اگست 2021ء کے دوسرے نصف میں ملکی اور عالمی اخبارات میں امریکا کی شکست کے تذکرے اور طالبان کی فتح کی خوش کُن خبروں نے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ زوال کے دور میں حقائق اور واقعات کو ان کے اصل تناظر میں دیکھنے اور جاننے کا ہمارا فہم‘ خوش فہمیوں کے ملبے تلے دب چکا ہے، جس کی وجہ سے ہم مسلمان‘ دُنیا کو اپنی خواہشات کے اسیر ہوکر دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی منظرِ عام پر واپسی اور امریکی فوج کا انخلا ہماری خواہشات کے علیٰ الرغم کچھ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوا ہے، جسے افغانستان کے مقامی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ اس کے بغیر افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کا درست تجزیہ ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ لگ بھگ چالیس سال پہلے سرد جنگ میں دوبڑی عالمی طاقتوں کا میدانِ جنگ بننے والا ملک افغانستان اس وقت آدھے درجن سے زائد ملکوں کی پراکسی وار کا میدانِ جنگ ہے۔
ایسی صورت میں امریکا اپنے حریف ملکوں کے لیے کسی صورت میں میدان خالی نہیں چھوڑ سکتا۔ لہٰذا اس نے دوحہ (قطر) میں مذاکرات کی میز سجائی اور طالبان کو افغانستان کا باقاعدہ سٹیک ہولڈر قرار دیا اور انھیں دوحہ میں سیاسی دفتر کھول کر دیا اور طالبان کو ایک معاہدے کے ذریعے کچھ مشروط پابندیوں کے ساتھ میدان میں اُترنے کی اجازت دی، جس کو ہمارے سادہ لوح خوش فہم مذہبی حلقے امریکا کی شکست اور طالبان کی فتح مبین سے تعبیر کررہے ہیں۔ اسے ’’فتح مکہ‘‘ قرار دینے والوں کے فہمِ سیرتِ رسول کا دیوالیہ پن نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ کاش یہ اربابِ مذہب دوحہ کے ’’طالبان امریکا امن معاہدہ‘‘ کے مندرجہ ذیل الفاظ پر ہی غور کرلیں، جس میں کہا گیا ہے کہ: ’’طالبان کسی فرد، گروہ کو القاعدہ سمیت افغانستان کی سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان ایسی تمام قوتوں کو واضح پیغام دیں گے کہ امریکا مخالف کسی قوت کے لیے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ طالبان اپنے کارکنوں کو ہدایات جاری کریں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی قوت کو نہ اپنی فورسز میں بھرتی کریں، نہ تربیت دیں، نہ چندہ جمع کرنے دیں، نہ اپنے ہاں ٹھہرنے دیں۔ طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کسی مخالف قوت کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت اور قانونی دستاویزات جاری نہیں کریں گے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ یہ بلا شرکتِ غیرے طالبان کی فتح مبین ہے یا مفادات کے تحفظ کا ایک مشترکہ منصوبہ؟ پا بہ زنجیر معاہدوں میں جکڑی ہوئی طالبان کی کابل آمد اور عہد ِنبویؐ کے فتح مکہ کے مابین کون سا نکتہ مشترک ہے؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
کیا سادگی بیان ہے کہ ’’طالبان نے امریکا اور اس کے اداروں؛ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، وائٹ ہائوس، سی آئی اے اور پینٹاگان کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی اور کابل پر قبضہ کرکے دنیا کو حیران کردیا‘‘۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکا نے طالبان کے بعض رہنماؤں کو نہ صرف گوانتاناموبے میں ایک عرصہ رکھا، بلکہ ’’گاجر اور لاٹھی‘‘ کی پالیسی کے ذریعے معاملات کو بھی آگے بڑھایا، حتیٰ کہ ملا برادر کو بھی پاکستانی جیل سے رہا کروایا۔ پھر طالبان رہنماؤں سے سفری پابندیاں ہٹوائیں۔ قطر جیسے امریکی اڈے میں انھیں اپنا دفتر قائم کرواکر قطر حکومت سے وی آئی پی پروٹوکول لے کے دیا۔ اشرف غنی کی اپنی ساختہ ’’منتخب‘‘ حکومت کو بھی بائی پاس کرکے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ اس کے نتیجے میں اشرف غنی حکومت سے جیلوں میں قید پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہائی دلوائی۔ طالبان کے تازہ جنگی معرکوں میں طالبان فورسز نے امریکیوں پر اور امریکیوں نے طالبان پر کوئی گولی نہیں چلائی، حتیٰ کہ امریکی فوج کے پاس تباہ کن اسلحے کے ذخائر تک طالبان کو منتقل کر دیے گئے۔ افغان فوج چوں کہ اشرف غنی انتظامیہ سے زیادہ امریکی فوجی جنرلوں کے ماتحت تھی، اس لیے اسے اپنے گیم پلان کے تحت سرنڈر کروا دیا گیا۔
طالبان جو کبھی چیچن مجاہدین اور اسلامک موومنٹ آف اُزبکستان کے عسکریت پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دینے پر ڈٹے ہوئے تھے، حتیٰ کہ اُسامہ بن لادن کی میزبانی پر اصرار کے سبب انھوں نے اس خطے میں امریکا بہادر کی براہِ راست آمد کی راہ ہموار کی اور اب القاعدہ، داعش وغیرہ سے نہ صرف تعلق نہ رکھنے کی امریکا کو یاد دہانی کروا رہے ہیں، بلکہ ان سے امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچنے کی ضمانت بھی دے رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ خطے کے اس ناقابلِ تلافی نقصان کے بعد امریکا کے ساتھ اس کی اپنی شرائط پر کیے گئے معاہدے کو غیر معمولی حکمت اور دانش مندی کا نام دیا جارہا ہے۔
اس امر کے خوش آئند ہونے میں تو کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ امریکا کی فوج بالآخر اپنے جانی اور مالی نقصانات اٹھاکر افغانستان سے نکل رہی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خطے میں امریکا کسی نہ کسی شکل میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا۔ افغانستان کے نظمِ مملکت کو چلانے کے لیے پیسہ اب بھی امریکا اور اس کے تابع عالمی ادارے ہی دیں گے۔ اس کا انخلا سوویت یونین جیسا انخلا نظر نہیں آتا کہ وہ یہاں سے بالکل لاتعلق ہوجائے، نہ صرف وہ یہاں اپنی پالیسیوں کی صورت میں رہنے پر مُصِر رہے گا، بلکہ اس کے اتحادی بھی اس کا ہاتھ بٹاتے رہیں گے۔ مثلاً ابھی سے افغانستان کے دس ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور آئی ایم ایف اور یورپی یونین نے افغانستان کے لیے امدادی پروگرام معطل کر دیے ہیں۔ یہ اقدامات اسی لیے بروئے کار لائے جارہے ہیں کہ کابل میں نئی حکومت کی کوئی باضابطہ شکل بنتے ہی انھیں معاشی ناکہ بندی کا احساس دلا کر اپنا رہینِ منت رکھا جا سکے۔ امریکا ’سٹیٹس کو‘ کی تمام قوتوں میں باہم صلح کرواکے افغانستان میں اپنے سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینا چاہتا ہے، تاکہ مستقبل میں افغانستان کے ان دھڑوں کو روس اور چین کے خلاف استعمال کرسکے۔
بد قسمتی سے افغانستان میں آج وہ حلقہ موجود نہیں یا منظم نہیں، جو قومی اور جمہوری فکر کے ساتھ ساتھ استعمار کے عزائم کو بھی سمجھتا ہو، اس لیے حالیہ اُکھاڑ بچھاڑ میں کسی انقلابی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہاں زیادہ سے زیادہ صرف ایک حکومت بدلی ہے، جب کہ نظام کی تبدیلی کی اپنی مسلمہ حکمتِ عملی ہوتی ہے۔ دنیا میں آئے دن حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور ان سے پالیسیوں میں کوئی جوہری فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا افغانستان سے متعلق خوش فہمی میں مگن رہنے سے کہیں زیادہ شعوری تجزیہ اور بصیرت پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، شمارہ ستمبر 2021ء)