سانحۂ احمد پور شرقیہ قومی سطح کا المیہ تھا کہ جس میں 155 کے قریب لوگ جل کر لقمۂ اجل بن گئے اور اِس سے بھی زیادہ آگ لگنے سے معذور اور ناکارہ ہوگئے۔ سینکڑوں خاندانوں کی اِس بربادی پر حکومتِ وقت حسبِ معمول فی کس معاوضے کا اعلان کرکے بری الذمہ ہوگئی جبکہ عوام حسبِ روایت اِس سانحے کے ذمہ داروں کے تعین کے حوالے سے دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ اِس حادثے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جبکہ فریقِ ثانی کا موقف ہے کہ جل مرنے اور زخمی ہونے والے اپنی تباہی کے خود ذمہ دار ہیں۔ دونوں ہی فریقوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ جن کا جائزہ حسبِ ذیل ہے۔
حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے والوں میں مضبوط ترین دلیل ’’دارالشعور‘‘ پبلیکیشنز لاہور کے مدارالمہام جنابِ محمد عباس شاد کی ہے۔ لکھتے ہیں۔ ’’سانحۂ احمد پور شرقیہ مجھے دو برس پیچھے ماضی میں لے گیا۔ سعودی دارالحکومت الریاض سے نکلنے والی امارات روڈ پر تھے۔ شہزادہ مشعل بن عبداللہ بن عبدالعزیز ال سعود کے مشیر شیخ سدیری کے ساتھ صحرا میں ریفائنری کے تعمیراتی کام کا جائزہ لے کر واپس آرہے تھے کہ ٹریفک پولیس نے چھ رویا شاہراہ کو دونوں اطراف کی ٹریفک کے لیے بلاک کررکھا تھا۔ ایمبولینس تک کو گزرنے نہیں دیا جارہا تھا۔ شہزادے کے مشیر کو گاڑی نکالنے کی اجازت نہ ملی تو وہ برہم ہوکر قریب کھڑے آفیسر سے مخاطب ہوا کہ ’’ماجرا کیا ہے؟ دیکھتے نہیں ہو میں شاہی مشیر ہوں، مجھے گزرنے دو‘‘۔ تب ٹریفک پولیس کا آفیسر بولا ’’جناب آگے دو کلو میٹر دور پٹرول کا ایک ٹینکر اْلٹ گیا ہے۔ اداروں نے پانچ سو مربع میٹر تک کا علاقہ گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اِس گھیرے ہوئے خطے میں کوئی شخص بھی داخل نہیں ہوسکتا تو گاڑی کیسے گزر سکتی ہے۔ جب تک بلدیہ اور فائر بریگیڈ بکھرے تیل کو ریت سے ڈھانپ کر متاثرہ جگہ کو کلیئر قرار نہیں دے دیتے، تب تک میں کسی کو ایک انچ بھی آگے نہیں جانے دوں گا کیونکہ ہمارا کام آپ کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے‘‘۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد شاد صاحب اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ’’ایک ہمارا ملک پاکستان ہے جہاں ادارے تو ہیں مگر نصب العین نہیں، جہاں پولیس اور ٹریفک پولیس تو ہے مگر وہ بیچاری وزیروں مشیروں کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر مامور ہے۔ اگر ہمارے ادارے لوگوں کو متاثرہ جگہ سے دور رکھتے تو احمد پور شرقیہ میں اتنا بڑا سانحہ کبھی نہ ہوتا مگر یہاں تو اندھیر نگری ہے۔ ادارے لوٹ کھسوٹ اور چور بازاری میں لگے ہوئے ہیں اور حکمرانوں کو اپنی کرپشن بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اقربا پرور اور عوام دشمن حکمرانوں کی مسلسل لوٹ کھسوٹ نے عوام الناس کو جہالت و غربت کے اُس پاتال تک پہنچا دیا ہے جہاں وہ اپنا اچھا بُرا اور نفع نقصان سوچنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوگئے ہیں۔ اندریں حالات میرے اِن بدنصیب ہم وطنوں کا خونِ ناحق حکومتی اداروں اور نااہل سیاسی اشرافیہ کی گردن پر ہے‘‘۔ اِس کے برعکس دوسرا طبقۂ فکر حکمرانوں کی بجائے اِس سانحہ میں کام آنے والوں کو ذاتی طور پر ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے کہ اُن کی لالچ، طمع، حرص و ہوس اور مُفت بَری سے آلودہ ذہنیت اُن کی بربادی کا باعث بنی ہے۔ ایک صاحب رقمطراز ہیں ’’کیا لوٹے ہوئے پٹرول سے اِن لوگوں کے بچوں کو عید کے کپڑے یا کھلونے مل جانے تھے؟ کیا اِس پٹرول سے اِن کے گھروں کے چولہے مہینوں جل جانے تھے؟ کیا جلی ہوئی کاروں اور موٹر سائیکل مالکان کی گاڑیاں اِسی پٹرول سے چلنی تھیں؟ اگر اِن سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو مان لیجئے کہ مرنے والوں نے عذابناک موت اور زخمی ہونے والوں نے قابلِ رحم زندگی کو خود دعوت دی ہے۔ یہ اپنی تباہی کے ذمہ دار آپ ہیں‘‘۔
قارئین کرام! دونوں ہی فریقوں کے دلائل وزن دار اور غور طلب ہین۔ میں اِس ضمن میں ساحر لدھیانوی کا ہم خیال ہوں کہ ’’مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے… اور بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی‘‘۔ یہ تو محض گری پڑی چیز کی لوٹ مار کا موقع تھا، غربت و افلاس تو بقول نبی اکرمؐ کفر تک بھی لے جاسکتی ہے۔ یہ بھی بجا ہے کہ لوگوں کو اخلاقیات سکھانا حکومت کا کام نہیں مگر اُن کی جان ومال کی حفاظت کرنا تو حکومتی ذمہ داری ہے۔ اِس سانحہ میں متاثرین کی جانیں بچانے میں حکومتی اداروں کی کوشش کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ چنانچہ اِس سانحہ کی ذمہ داری کے حوالے سے منیر نیازی کے الفاظ میں نتیجہ یہ نکلا کہ
’’کُج شہر دے لوک بھی ظالم سَن
کُج ساہنوں مرن دا شوق وی سی‘‘