کیمسٹری جس کو عرب دنیا میں الکیمی کہا جاتا تھا، ایک تاریخ رکھتی ہے۔ یہ شعبہ ان تین بڑے شعبوں میں سے ایک ہے، جو کائنات اور زندگی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں، ان میں فزکس، بیالوجی اور کیمسٹری شامل ہیں۔
کیمیاء یا کیمسٹری فرعون کے زمانے میں مختلف کیمکلز کو ایک تناسب سے ملا کر ممیز بنانے کا فن، ہنر و ٹکنالوجی اس تہذیب کا نمایاں کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ گلاس، کانی کنی سے میٹل اور ادویات بنانے کی کیمسٹری شامل تھی۔ مصر کے زوال کے بعد جب یونانیوں نے ان پہ قبضہ کیا تو اس علم کو انہوں نے بھی زندہ رکھا اور یہ شعبہ مصر کی سر زمین پہ ہی پھلتا پھولتا رہا۔ رسول اللہ کے عرب میں انقلاب کے بعد جب اسکندریہ شہر فتح ہو گیا تو وہ تمام علوم جو مصر میں چل رہے تھے ان میں سے ایک کیمسٹری بھی تھا۔ اس علم کو ترقی دینے میں بنو امیہ اور بنو عباس کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب صلیبی جنگیں شروع ہوئیں تو بہت سارے یورپین مفکر بھی دو صدیوں تک (پہلی صلیبی جنگ 1095-1100ء کے دوران ہوئیں، جبکہ چوتھی صلیبی جنگ 1198-1207 ء کے لگ بھگ ختم ہوئی)عرب دنیا کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اس دوران وہاں کے کحچھ لوگوں نے کیمسڑی کو سمجھنا اور بطور فن کے لینا شروع کیا– لیکن جب وہ یورپ جا کر وہ نظریات پھیلاتے تو وہاں سے ان کو مذاہمت ہوئی خصوصاً اساس سے گولڈ میٹل یا دوسری دھاتوں کو بنانے کی بات کرتے تو وہاں کے پالیسی میکرز اس کو رد کر دیتے تھے، اس فن کو وہ لالچ کہتے تھے، اور یہ سلسلہ 1200ء سے 1600 ء تک چلتا رہا۔ بہت سارے ملکوں نے اس پہ پابندی لگا دی تھی۔ لیکن یہ فن وہاں کی الیٹ میں پنپتا رہا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی ڈگری 1231ء میں ایشو کر دی گئی لیکن وہاں پہ سانئس کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی، زیادہ تر بائیبل اور سیاست ہی پڑہائی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ 1600 ء تک چلتا رہا۔ بوائل کا جو قانون اکثر آج کل پاکستان کی کتابوں میں پڑہایا جاتا ہے، اس کی کتاب 1661ء میں آئی، جس کا عنوان تھا، سیپٹیکل کیمسٹس، جس کا مطلب شکی کیما کر لیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔ بوائل وہاں کے امیر ترین لوگوں میں سے تھا اور وہ یہ کام صرف فن کے طور پر کرتے تھے، جبکہ کوئی اکنامک اہمیت نہیں تھی۔ 1
عرب دنیا میں 1258ء میں بغداد ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور اب مشرق میں تہذیب اور علوم کو ترقی دینے کی ذمہ داری منگولوں پہ آن پڑی۔ منگلولوں نے ان علوم کو مزید ترقی دی، اور کیمسڑی سے راکٹ سائنیس کی بنیادیں ڈالیں۔ بابر وہ پہلا منگول تھا جس نے راکٹ سے جنگ لڑی۔ اب صرف کیمسڑی ہی نہیں اس نے فزکس کو بھی ملا کر ایک نئی ٹکنالوجی متعارف کرائی۔ 1582ء میں ملٹی پل راکٹ لانچرز کو فتح اللہ شیرازی نے متعارف کرایا۔ اس نے لانچرصاف کرنے کا آٹومیٹ طریقہ ایجاد کیا جس 16 گنز بیرل کو بیک وقت صاف کیا جاتا تھا اور گائے کے ذریعے چلتا تھا۔ میٹل سیلںڈر کے ذریعے چلنے والے راکٹ دریافت کئے۔18 صدی میں حیدر علی نے مغلوں کی میٹل سلنڈر راکٹ ٹکنالوجی کے ذریعے انگریزوں کو دوسری میسور جنگ میں ہرایا تھا اور اس وقت تک انگریزوں کے پاس یہ ٹکنالوجی نہیں تھی۔ حیدر علی کے سانئیسدانوں نے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے راکٹ کا دنیا میں پہلا تجربہ 1782ء میں کیا۔ ویل لانچر کا استعمال بھی ٹیپو سلطان کے دور میں پہلی دفعہ متعارف ہوا۔
راکٹ سائنیسدانوں کے علاوہ مغل دور کے بڑے سائینسدانوں میں دین محمد تھے، جو صابن2، شیمپو، اور اس طرح کی دیگر گھریلو اشیاء بنانے کا ماہر تھا۔ مغلوں کے دور میں ان اشیاء کو جن جگہوں پہ بنایا جاتا تھا ان کو کارخانہ کہا جاتا تھا۔ تاریخی اعتبار سے اس وقت دین محمد کو کنگ جارج 4 اور کنگ ویلیم 4 کا شیپو سرجن بھی بنایا گیا تھا۔ 2
مغلوں سے پہلے خلجی دور میں یونانی فلسفی کو مزید دوام دے کر ہندوستانی– یونانی ادویات کی ٹکنالوجی مرتب کی گئی۔ علی گیلانی جو اکبر کے دور کا بڑا سائنسدان تھا، اس نے تھکاوٹ کو دور کرنے والی پہلی دوا متعارف کرائی، جو کہ آج کل کی پیناڈال کا کام کرتی تھی، لیکن وہ مائع حالت میں تھی۔ اس کے علاوہ پرفیومز پہ بھی بہت کام کیا گیا اور عطر جہانگیری برانڈ کا پرفیوم نورجہاں کے دور میں بنایا گیا۔ اس دور کی بڑی کتابوں میں طب اکبری، اور میزان الطب مشہور ہیں، جو عربی سائنس کی ترقی یافتہ پاکستانی یا ہندوستانی یا مغل سائنس کہی جا سکتی ہے۔ 1793ء میں کلکتہ میں میڈیکل ادویات کی پہلی ڈکشنری پبلش کرائی گئی اور اس کو گلاڈون نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ جب انگریزوں نے ہندوستان فتح کر لیا تو پھر اسلامک یونانی ادویات اور عربی اسلامک/ مغل اسلامک ادویات کو ترقی نہ دی۔ البتہ انفرادی جدوجہد کی وجہ سے کحچھ لوگوں نے ان فنون کو زندہ رکھا جس کی موجودہ شکل آج کل کی قرشی انڈسٹریز ہیں۔
مغلوں نے میٹل کو بہت ترقی دی اور اکبر کے سکے اس دور کے سب سے بہترین سکے شمارکے جاتے تھے۔3
پاکستان میں جس طرح سے مغربی آقاؤں کی تعریف کی جاتی ہے اور مغرب کو ہی سائنس اور ٹکنالوجی کا باپ مانا جاتا ہے، وہ ناصرف حقیقت سے ہٹ کر ہے، بلکہ ان لوگوں کی تذلیل بھی ہے، جن کی وجہ سے آج ہمیں اسلام، اردو اور ایک نئی شناخت ملی۔ ان کے کارناموں کو عدل کے ساتھ پیش کرنا اور سائنس کی ترقی میں سب انسانی تہذیبوں بشمول مصر، یونان، عرب، مغل، یورپ و انگلستان کو جائز مقام دینا ایک لکھاری کی ذمہ داری ہے، تاکہ غلامی کو جائز کروانے والے کرداروں بالخصوص سر سید اور مسلم لیگ کے جھوٹے پراپیگنڈا کا مقابلہ کیا جاسکے۔
حوالہ جات