات سے تعلق رکھتے تھے اُن کا تصورِ سیاست قبائلی اور قوم پرست تھا، طبقاتی اور سوشلسٹ نہیں۔ نیپ میں پناہ گزین ترقی پسندوں کو پشتون قوم پرستی نے اپنے وزن تلے دبائے رکھا۔
پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کا مزید مشکل دور جنرل ایوب خان کی آمریت میں شروع ہوا۔ پاکستان میں سوشلسٹ ہونے کا مطلب کافر ہی نہیں بلکہ غدار قرار دیا جاتا تھا۔ اس تصور اور پالیسی کی ریاست نے سرپرستی کی۔ مگر اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ روزِاوّل سے ایک طرف جہاں اشتراکی سوشلسٹ یا ترقی پسند سیاست ممنوع قرار دی گئی، وہیں پر ترقی پسند، سوشلسٹ اور اشتراکی دانشوروں نے ادب، علم وفکر، ڈرامہ اور شاعری کے میدان میں اپنی سرگرمی برقرار رکھی۔ ریاستی ایوانوں کے دروازے اُن پر بھی بند رہے۔ اُن کی قسمت میں زنداں لکھے گئے لیکن ان دانشوروں نے علم وآگہی کا سفر جاری رکھا۔
اسی لیے پاکستان کا بڑا ادب انہی سوشلسٹ، اشتراکی اور ترقی پسند دانشوروں کے مرہون منت ہے۔ اشتراکی دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور مصنفین کے خلاف جہاں ایوبی آمریت نے آمرانہ قوانین کے ذریعے دبانے کا عمل جاری رکھا، وہیں ترقی پسند ادیبوں کو Contain کرنے کے لیے ایوبی فوجی سرکار نے سرکاری ادیبوں کی فصل اگانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے قدرت اللہ شہاب کو ذمے داری سونپی گئی۔ اُن کی سرپرستی میں ترقی پسند ادیبوں کو Contain کرنے کے لیے رجعتی ادیبوں کی ایک بڑی فصل تیار کی گئی۔ آزادی کے بعد اشتراکی سیاسی گروہ اور ادیب اپنے اپنے تئیں سرگرمِ عمل رہنے کے لیے کوشش کرتے رہے، لیکن سنگین پابندیوں کے سائے میں۔ اس کشمکش میں جہاں ریاستی سرپرستی میں اشتراکی سیاست کفر اور غداری قرار دی جاتی تھی اور ترقی پسند ادیب ، سیم وتھور قرار دئیے جاتے تھے، مگر اس دوران 1966-67ء میں پاکستان میں پہلی عوامی تحریک نے جنم لیا۔ اس عوامی تحریک کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔
اس عوامی تحریک کے بطن سے پاکستان پیپلزپارٹی نے جنم لیا اور یوں سوشلزم مین سٹریم کی سیاست کا ایک عنوان بن کر سامنے آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی میں جن ترقی پسندوں نے ہراول دستے کے طور پر کردار ادا کیا، اس میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کو سرد جنگ کے زمانے میں مائوئسٹ یا چین نواز کہا جاتا تھا۔ روس نواز زیادہ تر لوگ، نیپ اور دیگر قوم پرست جماعتوں اور تحریکوں میں شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی نے پاکستان میں جب ترقی پسند یا سوشلسٹ سیاست کو عوامی سطح پر منوا لیا تو وہ روس نواز ترقی پسند جو نیپ (NAP)سمیت دیگر قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں میں شامل تھے، اپنی اپنی جماعتوں کی قوم پرست قیادت کے فیصلوں کے تابع ہوتے ہوئے نہ صرف پی پی پی کے مخالف ہوئے بلکہ Anti-Bhuttoسیاست کا حصہ بنے۔ اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو 1971ء میں پی پی پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد جہاں مذہبی سیاسی جماعتیں، بھٹو کے خلاف صف آراء ہوئیں، وہیں ہمیں قوم پرست اور ان کے زیر سایہ متعدد ترقی پسند گروپ بھی متحرک نظر آئے۔
اور یوں ان ترقی پسندوں کی سیاست درحقیقت قوم پرستی تلے دب گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو ترقی پسندمگر پاپولسٹ سیاست کے راہی ہوئے اور اقتدار میں آنے کے بعد مفاہمت کا شکار اور پھر وہ خود انہی کا شکار ہوئے جن کے ساتھ انہوں نے مفاہمت کی، پہلے اقتدار سے ہاتھ دھوئے اور پھر جان گنوا بیٹھے۔ زنداں میں بیٹھ کر انہوں نے اسے اپنی غلطی قرار دیا جس کا ذکر انہوں نے زنداں میں ہی لکھی اپنی کتاب “If I Am Assassinated”میں کیا۔مگر افسوس اب تک پُلوں تلے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔
پاکستان عالمی سرمایہ داری کا فیصلہ کن ہراول دستہ بنا۔ جنرل ضیا اس جہاد کا سب سے بڑا ’’خاموش مجاہد‘‘ تھا۔ اس نے ایک طرف افغانستان میں اشتراکیوں کو ناکوں چنے چبوانے کا آغاز کیا اور دوسری طرف پاکستان میں بچی کھچی ترقی پسند سیاست کو دفنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ترقی پسند دانشوروں کو پاکستان کے لیے سیم و تھور قرار دیا۔ 1977ء کے بعد پاکستان میں اس ریاستی سرپرستی کو مزید جِلا بخشی گئی جس کا آغاز جنرل ایوب خان نے کیا۔ ذرا غور کریں کہ جنرل ایوب خان جو کہ لبرل فوجی ڈکٹیٹر تھا اور جنرل ضیا ایک مذہبی فوجی ڈکٹیٹر دونوں نے ہی اس ’’سیم وتھور‘‘ کو کہیں بھی پنپنے کا موقع نہ دیا۔ جنرل ضیا نے اشتراکی، سوشلسٹ اور ترقی پسند سیاست کے دروازے ہی بند نہ کیے بلکہ اسے زندہ درگور کرنے کا آغاز کیا اور یہاں مقابلے میں رجعتی ادیبوں، صحافیوں ہی نہیں بلکہ مسلح مذہبی سیاست کی آبیاری کی۔ اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دیوارِ برلن گرنے اور سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد یہاں پر موجود محدود اشتراکی، سوشلسٹ اور ترقی پسند گروپ تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتے تھے۔پی پی پی اور اس جیسی دیگر ترقی پسند سیاسی جماعتیںPragmatismکے نام پر Opportunist سیاست کرنے چل نکلیں۔ نظریہ فارغ اور اقتدار منزل قرار دی گئی۔ بچے کھچے اشتراکی عالمی سرمایہ دار ڈونرز کے ایجنڈا پر انسانی حقوق، بچوں کے حقوق، جمہوری حقوق، سیم وتھور کے منصوبے، انتخابی اصلاحات، Gender Balance، سمیت مختلف سماجی “Projects” حاصل کرنے کے درپے ہوئے۔ ترقی پسندوں کا ایک بڑا تربیت یافتہ اور قابل طبقہ ان پراجیکٹس کو حاصل کرنے کے لیے NGOs بنانے میں دن رات ایک کرنے لگا۔
وہ یہ سمجھے کہ اس طرح وہ سماج کو بدل دیں گے۔ یہ ایک سراب تھا اور ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ اور یوں ترقی پسندوں کا تربیت یافتہ، قابل، ایمان دار، شفاف اور پُرعزم طبقہ گھائل ہوا عالمی سرمایہ داری کے Soft Targetsکا۔ اس دوران چند گروپ، لوگ اور اہل قلم نے سرمایہ دارانہ جمہوریت میں پناہ لی اور اس کے لیے پی پی پی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں جن میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے، کو اپنی منزل تصور کرلیا۔ اسی لیے آج پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست، حتیٰ کہ ادیب بھی ناپید ہوگئے۔ جہاں ترقی پسند سیاست تحلیل ہوئی، وہیں ترقی پسند ادب اور لٹریچر بھی تخلیق ہونا محدود ہوگیا۔ لیکن اس سارے بحران کے باوجود بھی چند سیاسی لوگ، گروپس اور انفرادی طور پر ترقی پسند سرگرمِ عمل ہیں جو پاکستان میں ترقی پسند سیاست کی آبیاری میں عملی طور پر متحرک ہیں۔ اس حوالے سے اگلے کسی کالم میں ذکر ہوگا۔