• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
ذمہ دار کون؟ — تحریر: ایم بی انجمذمہ دار کون؟ — تحریر: ایم بی انجمذمہ دار کون؟ — تحریر: ایم بی انجمذمہ دار کون؟ — تحریر: ایم بی انجم
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

ذمہ دار کون؟ — تحریر: ایم بی انجم

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • ذمہ دار کون؟ — تحریر: ایم بی انجم
کسانوں کی تباہی: برطانوی غلامی سے لے کر پاکستانی اشرافیہ کی غلامی تک کا سفر — تحریر: ڈاکٹرممتاز خان
جولائی 5, 2017
پاک چائنہ تعلقات اور دو خدشات — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
جولائی 5, 2017
Show all

ذمہ دار کون؟ — تحریر: ایم بی انجم

سانحۂ احمد پور شرقیہ قومی سطح کا المیہ تھا کہ جس میں 155 کے قریب لوگ جل کر لقمۂ اجل بن گئے اور اِس سے بھی زیادہ آگ لگنے سے معذور اور ناکارہ ہوگئے۔ سینکڑوں خاندانوں کی اِس بربادی پر حکومتِ وقت حسبِ معمول فی کس معاوضے کا اعلان کرکے بری الذمہ ہوگئی جبکہ عوام حسبِ روایت اِس سانحے کے ذمہ داروں کے تعین کے حوالے سے دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ اِس حادثے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جبکہ فریقِ ثانی کا موقف ہے کہ جل مرنے اور زخمی ہونے والے اپنی تباہی کے خود ذمہ دار ہیں۔ دونوں ہی فریقوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ جن کا جائزہ حسبِ ذیل ہے۔
حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے والوں میں مضبوط ترین دلیل ’’دارالشعور‘‘ پبلیکیشنز لاہور کے مدارالمہام جنابِ محمد عباس شاد کی ہے۔ لکھتے ہیں۔ ’’سانحۂ احمد پور شرقیہ مجھے دو برس پیچھے ماضی میں لے گیا۔ سعودی دارالحکومت الریاض سے نکلنے والی امارات روڈ پر تھے۔ شہزادہ مشعل بن عبداللہ بن عبدالعزیز ال سعود کے مشیر شیخ سدیری کے ساتھ صحرا میں ریفائنری کے تعمیراتی کام کا جائزہ لے کر واپس آرہے تھے کہ ٹریفک پولیس نے چھ رویا شاہراہ کو دونوں اطراف کی ٹریفک کے لیے بلاک کررکھا تھا۔ ایمبولینس تک کو گزرنے نہیں دیا جارہا تھا۔ شہزادے کے مشیر کو گاڑی نکالنے کی اجازت نہ ملی تو وہ برہم ہوکر قریب کھڑے آفیسر سے مخاطب ہوا کہ ’’ماجرا کیا ہے؟ دیکھتے نہیں ہو میں شاہی مشیر ہوں، مجھے گزرنے دو‘‘۔ تب ٹریفک پولیس کا آفیسر بولا ’’جناب آگے دو کلو میٹر دور پٹرول کا ایک ٹینکر اْلٹ گیا ہے۔ اداروں نے پانچ سو مربع میٹر تک کا علاقہ گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اِس گھیرے ہوئے خطے میں کوئی شخص بھی داخل نہیں ہوسکتا تو گاڑی کیسے گزر سکتی ہے۔ جب تک بلدیہ اور فائر بریگیڈ بکھرے تیل کو ریت سے ڈھانپ کر متاثرہ جگہ کو کلیئر قرار نہیں دے دیتے، تب تک میں کسی کو ایک انچ بھی آگے نہیں جانے دوں گا کیونکہ ہمارا کام آپ کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے‘‘۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد شاد صاحب اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ’’ایک ہمارا ملک پاکستان ہے جہاں ادارے تو ہیں مگر نصب العین نہیں، جہاں پولیس اور ٹریفک پولیس تو ہے مگر وہ بیچاری وزیروں مشیروں کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر مامور ہے۔ اگر ہمارے ادارے لوگوں کو متاثرہ جگہ سے دور رکھتے تو احمد پور شرقیہ میں اتنا بڑا سانحہ کبھی نہ ہوتا مگر یہاں تو اندھیر نگری ہے۔ ادارے لوٹ کھسوٹ اور چور بازاری میں لگے ہوئے ہیں اور حکمرانوں کو اپنی کرپشن بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اقربا پرور اور عوام دشمن حکمرانوں کی مسلسل لوٹ کھسوٹ نے عوام الناس کو جہالت و غربت کے اُس پاتال تک پہنچا دیا ہے جہاں وہ اپنا اچھا بُرا اور نفع نقصان سوچنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوگئے ہیں۔ اندریں حالات میرے اِن بدنصیب ہم وطنوں کا خونِ ناحق حکومتی اداروں اور نااہل سیاسی اشرافیہ کی گردن پر ہے‘‘۔ اِس کے برعکس دوسرا طبقۂ فکر حکمرانوں کی بجائے اِس سانحہ میں کام آنے والوں کو ذاتی طور پر ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے کہ اُن کی لالچ، طمع، حرص و ہوس اور مُفت بَری سے آلودہ ذہنیت اُن کی بربادی کا باعث بنی ہے۔ ایک صاحب رقمطراز ہیں ’’کیا لوٹے ہوئے پٹرول سے اِن لوگوں کے بچوں کو عید کے کپڑے یا کھلونے مل جانے تھے؟ کیا اِس پٹرول سے اِن کے گھروں کے چولہے مہینوں جل جانے تھے؟ کیا جلی ہوئی کاروں اور موٹر سائیکل مالکان کی گاڑیاں اِسی پٹرول سے چلنی تھیں؟ اگر اِن سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو مان لیجئے کہ مرنے والوں نے عذابناک موت اور زخمی ہونے والوں نے قابلِ رحم زندگی کو خود دعوت دی ہے۔ یہ اپنی تباہی کے ذمہ دار آپ ہیں‘‘۔
قارئین کرام! دونوں ہی فریقوں کے دلائل وزن دار اور غور طلب ہین۔ میں اِس ضمن میں ساحر لدھیانوی کا ہم خیال ہوں کہ ’’مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے… اور بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی‘‘۔ یہ تو محض گری پڑی چیز کی لوٹ مار کا موقع تھا، غربت و افلاس تو بقول نبی اکرمؐ کفر تک بھی لے جاسکتی ہے۔ یہ بھی بجا ہے کہ لوگوں کو اخلاقیات سکھانا حکومت کا کام نہیں مگر اُن کی جان ومال کی حفاظت کرنا تو حکومتی ذمہ داری ہے۔ اِس سانحہ میں متاثرین کی جانیں بچانے میں حکومتی اداروں کی کوشش کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ چنانچہ اِس سانحہ کی ذمہ داری کے حوالے سے منیر نیازی کے الفاظ میں نتیجہ یہ نکلا کہ
’’کُج شہر دے لوک بھی ظالم سَن
کُج ساہنوں مرن دا شوق وی سی‘‘

مناظر: 214
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ