ہم پاکستان کے لوگ جذباتی ہیں، سادہ ہیں یا کہ انتہا کے مخلص؟ کئی لوگ تو اپنے آپ کو جاہل کہنے تک چلے جاتے ہیں، لیکن میں حتمی رائے دینے سے کتراتا ہوں، البتہ یہ ضرورجانتا ہوں کہ ہم بہت مخلص لوگ یا قوم ہیں اور اسی کے ساتھ علمی وفکری طور پر بہت پیچھے۔ مجھے حبیب جالب مرحوم کا ایک جملہ یاد ہے جو انہوں نے فلیٹیز ہوٹل میں میرے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا، بڑا لاجواب جملہ ہے کہ ’’میں بھٹو کا دوست تھا، وہ تھا کہ نہیں، مجھے معلوم نہیں۔‘‘ یہ بات انہوں نے طبقاتی پس منظر میں کہی تھی۔ ملک معراج خالد ساری عمر ایفرو ایشین سالیڈیریٹی آرگنائزیشن میں سرگرم رہے۔ یہ تنظیم ساٹھ کی دہائی میں تیسری دنیا میں ترقی پسندوں کی ایک اہم ترین تنظیم تھی۔ اس کا ہیڈ کوارٹر قاہرہ میں ہے۔ مجھے بھی انہوں نے اس تنظیم میں شامل کیے رکھا۔ اس تنظیم کے حوالے سے ملک معراج خالد مرحوم کا عالمی سیاست میں خاص مشاہدہ رہا ہے جس میں خصوصاً مسلمان ممالک وعرب ممالک بھی شامل ہیں۔ 2003ء میں عراق پر امریکی حملہ آوری کے خلاف میں نے اور میرے دوست جناب فاروق طارق نے پہلی گلف وار کی طرح، عراق پر امریکی یلغار کے خلاف منظم تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور یہ تحریک اپنے حوالے سے خوب کامیاب ہوئی۔ اس کے لیے بائیں بازو کے گمنام اور موجود ایکٹوسٹوں کو اکٹھا کیا اور ’’اینٹی وار کمیٹی‘‘ کے پلیٹ فارم سے ہم نے پورے ملک میں مسلسل مظاہرے منظم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی۔ ملک معراج خالد حسب عادت ہمارے اس اقدام کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ اور کچھ ہی دنوں میں میٹنگز میں شامل اور مظاہروں میں حصہ لینے لگے۔ ایک دن میٹنگ میں اپنی باری پر میں بڑے جذباتی انداز میں بولنے لگا اور مصر، ترکی، لبنان اور مراکش میں موجود اپنے رابطوں کی ای میل پرنٹ کرکے اپنے ساتھ لے آیا۔ مصر کے دوستوں نے اپنی ای میلز میں مجھے کچھ مشورے دئیے تھے کہ کیسے قراردادیں پاس کی جائیں۔ جب میں بول چکا تو ملک معراج خالد بولے، ’’ہم اِن عربوں، ترکوں، سب کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں، لیکن کیا کبھی وہ ہمارے لیے ایسے بولتے اور ہمارے مسائل کی جدوجہد میں شامل ہوتے ہیں۔ میں نے کبھی اُن کو کشمیر پر ایسے پُرجوش ومخلص نہیں پایا جیسے ہم فلسطین لہو میں رنگنے، لبنان میں خانہ جنگی پر سراپا احتجاج ہوجاتے ہیں۔ بس اپنی فکر کرو اور اپنی فکر (Thought) پیدا کرو۔‘‘ لمحے بھر کو میں چونکا اور دل برداشتہ بھی ہوا ، لیکن دوسرے ہی لمحے میں ایک ایسا بڑا راز پا گیا جس نے میری فکری الجھنیں سلجھا دیں اور اب میرے عمل کا حصہ ہے۔
حالیہ 15جولائی کو پاکستان میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو یوں منایا گیا جیسے کہ 15جولائی 2016ء کو ترکی میں فوجی بغاوت ناکام نہیں ہوئی بلکہ پاکستان آمریت کے سایوں سے بچ گیا ہو۔ ہمارے چند پریس کلبوں میں تقریبات برپا ہوئیں۔ مسلم لیگ (ن) کیا، اور اس کی حکومت کیا، لاتعداد دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ پچھلے سال ترکی میں ناکام فوجی بغاوت پر دھواں دھار تقاریر کرتے نظر آئے۔ بلکہ میری ذاتی اطلاع کے مطابق ترکی سے اعلیٰ سطح کے سرکاری میڈیا کے لوگ ان تقریبات کو کور کرنے آئے اور پاکستان کے لاتعداد لوگوں کی گفتگوئیں بھی ریکارڈ کرکے اپنے میڈیا میں دکھانے کے لیے لے گئے ۔
یقینا مسلم لیگ (ن) حکومت پاکستان میں 15جولائی کی تقریبات کی سرپرستی کرکے پاکستان کی عسکری قیادت کو کچھ پیغام دینا چاہ رہی ہوگی۔ لیکن میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ حکومت میں شامل کسی اعلیٰ عہدے دار کو ترکی میں اس بغاوت کے ترک سیاست، حکمرانی، جمہوریت اور عسکری اداروں پر اثرات کے بارے رتی بھر میں منطقی معلومات میسر نہیں۔ لیکن پاکستان میں 15جولائی خوب منایا گیا۔ مجھے بھی ترکی کے ایک بڑے ٹی وی چینل کے نمائندے نے کہا، آپ اس پر رائے دیں۔ میں نے اس نمائندے سے کہا، بالکل میں اپنی رائے دینے کے لیے تیار ہوں، اگر تم 5جولائی 1977ء کی مسلط ہونے والی آمریت پر رائے دے دو اور تمہاری حکومت ہماری حکومت کی طرح ترکی میں 5جولائی 1977ء کی فوجی آمریت کو یومِ سیاہ کے طور پر منائے۔ ہم نادان ہیں؟ بے وقوف؟ سادہ؟ جذباتی یا جاہل؟ یہ جو ہم نے امت مسلمہ کی قیادت کا بیڑا اٹھانے کا بوجھ اٹھا رکھا ہے، اس کی حقیقت بھی یہی ہے۔ کسی کو پاکستان اور کشمیریوں کی پرواہ نہیں، مگر ہمیں اُن کی بڑی پرواہ ہے۔ گزشتہ سال ترکی کے میرے ایک دوست کے ساتھ منصوبہ بنا کہ ہم دونوں ممالک مزید دوستی کے لیے سرگرم ہوں۔ طے ہواکہ میں پاکستان میں کمال اتاترک کے حوالے سے تقریب منعقد کروں گا اور آپ ترکی میں قائداعظم محمدعلی جناح کے حوالے سے تقریب رکھیں اور یوں ہم بانی رہنمائوں کا دن منا کر ایک خاص تاثر قائم کریں گے۔ میں نے تو اپنے آپ کو بڑا سرگرم کرلیا لیکن وہ صاحب یوں خاموش ہوئے کہ مجھے اپنے طویل تجربے اور مشاہدے پر کہنا پڑا، “You Materialist!” ۔ اور جب میں نے کہا کہ ایک اور گروپ بناتے ہیں کشمیر کے حوالے سے تو اس ترک دوست نے کہا، بھارت ناراض ہوجائے گا۔ حالاںکہ میں قبرص کے حوالے سے تقریب منعقد کرنے اور رائے عامہ بنانے کا منصوبہ بنا چکاتھا۔ ہاں 15جولائی کو ترکی میں مَیں نے ناکام فوجی بغاوت پر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے صرف ایک تجزیہ نگار تھا۔
نہ جانے کیوں ہم دوسروں میں اپنی کامیابیاں تلاش کرنے کے درپے ہیں۔ کیا پاکستان کی قسمت اردوآن بدلے گا؟ کیا مہاتیر محمد نے پاکستان کی قسمت بدل دی؟ کسی موضوع پر Expert ہونا اور بات ہے، لیکن دوسروں کے لیے مرے جانا اور اپنے ہاں لوگ مرے جائیں، یہ حال ہوچکا ہے ہمارا! یہ ایک اعلیٰ بات ہے کہ ہم پاکستان کے چین، ترکی، ایران، مصر یا کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کریں۔ لیکن اُن کے ہاں میں ایسی سرگرمیاں کم ہی دیکھتا ہوں۔ ہمیں اُن کی فکر ہے اور اُن کو اپنی اپنی فکر۔ بس! یہ اچھی بات ہے کہ ہم یہ جانیں کہ 15جولائی 2016ء کو ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کیسے ہوئی، کیوں ہوئی اور اس کے اثرات کیا ہیں اور بحیثیت جمہوریت پسند اس کو مسترد بھی کریں، لیکن میں حیران ہوں کہ عرب، ترک، ایرانی، یہ سب ہم پاکستانیوں کی طرح ہم پر مرے مٹے نہیں جاتے۔ اور یہ بھی ہماری بھول ہے کہ ہم امت مسلمہ کی قیادت کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور ہم ہی اس کے اہل ہیں۔ ہم اپنی قیادت آپ تو کر نہیں سکے ، دوسروں کی قیادت کیا خاک کریں گے۔ اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ایرانی، عربوں کی قیادت، یا ترک، ایرانیوں، عربوں اور دوسرے مسلمان ممالک کی قیادت کریں ۔ یہ ایک یوٹوپیائی تصور بن کر رہ گیا ہے۔ اب قیادت وہ ملت، قوم اور ریاست کرے گی جو سائنس، ایجادات اور معیشت میں قیادت کرے گی۔ ہم جیسی قوموں کے لیے یہ ایک اچھا لولی پاپ ہے، امت مسلمہ کی قیادت۔ کبھی استنبول کی گلیوں میں، عام ترکوں میں عربوں کے بارے، اور بیروت کی گلیوں میں ایرانیوں کے بارے رائے اور جدہ کی گلیوں میں ایرانیوں اور ترکوں کے بارے آراء کو تحقیق کرکے اکٹھا کریں تو معلوم ہو ’’امت ِ مسلمہ کے اتحاد‘‘ کی حقیقت۔
کاش ہم پاکستان کی قیادت کرنے کے اہل ہی ہو جائیں۔ بیس کروڑ کی آبادی رکھنے والی ریاست کو مغرب میں ہی ناکام ریاست نہیں کہا جاتا، اب آپ انقرہ، بیروت، قاہرہ کی گلیوں میں عام لوگوں سے اپنے بارے میں پوچھیں۔ اور ہاں ایک بار ضرور شیئر کرنا چاہوں گا۔ ہم جب کسی عالمی کانفرنس میں جاتے ہیں تو وہاں سے یہ رائے بنا کر لے آتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں بہت اعلیٰ سوچتے ہیں۔ مجھ پر یہ راز بھی بہت پہلے کھل گیا کہ کانفرنسز میں تو Like Minded لوگ ہوتے ہیں۔ اور دوسری بات جن ممالک میں سیاحت ایک صنعت ہے، جیسے ترکی میں، تو ان ممالک کے دکان دار، ہوٹل، ریستوران والے اپنے گاہکوں کو متوجہ کرنے اور ’’کاروباری محبت‘‘ پیدا کرنے کے لیے آپ کی زبان سے چند الفاظ استعمال کرتے ہیں اور محبت کے پہاڑ چند سیکنڈز میں کھڑے کردیتے ہیں۔ مثلاً ترکی میں ایک علاقہ روسی سیاحوں کے حوالے سے مشہور ہے، دوسرا جاپانی، تیسرا فرانسیسی، چوتھا جرمن، وہاں کے دکان دار اُن سے یوں ملتے ہیں جیسے بچھڑے بھائی۔ اور اسی طرح ہم سادہ لوح پاکستانی سیاحت کے چار چھے روز میں یہ رائے قائم کرکے وطن لوٹتے ہیں کہ فلاں قوم ہمارے ساتھ بہت محبت کرتی ہے۔ مرمٹتے ہیں ہمارے لیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی ترک، عرب یا ایرانی ہمیں لاہور کی سڑک پر مل جائے تو ہم اس کی یوں آئوبھگت کرتے ہیں کہ اس کو ہماری محبت پر شک ہونے لگتا ہے۔ ہم سادہ لوح پاکستانی، ہمیں دوسروں کی بہت فکر ہے، کاش ہم اپنی فکر کرنا شروع کردیں۔ ہم دوسروں کے تجربات سے سیکھیں ضرور، یہ علم ہے۔ لیکن ہمیں فکر اپنی کرنا ہوگی اور اپنی ہی فکر (Thought) کو جنم دینا ہوگا۔ اپنا جہاں آپ پیدا کرنا ہوگا۔