انسانی زندگی اگر ایک ہفتے کی بھی ہو تو اُس میں بھی سات دن ہوتے ہیں۔ پھر نہ جانے شاعروں اور ادیبوں کو کیا سوجھی کہ اِسے چار روزہ قرار دے دیا گیا۔ کسی نے کہا ’’چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہے‘‘۔ کوئی نامراد عاشق بولا ؎
مِرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا
کسی نے کہہ دیا ہوگا یہ دنیا چار روزہ ہے
اور برصغیر میں مغلوں کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر تو بالواسطہ طور پر خدا سے شکوہ کناں بھی ہوئے کہ ؎
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
حالانکہ زندگی مایوس کُن انداز میں کٹنے کی وجہ محض قسمت کا لکھا ہی نہیں تھا، اِس میں موصوف کا اپنا بھی کیا دھرا کافی تھا۔ بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہان اور اورنگ زیب جیسے مدّبر اور باہمت حکمرانوں کی وسیع وعریض سلطنت کے وارث بہادر شاہ ظفر میں لگتا ہے اپنے قائم علی شاہ والی کچھ خصوصیات پائی جاتی تھیں جن کی وجہ سے آرزو اور انتظار کے علاوہ کچھ دن قید وبند میں بھی کٹے۔ بہرحال بات ہورہی تھی چار روزہ کی تو میں نے ایک دن ایک دانشور سے پوچھ لیا کہ صاحب! یہ چار دن والا کیا چکر ہے؟ وہ دُور کی کوڑی لاتے ہوئے بولا ’’دیکھو میاں! بھلے سال میں بارہ مہینے اور باون ہفتے ہوتے ہیں مگر دن تو سوموار سے لے کر اتوار تک سات ہی بنتے ہیں اور پھر ہفتے میں دو چھٹیاں بھی ہوتی ہیں‘‘ میں نے کہا چلو ہفتہ اور اتوار کو دو چھٹیوں کے طور پر نکال بھی دیا جائے تو باقی پانچ بچتے ہیں۔ تو پھر شاعر یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ ’’پانچ دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہے‘‘ اور باقی شاعر حضرات بھی زندگی کو چار کی بجائے پانچ روزہ کہہ کر حقیقت کے قریب تر رہ سکتے تھے۔ دانشور بھی شاعری کی باریکیوں کو سمجھتا تھا۔ فوراً بولا ’’دیکھیے جناب! اگر بہادر شاہ ظفر اپنے شعر میں کہتا کہ ’’دو آرزو میں کٹ گئے تین انتظار میں‘‘ تو اِس سے مصرع بے وزن ہوجاتا اور واضح ہو کہ کوئی شاعر اپنی زندگی کا توازن تو خراب کرسکتا ہے مگر اپنے کلام میں بے وزنی والی کیفیت برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا ’’تو گویا زندگی کو چار روزہ صرف بہادر شاہ ظفر کے اِس شعر کو وزن میں رکھنے کے لیے کیا گیا ہے‘‘۔ ہنس کر بولا ’’نہیں اِس کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں تو ہفتہ اور اتوار کو تعطیل ہوتی ہے مگر مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک جمعہ اور ہفتہ کی چُھٹی کرتے ہیں۔ اِس لیے اِس گلوبل ویلج کے سسٹم میں ہم آہنگی اور یک رنگی پیدا کرنے کے لی ہفتے کے سات دنوں میں سے جمعہ، ہفتہ اور اتوار تین دن منفی کرکے زندگی کو چار روزہ کیا گیا ہے۔ میں نے سوچا یہ دانشور یقینا کوئی ماہر وکیل ہے جو میرے ہر سوال کے جواب میں کہانی پر کہانی تراشتا چلا جارہا ہے۔ اِس لیے اِسے چھوڑ کر کسی اور جانب رجوع کرنا چاہیے۔
ظاہر ہے زندگی کے چار روزہ ہونے سے مراد دنیا کی بے ثباتی ہے اور ایسے مسائل چونکہ علمائے دین کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں۔ اِس لیے میں نے ایک جیّد عالمِ دین سے مل کر پوچھا کہ مولانا یہ ’’چار روزہ‘‘ کی اصطلاح کا پس منظر کیا ہے؟ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ’’علومِ اسلامیہ کی کُتب میں چار روزہ کی اصطلاح کہیں نہیں ملتی البتہ چار زوجہ کا ذکر جابجا ملتا ہے۔ یہ اللہ کریم کا صاحبِ استطاعت مسلمان مَردوں پر احسانِ عظیم ہے کہ اُس نے اُنہیں بہ یک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت مرحمت فرما رکھی ہے بلکہ اِس ضمن میں تو سعودی عرب کے ایک مفتی صاحب نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ کوئی بھی مالدار مسلمان مرد اگر ایک شادی پر اِکتفا کرتا ہے تو وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اُسے چاہیے کہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرکے زیادہ سے زیادہ خاندانوں کی کفالت کا ذمہ اُٹھائے‘‘۔ میں نے سوچا کہ دانشور افسانہ طرازی پر لگا ہوا تھا اور مولانا کی سوئی کثرتِ ازدواج پر اٹکی ہوئی ہے۔ کہیں سے کوئی ڈھنگ کا جواب تو مل نہیں رہا۔ اِس لیے اِس چار روزہ زندگی کا کوئی دن ضائع کرنے کی بجائے اِس فضول قسم کی تحقیق پر مٹی پائو۔