زندہ اور مردہ جسم میں صرف جذبات کا فرق ہوتا ہے۔ مردہ میں جذبات نہیں ہوتے ہیں جبکہ زندہ انسان میں جذبات ہوتے ہیں، جو اس کی زندگی کو چلانے کی توانائی مہیا کرتے ہیں۔ اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس میں مردہ اور غیر ترقی یافتہ جذبات کا غلبہ کردیا جاتاہے، تب وہ قوم خود بخود ہی خاتمہ کی طرف چلی جاتی ہے۔
احساس کمتری ایک ایسا جذبہ ہے جو قوم اور قومی قیادت کو ذہنی خود انحصاری کی طرف جانے ہی نہیں دیتا ہے۔ جب قوم خود کو دوسری اقوام سے فکری طور پہ کم ترسمجھتی ہے تو اس کا عملی کردار اور مایوس کن نتائج پیدا کرتا ہے۔ بھلا وہ طالب علم اوّل مقام کیسے حاصل کر سکتا ہے جس کی کوشش ہی امتحان پاس کرنے کی ہو۔
برصغیر کی تاریخی حقیقت کو سامنے رکھیں تو ہمار اندر موجود کالی بھیڑوں کی قیادت نے معاشرے میں یہ نظریہ پھیلا دیا تھا کہ سفید فارم انگریز ہی سماج کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ کاروبار کو سانئسی اصولوں پہ چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی زبان انگلش ہی ترقیات کا راستہ کھولتی ہے۔ یہ سارے نظریات قوم کے ہر طبقے میں ایک مخصوص مقاصد کے لیے پھیلائے گئے اور اب تک ان کو ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
مشرقی اقوام خاص طور پہ چائینہ نے اپنی زبان، فلسفہ، اور جدید حکمت عملی کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ کوئی مخصوص زبان، قوم اور رنگ ترقی کی علامت نہیں، بلکہ گرد و پیش کو مدنظر رکھ کر دوسروں سے مرعوب ہوئے بغیر اقوام اپنی خود انحصاری سے ہی ترقی کرتی ہیں۔
دنیا میں کوئی قوم، دوسری قوم کو ترقی نہیں دیتی، بلکہ خدا بھی خود انحصاری پہ زور دیتا ہے۔مشرقی بعید کی اقوام نے انسانی فطرت کو سمجتھتے ہوتے اپنا پلان بنا کر ہی ترقی کی ہے۔ اس پراسس کے دوران مغربی ممالک نے ان کے راستے میں جتنے روڑے اٹکائے سب کو تحمل سے پار کیا ہے۔ صرف اور صرف اپنے آپ پہ اعتماد ہی ان کو دنیا میں لیڈر کے طور پہ ابھار رہا ہے۔
نظریات کی احساس کمتری سے نکلنے کے بعد اگلا مرحلہ محنت اور مسلسل محنت کا آتا ہے۔ قومی ترجیحات کے اندر رہ کر سٹریٹیجک سمعتوں میں محنت کرنے سے قوم دنیا میں اپنا ایک اپنا نام بنا لیتی ہے۔
یہی چاینئہ نے کیا ہے اور یہی کام ہم کریں گے تو کامیاب ہون گے اور بحثیت قوم دنیا میں عزت سے جانے جایئں گے۔