بہت ہی مناسب روّیہ ہے کہ ہمارے تجزیہ و تعریف اورتنقید و تنقیح میں جانبداری اور تعصب کا شائبہ تک نہ ہو۔ بلاتفریق جماعت (خواہ وہ حزب اقتدار کی ہو یا حزب اختلاف کی) ہمیں ہر اچھے کام کی تائید و تعریف اور ہر برے کام پر تنقید و انذارکافریضہ سرانجام دیناچاہئے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان کی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہوتی ہے۔ اسے اپنی وابستگی واضح کرنی ہوتی ہے، اس کا جھکائو کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی طرف ہوتا ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کا رحجان کسی سیاسی جماعت کی طرف نہ ہو۔
میری گزارش ہے کہ وابستگی اور تعلق ایک فطری امر ہے کہ انسان نے سیاست میں ایک جماعت کو منتخب کرنا ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک غیر اخلاقی اور غیرشرعی امر ہے کہ جس سے وابستگی ہو اسی کوانسان خیر کامنبع خیال کر لے اور یقین کرلے کہ ہر دوسری سیاسی جماعت شر اور جھوٹ پرمبنی ہے ،یہ ایک انتہائی نقطہ نظر ہے ۔ وابستگی کے باوجود ہرکارکن اورممبر اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھے، اگر وہ اپنی جماعت کے نقطہ نظر کو غلط خیال کرتا ہے یا کسی مسئلے میں مختلف رائے رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اجلاس میں اپنا نقطہ نظر پیش کرے۔ فیصلہ وہی ہو گا جو اکثریت رائے دے گی۔ مختلف رائے رکھنے کا مقصد جماعت کو واقعی اور حقیقتاً جمہوری بنانا ہے۔ اختلاف رائے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ اب آپ اس جماعت کے خیر خواہ نہیں رہے یا اس جماعت کے رکن نہیں رہے۔ مکمل حمایت و مخالفت کے مابین اعتدال کاراستہ بھی ہے اور یہی جمہوریت ہے۔
بد قسمتی سے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں خاندان یا فرد کی آمریت ہے۔ اکثریت جماعتوں میں خاندانی آمریت ہے۔ پارٹی کے سربراہ سے اختلاف کرنا گویا کہ سازش کرنے یا کسی اور جماعت کا جاسوس کہلانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اہم عہدوں پہ فائز رہنے کا ایک ’’گُر‘‘ ہے اور وہ ’’صاحب کی جی حضوری‘‘ ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے اہم عہدیدار ایک روز اپنے قائد کا شکوہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ہم ایگزیکٹو کمیٹی میں متفقہ رائے کے ساتھ جو فیصلے کر کے اٹھتے ہیں ،ہمارے گھر پہنچنے سے پہلے وہ تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں جس کی خبر ہمیں صبح دوسرے دن موصول ہوتی ہے‘‘۔ جسٹس وجیہہ الدین اکیلے نہیں ہیں ایسے محترم ممبر ہر سیاسی جماعت میں موجود ہیں۔ اگر جاوید ہاشمی کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں کتنی جمہوریت ،اختلاف رائے اور اختلاف کو برداشت کرنے کا کلچر ہے ۔ فقط یہ دو افراد نہیں۔
ہر سیاسی جماعت میں ایسے بہت سے کارکن اور راہنما ہیں جو اپنی عقل ،تجربہ اور مشاہدہ کی روشنی میں بات کرتے ہیں ۔ ایسے افراد سیاسی جماعت کا روشن مستقبل اورجمہوری روایات کے امین ہوتے ہیں ۔ انہیں اہمیت دی جانی چاہئے اور ان کی بات کو سنا جانا چاہئے ۔ان کے اختلاف رائے کو پارٹی ڈسپلن کے خلاف نہیں بلکہ پارٹی کے حق میں سمجھنا چاہئے۔ پارٹی کی پالیسیوں سے ، پارٹی میں رہتے ہوئے اختلاف کرنا جمہوری حسن ہے۔
خیر اور دانش کا منبع فقط ایک ذات نہیں ہوتی۔رب تعالیٰ نے انسانی عقول میں ’’تنوع‘‘ کوبہترسے بہترین رائے تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا ہے یہی اختلاف انسانی معاشروں کے لئے آب حیات کا کام کرتا ہے اور اسی اختلاف سے بہتر سے بہترین حالات کی طرف بڑھا جاسکتا ہے ۔فرد کی حیثیت مستقل نہیں ہے،اسی طرح جماعتوں کی سربراہی بھی بہتر سے بہترین انسان کا حق ہوتی ہے۔ یہ کسی کی میراث اور فطری حق نہیں ہوتا ۔ انسانی دانش نے ہزاروں سال کے فکری سفر کے بعد اداروں کی تصویر وتشکیل کا فیصلہ کیا کیونکہ ادارے ہی ہیں جو قائم و دائم رہتے ہیں۔ افراد آتے اور چلے جاتے ہیں ۔اس لئے ہم افراد کے بجائے سیاسی جماعتوں کے اجتماعی وجود کومستقل کرنے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے عمران خان کا اپنی سیاسی جماعت میں خاندانی اورموروثی سیاست کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا اعلان خوش آئند ہے ۔ عمران خان کو اس حوالے سے پاکستانی سیاست میں ضرور یاد رکھاجائے گا کہ اس ماحول میں جب ہر سیاسی اور مذہبی جماعت میں خاندانی آمریت تھی لیکن انہوں نے اپنی ذات کو اس’’ گناہ‘‘ سے علیحدہ رکھا۔
یہ وہ ارتقائی عمل ہے جس سے معاشرہ جمہوری روایات کی طرف بڑھتا ہے۔ خاندانوں اور دوستوں کے ذریعے اپنے اقتدار کی حفاظت کرنے کے بجائے، ہم اس ملک میں جمہوری روایات کوفروغ دیں تو اس سے ملک بھی محفوظ اور اس ملک میں غیر جمہوری عناصر کا راستہ بھی بند ہو جائے گا ۔