قتل کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ معاشی ،اخلاقی، روحانی، سماجی، انسانی وغیرہ ۔ ہرقتل کا جنازہ اٹھتا ہےاوربات ختم ہو جاتی ہے۔ مگر انسانی قتل ان میں سے سب سے سنگین قتل ہے جس کے جنازے کے بعد بھی بات ختم نہیں ہوتی۔ ایک انسان کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہو جاتا ہے وہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ انسان وہ واحد جاندار ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
لیکن ہمارے پسرور کے انسانوں کے قاتل ایم۔این۔اے اور ایم۔پی۔ایز کو اپنے ہاتھ خون میں رنگنے کی لت لگ گئی ہے۔ جب تک وہ روزانہ ایک انسانی جان کا تازہ خون نا پی لیں ان کو چین ہی نہیں آتا۔ کسی دن تو یہ قاتل ایک سے زائد انسانوں کی بھی جان لے لیتے ہیں۔ قتل ہونے والوں میں ہر عمر کے بچے، جوان اور بوڑھے شامل ہیں۔ بغیر صنفی امتیاز کے یہ قتل و غارت کا یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری و ساری ہے اور روز بروز یہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جس طرح قتل روئے زمین پر سب سے بڑا جرم ہے۔ اسی طرح اس کا ناحق الزام کسی پر لگانا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے۔ مگر جب الزام ثابت ہو جائے تو پھر وہ الزام نہیں بلکہ جرم بن جاتا ہے۔ الزام لگانے والا سچا ہو کر بری الزمہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے اتنے بڑے الزام کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس ثبوت بھی اتنا ہی بڑا ہے۔ تو لیجیے سنیئے اور فیصلہ آپ خود کریں کہ 1965 کے سٹی آف ڈیفنس شہر پسرور کے ایم۔این۔اے اور ایم۔پی۔ایز قاتل ہیں یا نہیں!!
سرکاری اعداد و شمار تو خیر سرکاری اداروں کے پاس بھی درستگی کے ساتھ موجود نہیں ہونگے مگر پسرور اور گرد و نواح کے رہائشی تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پسرور سیالکوٹ روڈ، پسرور ڈسکہ روڈ، پسرور ناروال روڈ اور دیگر تمام چھوٹے روڈوں پر جو پسرور کو باقی قصبوں اور دیہاتوں کو ملاتے ہیں ان پر روزانہ سینکڑوں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ ان ایکسیڈینٹوں میں سینکڑوں جانیں جا چکی ہیں۔ ان میں زندگی بھر معذور ہونے والے افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ویسے تو ایکسیڈنٹ میں ارکان پارلیمنٹ بالواسطہ قصور وار نہیں ہوتے مگر پسرور شہر کو ملانے والی تمام سڑکیں جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اس بابت مکمل ذمہ دار بھی یہی ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ ان قاتلوں کو تو شاید اس بات کا احساس کبھی ہو کہ نہ ہو۔ مگر آپ ان سے جا کر پوچھیں جن کے پیارے ان سڑکوں کی بھینٹ چڑھ گے۔ یا ان ماوں سے پوچھیں جن کے بچے سکول کے لیے گے تھے مگر چاند گاڑی پر سوار سیدھا چاند سے بھی اوپر پہنچ گئے۔
اگر آپ کے دل کو پھر بھی ٹھیس نہ پہنچے تو وہ تصویریں دیکھ لیں جن میں انسانی چہرے کی پہچان تک ممکن نہیں رہی تھی اور وہ جن کے باقیات کو کسی چادر میں سمیٹ کر لے جایا گیا اور وہ جن کے جسموں کو کاٹ کر گاڑیوں سے نکالا گیا۔ آپ ایم۔این۔اے اور ایم۔پی۔ایز نے تو کبھی کبھی پسرور کا چکر لگانا ہوتا ہے مگر ان کا کیا جنہوں نے روزگار اور دوسرے معمولات کے لیے روز انہیں سڑکوں پر سفر کرنا ہوتا ہے!! اگر آپ کے پاس کوئی فنڈ نہیں یہ سڑکیں بنانے کے لیے تو اعلی اقتدار والوں سے اپنے حلقہ کے لوگوں کے لیے مانگیں۔ اگر وہ نہیں دیتے تو آپ اپنے استعفے انکو دے کر واپس آ جائیں۔ اگر آپ یہ نہیں کرتے تو آپ ہی قاتل ہیں ان سب کے جو پسرور کی سڑکوں پر ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوئے!! روز حساب آپ ہی جواب دہ ہونگے ان لوگوں کے سامنے جن کے خون سے آپ کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں
میں نے تو اپنی بات کہہ لی۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ آیا پسرور کے یہ ایم۔این۔اے اور ایم۔پی۔ایز قاتل ہیں یا نہیں!!!