جنگ عظیم دوم سے پہلے اور بعد کے دور میں دنیا یکسر بدل گئی، لیکن جن خطوں میں غلامی زیادہ عرصہ تک قدم جمائے رہی ان قوموں میں معاشی، انجینرنگ، اور ٹکنالوجی کے ادارے پنپ نہ سکے۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی نظام تھے۔ شمال مشرقی ایشیاء کے مملالک جن میں کوریا، جاپان، تائیوان اور چین شامل ہیں، میں بیرونی مداخلت تو تھی، لیکن یہ ممالک مکمل طور پہ غلام نہ بنے۔ اس وجہ سے وہاں کے مزاج قومی رہے اور اپنی ایک مخصوص سوچ رہی۔ اگرچہ کوریا کچھ عرصے (35 سال، 1910-1945ء) تک جاپان کا غلام رہا، لیکن یہ کوئی اتنا بڑا وقت نہیں تھا، جس میں جاپانی ان کے سماجی نظام میں سرائیت کر سکتے، ان میں فرقے اور گروہ بنا کر ان کو ذہنی غلام بنا سکتے۔ یہ قومیں اس دور کی صنعت و تجارت میں غالب تو نہ تھیں، لیکن 1800-1945ء کے دوران جو بھی صنعتی تبدیلیاں آئیں ان کا حصہ رہیں اور ساری صنعتوں کے ماہرین کسی نہ کسی صورت میں اس شمال مشرقی خطے میں موجود تھے۔
ان ممالک کے برعکس جنوبی ایشیاء کے اندر انگریز سماج مکمل طور پہ گھس کر ان میں گروہ پیدا کر چکا تھا۔ یہ سب گروہ آپس میں لڑتے تھے اور انگریز کی پالیسیوں کے خلاف متحد نہیں ہوتے تھے۔ انگریزوں کی اس پالیسی کی بدولت جہاں جنوبی ایشیاء کا مزاج، سماج، معاش، اور صنعتی ادارے تباہ ہو گئے۔ صنعت کو ختم کر دیا گیا، ذہن کو مکمل طور پہ انگریزی اور انگریز سے مرعوب کروا دیا گیا، اور جہالت انتہا کو پہنچ گئی۔ جب انگریز جنوبی ایشیاء سے گیا تو یہاں کی شرع خواندگی صرف 8-12 فیصد تھی، جب کہ اس وقت برطانیہ کی شرع خواندگی 90 فیصد تھی۔ حالانکہ یہاں کے سماج کو ترقی دینا برطانیہ کی ذمہ داری تھی۔ جنوبی ایشیاء کے سماج کو اوپر اٹھنے کے لیے بہت زیادہ جدوجہد کرنا پڑی۔ لیکن چونکہ یہاں پہ ادارے کمزور تھے اور ایسے خاندان اقتدار میں آگئے تھے، جن کی تربیت میں قومی مزاج نہ تھا۔ ان کے اپنے فیوڈل مفادات تھے جس کی وجہ سے کوئی ایک سیاسی طاقت نہ بن سکی۔ پاکستان کے دفاعی اداروں کو بھی قومی مزاج بنانے میں 50 برس بیت گئے۔ کوریا کی طرح فوجی حکمران کا مزاج بھی مشرف سے پہلے اتنا قومی نہ تھا اور ان کے ادوار بھی کوئی بریک تھرو پیدا کرنے میں ناکام رہے۔
جنوبی ایشیاء سے قدرے بہتر لیکن شمال مشرقی ایشیاء سے بہت پیچھے، جنوب مشرقی ایشیائی اقوام، جن میں تھائی لیںڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا، ویت نام، تائیوان، اور فلپین شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر ممالک بھی زیادہ عرصے تک یورپ کے غلام رہے۔ ان کے سماج میں بھی رجعت پسندی تھی۔ جب آزادی ملی تو ان کے ادارے بھی اتنے مضبوط نہیں تھے، وجہ وہی سماجی گروہ بندیاں۔ ملائیشاء میں چینی اور مالے نسل کے درمیان مسائل تھے۔ ملائیشیا کو تقسیم کر کے سنگاپور الگ کرنا پڑا۔ کثیر النسل اور کثیر المذاہب خطے کو سمیٹنے اور ان کے وسائل کو چینل کرنے میں ان کو اتنا وقت لگا کہ ان سے پہلے جنوبی کوریا اپنے برائنڈ بنا چکا تھا۔ جب مہاتیر محمد کو اقتدار ملا، تو اس نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا، وہاں کی صنعت اور معاشی اداروں کی پالیسیوں کو دیکھا۔ ملائشیاء جا کر اس نے اپنے وژن کے مطابق پالیسیاں بنائیں۔ ملائیشیا نے پروٹان کار برانڈ متعارف کرایا، لیکن وہ 2001 ء میں ہوا۔ ان کے مقابلے میں کورین پہلے ہی اپنے برانڈ متعارف کروا چکے تھے۔ اگرچہ کوریا کی ترقی میں بالواسطہ طور پہ امریکی آشیرباد ضرور رہی ہے، لیکن کورین سماج کی اپنی محنت اور نظم کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انڈونیشیاء بھی کئی یورپی طاقتوں کا غلام رہا، جن میں پرتگیزی، برطانوی، اور فرانسیی شامل تھے۔ وہاں کے لوگوں میں بھی بہت زیادہ سماجی مسائل تھے، جن میں ایک وصف کام چوری، اور بدیانتی تھا۔ آزادی ملنے کے بعد سکارنو نے جو پالیسیاں بنائی، جن خاندانوں یا اشخاص کو سرمایہ داری کمپنیاں سونپی، ان میں اوم لیم اور سورے یادجایاس ہیں۔ انہوں نے فراڈ کیئے اور قومی بنکوں سے جو پیسہ ملا ان سے اہم صنعتیں لگانے کی بجائے پیسے کو عام کاروباروں میں لگایا، جس سے نئی ٹکنالوجی پیدا نہ ہوئی اور نہ ہی ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوا۔ اوم لیم نے تو قومی بنکوں سے بہت سارا پیسہ لے کر سیاسی لوگوں کو رشوت بھی دی اور فرضی پراجیکٹس بھی بنائے۔ انڈونیشیاء کی مثال پاکستان کے سرمایہ داروں جیسی لگتی ہے۔ اگرچہ کورین کمپنیاں بھی سرکاری مال ہڑپ کر کے ہی بنی لیکن ان کے مالکوں نے ٹکنالوجی بنائی بھی اور چرائی بھی، نتیجہ اچھا رہا تو ان کی طرف کسی نے شور نہیں مچایا۔ (سرمایہ داری نظام میں کمپیناں کھڑی تو سرکاری پیسے سے ہوتی ہیں، لیکن بعد میں سرمایہ دار سب کحچھ اپنی محنت کا پھل قرار دیتا ہے۔ جیسے پاکستان میں ایم- سی-بنک کو میاں منشا کو دیا گیا، لیکن میاں صاحب نے بھی ابھی تک کوئی خاطر خواہ تبدیلی پیدا نہیں کی-)
فلپین کی تاریخ بھی بیرونی مداخلت سے بھری پڑی ہے۔ فلپین 1521ء میں سپین کی کالونی بن گیا، پھر 1849ء میں سپین امریکہ سے ہار گیا اور امریکہ فلپین کا آقا بن گیا۔ 1946ء میں فلپین ایک آزاد قوم بن گیا، لیکن یہاں کا سماج اپنی آزادانہ سوچ کھو بیٹھا تھا۔ بیرونی حکومتوں نے یہاں پہ سماجی بہتری کا کوئی پروگرام نہ بنایا، جس کی وجہ سے یہاں کی فطرت مسخ ہو چکی تھی۔ پالیسیاں بنانا اور ان پہ عمل نہ کرنا ان کا وتیرہ ہے۔ کئی دفع زمیںی اصلاحات کا قانون پاس کیا گیا، لیکن عمل درآمد نہیں ہوا۔ یہاں کا سماج ایسے حکمران اور تحریکیں پیدا کرنے سے قاصر رہا جن میں قوت ارادی مضبوط ہو۔ اس کی بنیادی وجہ غلامی کے دور میں منشیات کا وسیع کاروبار تھا۔ مزاج جب جسم یا نشے کا عادی ہو جاتا ہے تو سستی آ جاتی ہے۔ یہ فلپینی قوم کا جذباتی تجزیہ ہے اور اس کی جڑیں غلامی کے دور میں رکھی گئی تھیں۔
ویت نام میں بھی یورپی مداخلت اور بزور طاقت اپنے عقیدے کو مسلط کرنے کی پالیسی 1787ء سے شروع ہو گئی تھی۔ بعد میں ویت نام فرانس کی کالونی بن گیا۔ فرانسیسی اقتدار 1954ء تک جاری رہا۔ آزادی کے بعد ویت نام ایک بار پھر (1964-1973ء) امریکی استعمار کا شکار رہا۔ ویت نام کے اداروں کو مظبوط ہونے میں بھی وقت لگے گا، کیونکہ یہاں کا سماج بھی زرعی دور کی سوچ کو ختم کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوا ہے۔
اس ساری بحث سے جو درج ذیل اصول اخذ ہوتا ہے۔
اصول نمبر 3:غلامی قوم کے مزاج پہ اثر انداز ہو کر قوم پہ ایسے لوگ مسلط کروا دیتی ہے، جو قوم کو جاہل، سست، جسم پرست، مادہ پرست، اور علم دشمن بنا دیتے ہیں۔ غلامی قوموں میں فرقے، گروہ، اور نسلوں کو لڑوا کر ان کی طاقت ایک متفقہ اجتماعی منزل سے دور کر دیتی ہے، اور قومیں انفرادیت پسندی کا شکار ہو کر اجتماعی منزل کی طرف آتے آتے کئی نسلیں لگا دیتی ہیں۔
حوالہ جات