جہاں گردی کے راستوں کی منصوبہ بندی کا انحصار میری دلچسپیوں پر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی سیدھے سفر کرتے گئے اور طے شدہ شہروں، قصبات اور علاقوں کو دیکھتے اور عبور کرتے چلا جاتا ہوں اور کبھی کبھی یہ عمل سیدھا جاکر واپس اور پھر دوسری طرف روانہ ہوجانے پر مشتمل ہوتا ہے۔ کیتھرین کی سرخ رینالٹ کار کے سٹیئرنگ پر ذمہ داری اس کی تھی اور روٹس طے کرنا میری ذمہ داری تھی۔ جیرونا، فرانس سے سپین داخل ہوتے ساتھ میرے نشان زدہ مقامات میں پہلا مقام تھا۔ آگے جانے سے پہلے ہمیں ایک بار پر پھر فرانس سپین سرحد پر واپس آنا تھا۔ جیرونا میں پہلا دن گزارنے کے بعد۔ شہر سے باہر موجود سستی ترین کیمپنگ میں قیام اور پہلی رات سپین میں گزارتے ہوئے ایک عجیب احساس تھا۔ کیمپنگ میں لیٹے یوں لگا جیسے میں کسی عرب مسافروں کے کارواں میں شامل ہوں۔ چھوٹے سے کیمپ کے اندر گھاس پر چٹائی بچھا کر نیند کی آغوش میں ایسا گیاکہ پھر مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں تھا۔ رات کو بھرپور نیند کے سبب جیرونا میں پہلی صبح کا آغاز ، ایک نیا جذبہ ٔ جہاں گردی موجزن تھا۔ ہماری اگلی منزل درحقیقت ایک بار پھر واپسی سپین فرانس سرحد پر واقع ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ پیرینی پہاڑوں کے اندر دھنسی معمولی سی یورپی ریاست انڈورا۔
انڈورا ایک بلدیاتی سطح کی ریاست ہے۔ پولیٹکل سائنس کی اصطلاح میں اسے سٹی سٹیٹ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ 1998ء میں چھے لاکھ کے قریب اور آج اس کی آبادی تقریباً آٹھ لاکھ نفوس کو چھو رہی ہے۔ اس کو Principality of Andorraاور Principality of the Valley of Andorra بھی کہا جاتا ہے۔ فرانس اور سپین کے درمیان چھوٹی سی سینڈوچ ریاست۔ مگر ہے خودمختار ریاست۔ یہ یورپ کی چھٹی چھوٹی ریاست ہے۔ عجب تاریخ اور سیاسی نظام ہے اس ملک کا۔ اس ریاست کے دو حکمران ہوتے ہیں۔ اس کے دو حکمرانوں کے باعث اسے ’’دو شہزادوں‘‘ کا ملک کہا جاتا ہے۔ کیتالونیا کے ساتھ اس تاریخی ریاست کا آغاز پانچویں صدی میں ہوا۔ اس ریاست کا ایک سربراہ (Co-Prince) اُرگل کے رومن کیتھولک چرچ کا بشپ جوکہ سپین کے کیتالونیا کا بشپ ہوتا ہے، بحیثیت شریک سربراہ ریاست ہوتا ہے اور دوسرا فرانس کا منتخب صدر۔ عجب ریاست ہے کہ سربراہان ریاست دو اور دونوں ہی مختلف ممالک سے۔ ایک مذہبی پیشوا اور دوسرا نہایت جمہوری طریقے سے منتخب سربراہِ حکومت (صدر فرانس) ۔ ایک نہایت مذہبی شخصیت اور دوسرا سربراہِ حکومت مکمل جمہوری عمل کی پیداوار۔ کتنا دلچسپ تضاد ہے۔ یورپ جس نے صدیوں پہلے کلیسا سے سیاست اور ریاست کو علیحدہ کرلیا تھا، لیکن یہاں کلیسا کی حکمرانی آج بھی موجود ہے۔ انتخابات دوسری یورپی ریاستوں کی طرح براہِ راست ہوتے ہیں اور ایک باقاعدہ پارلیمانی طرزِحکومت بھی ہے۔ لینڈلاک ملک ہونے کے ناتے بحری افواج کا ہونا تو سوال ہی نہیں جبکہ انڈورا کے دفاع کی ذمہ داری فرانس اور سپین کے ذمہ ہے، اس لیے مسلح افواج کا اس ملک میں وجود ناپید ہے۔ پورے ملک میں 240 کے قریب پولیس افسران ہیں۔ پولیس کا نظام تمام شہریوں کی مدد سے چلتا ہے۔ اپنی تاریخی شناخت پر سخت گیری دیکھئے کہ انڈورا، یورپی یونین کا رکن نہیں، مگر ملک کی کرنسی یورو ہے۔ 1993ء میں اقوامِ متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی یورپ کی یہ پرنسپلی سٹیٹ۔
کیتھرین جیسی دانشور، فلم ساز اور ایکٹوسٹ اپنی معلومات پر شرمائی شرمائی سی تھی۔ انڈورا روانگی کے لیے بیٹھے تو کیتھرین نے نہایت فراخ دلی سے کہا، ’’مجھے مناکو اور لکسمبرگ کا تو علم تھا، لیکن یورپ کی اس قدیم بچہ ریاست کے بارے میں قطعاً علم نہیں تھا۔‘‘ پسماندہ تیسری دنیا کا شہری ہونے کے ناتے پیرس کی دانشور دوست کے سامنے اپنی ان معلومات پر جس طرح نازاں ہوا، اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بس سینہ پھلا کرکہا، اب دیکھو گی تم انڈورا، یورپ کا ایک اور ملک۔
جیرونا سے نکلتے ساتھ ہی خوب صورت وادیاں ہمارے سامنے تھیں۔ قصبات اور دیہات کے ناموں سے لگ رہا تھاجیسے مسیحیت یہاں ایک نیا مذہب ہے۔ مسلمانوں کے ہسپانیہ کے بعد مسیحیت نے سپین میں دوسرا جنم لیا۔ جگہوں کے ناموں اور جابجا قدیم کلیسائوں کا زندہ وجود اس بات کا ثبوت تھا۔ غیرمعروف مقامات اور خطوں کو دیکھنا دراصل تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ اگر مسافروں کے انداز میں دیکھا جائے تو یہ نہایت بے وقوفانہ فیصلہ تھا کہ ہم آگے بارسیلونا جانے کی بجائے واپس پیچھے فرانس سپین سرحد کی طرف چل نکلے۔ جیرونا سے انڈورا کا سفر تین گھنٹے پر مشتمل تھا اور پھر ہم نے رات تک انڈورا سے سیدھا بارسیلونا پہنچنا تھا۔ متعدد کلیسائوں کی ساخت قدیم مساجد جیسی تھی۔ یقینا متعدد مساجد کو کلیسا میں تبدیل کیا گیا تھا، جیسے مسلمانوں کی آمد کے بعد زیادہ تر کلیسائوں کو مساجد میں۔ کیتالونیا کے لوگ اپنے آپ کو ہسپانوی کہلانے پر احتجاج کرتے ہیں۔ سپین سے ان کی علیحدگی یا آزادی کا ایک ثبوت صبح نہاتے ہوئے کیمپنگ کے باتھ روم میں لکھے نعروں سے ملا۔ یورپ کی قدیم ریاست انڈورا میں داخل ہونے سے پہلے سپین کا آخری بڑا قصبہ Le Seu D’Urgell تھا۔ کیتھرین اور میری دل کی دھڑکنیں گاڑی کی رفتار سے کہیں تیز تھیں۔ کامریڈ کیتھرین کی سرخ رینالٹ ان دو سرخوں کے لیے کسی فوروھیل وہیکل سے کم نہ تھی۔ یہ گاڑی اس طویل سفر کے آغاز سے پہلے باقاعدہ ورکشاپ گئی تھی۔ ورکشاپ والوں نے بہ مشکل ہی اسے اس طویل سفر کی اجازت دی تھی۔
ہم نے سپین کی سرحد پیچھے چھوڑی تو انڈورا کا پہلا قصبہ سینٹ جولیا ڈی لوریا ہمارے سامنے تھا۔ سپین اور انڈورا کی سرزمین کے لوگوں کی شکل وصورت، بودوباش میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔ بس ایک تاریخی نخرہ ہے اس ریاست کا۔ ہاں، یہاں بھی مذہب کا دوسرا جنم صاف ظاہر ہورہا تھا۔ جگہ جگہ قصبات ودیہات کے نام ’’سینٹ‘‘ سے شروع ہورہے تھے۔ہمیں یورپ کے اس ’’بچہ ملک‘‘ کے دارالحکومت جانا تھا۔ ’’انڈورا لاوِلا‘‘۔ 181 مربع میل رقبے پر مشتمل دنیا کے گیارھویں ملک کے اندر داخل ہونے کا تجربہ۔ انڈورا ہمارے جیسے دیوانے مجنون سیاحوں کی جنت ہے۔ یونانی مؤرخ بیعس کے بقول، یہ خطہ رومن تاریخ سے قبل ان آئبرین قبیلے کی آماجگاہ ہے جنہوں نے اس ریاست کا وجود تشکیل دیا۔ بڑی بڑی سلطنتوں کی جنگوں کے دوران اُن کی افواج اس خطے کو روندتے ہوئے پیرینی کے پہاڑ عبور کرتیں۔ اس کے نام کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ انڈورا قدیم باسک زبان میں ’’پانی‘‘ کو کہتے تھے، اسی سے اس ریاست کا نام انڈورا نکلا۔ کچھ محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ عربی زبان کے لفظ ’’الدرۃ‘‘ (جنگل) سے نکلا اور ہسپانوی مسلمانوں Moors نے گھنے جنگلات کے سبب اس خطے کو یہ نام دیااور اسے اسی نام سے پکارنے لگے۔ جنگل تو بے تحاشا پائے ہم نے ۔
انڈورا کی پارلیمنٹ کو ہم نے شہر کا پہلا پڑائو قرار دیا۔ پارلیمنٹ ایک قدیم عمارت میں قائم کی گئی ہے جس سے اس قدیم ریاست کے باسیوں کا اپنی ریاست پر فخر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پہاڑوں کے درمیان وادی میں پارلیمنٹ کی قدیم عمارت کا حُسن اپنے جوبن پر پایا۔ انڈورالاوِلا، پیرینی سلسلے کے مشرقی پہاڑوں کی نہایت بلند سطح پر واقع ہے۔ اسی لیے موسم قدرے معتدل تھا۔ سردیوں میں تو یہاں برف پر Ski ہوتی ہے۔کیتھرین میرے سیاحتی انتخاب پر خوش تھی۔ تاریخ، تہذیب وتمدن اور لینڈسکیپ ۔ اگر انڈورا لاوِلا کو کسی قریبی پہاڑی مقام سے اوپر جاکر دیکھیں توشہر پیرینی پہاڑوں کی خوب صورت وادی کے اندر پیالے میں پڑا لگتا ہے۔ پارلیمنٹ کے بعد ہم نویں صدی کے ایک قدیم چرچ سانتا کلولوما دیکھنے چلے گئے۔ پورے ملک کی سیاحت سے 80فیصد آمدن اس شہر کے سبب ہے۔ آج کل سالانہ ایک کروڑ کے قریب سیاح اس شہر کی تاریخ اور قدرتی مناظر کے سبب یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ہم دونوں اس شہر میں گھومتے گھومتے گم ہوجانا چاہتے تھے جوکہ اس کے حجم کے سبب ممکن نہ تھا۔ البتہ شہر کی تعمیرات کا حُسن تو تھا ہی، مگر قدرت کا حُسن بے مثال پایا۔ بلندوبالا پہاڑ زمین پر سڑکوں کو چھوتے۔ جگہ جگہ سگریٹ اور سگار کی دکانیں دیکھ کردلچسپی ہوئی کہ کیا یہاں کے باسی کھانے کی بجائے تمباکو نوشی ہی کرتے ہیں؟ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ انڈورا ٹیکس فری ریاست ہے اور تمباکو کو سگریٹ اور سگاروں میں بدلنے والی متعدد فیکٹریاں یہاں قائم ہوگئی ہیں۔ اب ہر سیاح اپنی پسند کا برانڈ سستے داموں یہاں سے خرید سکتا ہے۔ اور یہاں یورپ کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں تمباکونوشی پر قوانین بھی ڈھیلے ڈھالے ہیں۔ انڈورا کا اپنا نیشنل بینک بھی نہیں، پہلے فرانس اور سپین کی کرنسی یہاں سرکاری کرنسی تھی اور اب یورو، حالاںکہ انڈورا یورپین یونین میں شامل نہیں۔ ایک ہزار سال سے جنگوں سے دور رہنے والی ریاست کا وجوداس کے امن پسند فلسفے اور Pragmatic فکر کے سبب ممکن ہوا۔
انڈورالاوِلا میں سارا دن گھوم کر بھی ہمیں تھکاوٹ کا احساس نہ ہوا۔ ایک غیرمعروف اور تاریخی بستی کو پالینے کی خوشی، سیاحتی اطمینان کا عروج ہوتا ہے۔ لنچ اور ڈنر کو ہم نے اسی لیے آپس میں جوڑ دیا کہ اس سے وقت اور جیب کی بحث ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کا بھی خیال رہے۔ ایک گلی کے نکڑ پر واقع ریستوران پر انگریزی میں لکھا تھا، مشہور ہسپانوی پائیلہ(Paella)۔ سی فوڈ سے بنا ہسپانوی پلائو۔ ہم دونوں نے اپنی حلال آمدن سے حلال پلائو کھانے کا فیصلہ کیا۔ اس سفر کے دوران یہ ہماری پہلی ہسپانوی خوراک تھی۔ زعفران کی خوشبو میں مہکتا پائیلہ، ہسپانوی مسلمانوں کی تہذیبی خوشبو کی تہذیبی باقیات اور اثرات۔