ہندوستانی گھوڑوں کی نمایاں نسلوں کی بات کرتے ہوئے ہمیںاس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھناچاہیے کہ یہاں پیدا ہونے والے ہر گھوڑے کی نسل کو نہایت کثرت سے خارجی نسلوں بشمول برطانوی رسالو ںمیں موجود گھوڑوں سے ملایا جاتا رہاہے۔مراٹھوں/مرہٹوں کے رسالوں میں اس وقت کے بہترین گھوڑے کاٹھیاوری اور راجپوتوں کے پسندیدہ مرواری گھوڑے شامل تھے۔ پنجاب نے بھی ایسے گھوڑوں کی بڑی تعداد مہیا کی جن کی مادہ گھوڑیاں اپنی خصوصیات کے لحاظ سے بہت منفرد مقام کی حامل رہی ہیں جب کہ نر گھوڑے بظاہر اتنے خاص نہیں لگتے تھے۔
جب برطانوی راج ہندوستان میں پھیلا تو مقامی نسلوں کا باہم ملاپ ہونا شروع ہوگیا جبکہ تاج برطانیہ کو اپنے سپاہیوں کے لئے گھوڑوں کی باہم رسد کی ضرورت برقرار رہی۔ ایسی صورت حال میں مختلف سوداگروں سے گھوڑے خریدے گئے جس کے نتیجے میں تاجروں نے باہر سے گھوڑوں کی درآمد شروع کی جن میں ترکمانی، ایرانی، وزیرستانی اورچھوٹے قد کے کابلی گھوڑے سرفہرست ہیں جوکہ افغانستان سے درآمد کیے گئے تھے۔ کابلی نسل کے گھوڑوں کو عرب نسل کے گھوڑوں سے ملا کر واجبی جسامت کا گھوڑا پیدا کیا گیا۔ نسل کشی کے اس باہمی ملاپ کے کامیاب نتائج کو دیکھتے ہوئے عرب نسل کے گھوڑوں کی درآمد اور کراس بریڈنگ میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس کے برعکس جنوبی پہاڑی ریاستوں میں موجود چھوٹے قد کے سواری اور نقل وحمل میں استعمال ہونے والے گھوڑے کے قد اور نسل میں کوئی نمایاں بدلائو دیکھنے کو نہ ملا۔ چترال، ہنزہ، گلگت اور کشمیر کی پہاڑیوں پر سفر کرنے کے لئے ایسے گھوڑے ہی مناسب رہتے ہیں جن کا قد13-14ہاتھ(1.32-1.42m) یا پھر اس سے بھی کم ہو۔ وہا ںکا دل چسپ امر قصبوں اوردیہاتوں میں کھیلی جانے والی کھیل ’’پولو‘‘ ہے۔
پروفیسر ای وارٹس(Prof.E.Warts)کی تصنیف برطانوی راج کے گھوڑے (1907)کے مطابق منگولیائی گھوڑے ہندوستان کی مقامی نسلوں کے قریب ترین رشتہ دار تصور کیے جاتے ہیں۔ تاتاری ان گھوڑوں کی نسل کشی کرتے اور انہیں سخت سردی میں دستیاب چارہ کھانے کو دیتے رہے جس کے نتیجے میں مضبوط، قوی اور جفاکش گھوڑے سامنے آئے۔ تاتاری گھوڑوں پر چنگیز خان نے چڑھائی کی نیز مصنف کے مطابق قراقرم اور پامیر کے جنوب میں گھوڑوں کی ایک کھیپ موجود رہتی تھی جو جنگ وقتال میں کام آنے والے گھوڑوں کی مسلسل جگہ لیتی رہتی تھی۔ ان مضبوط نر گھوڑوں نے شمالی ریاستوں میں موجود نسلوں بالخصوص بھوٹان وغیرہ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔ منگولیائی تاتاری گھوڑے فولادی ٹانگوں،طاقتور پٹھوں اور انتہائی مضبوط جسامت کے مرکب رہے ہیں جو فقط نسل کشی کے نہایت محتاط اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا نتیجہ ہیں۔
کپتان ہئیس(Cap.Hayes) لکھتے ہیں کہ انہوںنے بیان کی گئی نسل میں اور ان کے دور میں پائے جانے والے برمی گھوڑوں میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا۔ برمی گھوڑے شان پہاڑیوں(Shan Hills) پر باہم نسل کشی کے عمل سے گزرتے رہے اور برطانیہ کے ملک چھوڑنے تک سامان کی نقل وحمل میں استعمال ہوتے رہے تھے۔ ساتویں صدی عیسوی میں وارد ہونے والے تاتاری اپنے ساتھ پولو بھی لائے تھے اور منی پورنسل کے گھوڑے بھی۔ پولو کے لیے گھوڑے ملاتے وقت ان کا قد13ہاتھ تک رکھتے یا پھر اس سے کچھ کم۔ برطانوی سپاہی کچھ عرصے کے لئے منی پور میں رہے اوروہاں چھوٹی سی جنگ بھی لڑی گئی۔ وہاں رہتے ہوئے برطانوی سپاہیوں نے مقامی باشندوں سے پولو کھیلی، واپسی پر انہوںنے منی پور کی پولو ٹیم کوکلکتہ مدعو کیا اور یوں1860ء میں کلکتہ پولو کلب کی بنیاد پڑی۔ جب گھوڑوں کے قد کو14ہاتھ سے کچھ اوپر بڑھانے کی رعایت ملی تو کراس بریڈنگ کے لئے عرب گھوڑوں کے علاو ہ نیوزی لینڈ کے گھوڑے اور آسٹریلیا کے ویلرز بھی درآمد کیے جانے لگے اور مقامی نسلیں متاثر ہونا شروع ہوئیں۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد تک تقریباً سبھی برطانوی کیولری، توپخانوں اور فیلڈ آرٹلری رجمنٹ وغیرہ میں ویلرز گھوڑے پائے جاتے تھے۔ جب کہ مقامی باشندے بھی برآمد شدہ گھوڑوں مثلاً بمبئی اور کلکتہ سے ویلرز اور دیہاتوں سے خریدے گئے کاٹھیاوری اورہندوستان کے باہر سے خریدے گئے چند گھوڑوں کو بھی ترجیح دیتے تھے جیسے وزیر ستان کے وزیر گھوڑے، افغانستان کے کابلی گھوڑے اور بلوچستان کے بلوچی گھوڑے۔ پہلی جنگ عظیم تک پاک وہند میں گھوڑوں کی نسل کشی عروج پر تھی اور اسلحہ اوربار بردادری کے بھاری سامان کی رسدوترسیل کے لئے مضبوط اوربلند قامت گھوڑے پیدا کرنے کو ترجیح دی گئی اور اس مقصد کے لئے عرب اور تھاروبریڈ گھوڑے درآمد کیے گئے اور منٹگمری (ساہیوال)، لائلپور(فیصل آباد)،راولپنڈی، سرگودھا اور کلکتہ وغیرہ میں نسل کشی کے مراکز بھی قائم کیے گئے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس سے بہت پہلے مسلمان حکمران شیر شاہ سوری نے گھوڑوں کے ذریعے ڈاک کی ترسیل کا نظام تشکیل دیا تھا جوپہلی عالمی جنگ تک برقرار رہاتھا۔1947ء کی تقسیم ہند کے بعد بھی افواج مقامی گھوڑوں کو ویلرز اورتھاروبریڈ سے ملانے کے اصول پر کاربند رہی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں گھڑ سواری اور پولو وغیرہ کے لئے 15-15.2ہاتھ(1.52-1.57m)قد کے گھوڑے وافر تعداد میں موجود ہیں۔ اگرچہ اب بڑی تعداد میں کاریں اوردیگر سامان نقل وحمل دستیاب ہیں جس کے باعث مقامی باشندے گھوڑوں کی نسل کشی میں پہلے جتنی دل چسپی تو نہیں رکھتے لیکن پاک وہند میں ہونے والی قدیمی گھڑ دوڑ اور پولو وغیرہ کے لئے اب بھی گھوڑے درکار ہوتے ہیں۔ اب پاک وہند پر برطانوی تسلط ختم ہونے کے بعد برآمد شدہ تھا روبریڈ گھوڑوں کی ملائی کے دوران رفتار اوردیگر صلاحیتوں کو پیش رکھا جاتا ہے اور اب پاکستان کی اپنی سٹڈبک بھی موجود ہے۔
گھوڑے چونکہ ہماری زرعی ثقافت کا ایک اہم جزو رہے ہیں اوربہترین خصوصیات کی حامل نسلوں کی پرورش ہمارے زمینداروں کا خاصہ رہا ہے۔ ہمارے زرعی سماج میں مویشیوں اور گھوڑوں کی نمائش ایک اہم مقام رکھتی ہے اور اس کے فوائد بھی ہیں جیسے اچھی نسلوں کا تعارف اور فروغ اور مال مویشیوں کی تجارتی معاونت وغیرہ سرفہرست ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں1530ء میں ضلع سبی کے مقام پر گھوڑوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تب وہاں چاکرخان رندکی حکومت تھی۔ برطانوی راج کے دوران1885ء میں گھوڑوں کی نمائش کو میلہ مویشیاں کا رنگ دیا گیا اور یہ مختلف شہروں میں منعقد کی جانے لگی۔ تقسیم ہند کے بعد ریس کورس گرائونڈ لاہور میں1952ء میں میلہ اسپاں ومویشیاں کا اہتمام کیا گیا جو مختلف ادوار میں ہوتا رہا بلکہ1980ء میں ہونے والے میلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ فہد بن عبدالعزیز نے بھی شرکت کی۔ چند سال قبل2004ء میں پنجاب حکومت کے زیر اہتمام میلے کا انعقاد کیا گیا جس میں لوکل گورنمنٹ اور محکمہ لائیو سٹاک اورڈیری ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے خصوصی دلچسپی لی اور اس میں باقی جانوروں کے علاوہ ساڑھے چار سو سے زائد گھوڑوں کی نمائش کی گئی جبکہ اکنامک سروے2004-05کے مطابق پاکستان میں کل گھوڑوں کی تعداد تقریباً0.3ملین ہے۔
پاکستان میں گھوڑوں کی باقاعدہ فارمنگ زیادہ تر پاکستان آرمی کے ریموٹ اصطبلوں پر کی جاتی ہے اوراس مقصد کے حصول کے لئے افواج پاکستان میں ایک شعبہ ریمونٹ ویٹرنری اینڈ فارمز کو(RV & FC)موجود ہے۔اس کے علاوہ گھوڑوں کی فارمنگ چند پرائیویٹ فارمز پربھی دیکھنے میںآئی ہے۔ گھوڑوں کی فارمنگ کے لئے پائی جانے والی چند مشہور نسلوں میں عرب، تھاروبریڈ، ہینورورین، ڈیل، پرچیران، شٹلینڈ پونیز وغیرہ شامل ہیں۔ پرائیویٹ فارمز پر گھوڑوں کی افزائش ایک منافع بخش صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔