سماج، امن سے ترقی کرتا ہے۔ لیکن ریاست لفظ “امن” کی گہرائی سے کب واقف ہے۔ پرانے زمانے میں اگر امن جنگوں سے خراب ہوتا تھا تو آج کل یہ کام پٹرول مہنگا کر کے حاصل ہو جاتا ہے۔ امن ،بدامنی یا بے چینی کا الٹ ہے۔ معاشی بے چینی معاشرے میں خوف کو جنم دیتی ہے اور اس وقت ملک میں خوف پھیل چکاہے۔ سماج، انصاف سے ترقی کرتا ہے۔ لیکن ریاست لفظ انصاف کی گہرائی سے بھی کب واقف ہے۔ معاشی وسائل کی درست تقسیم جہاں بے چینی ختم کرتی ہے، وہیں انصاف پیدا ہوتا ہے۔ ہم بچت کرتے ہیں اور ریاست راتوں رات قیمتیں بڑہا کے ہماری بچت، ہماری جیبوں سے، قانونی طریقے سے نکال کے سوداگروں کی جیب میں ڈال دیتی ہے۔ سماج تعلیم سے ترقی کرتا ہے۔ لیکن یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کو ملک ہی چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ وہ اس ریاست کے اداروں سے بجلی کا میڑ بھی میرٹ پہ نہیں لگوا سکتے۔ تعلیم حاصل کرنے والوں کو ریاست کہاں سہارا دیتی ہے۔ کہاں تک ان کو کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کرتی ہے یا ادارہ جاتی مدد فراہم کرتی ہے؟ سماج کام سے ترقی کرتا ہے۔ لیکن یہاں سب سے زیادہ کام کرنے والا کسان، دن بدن مقروض ہوتا جاتا ہے۔ وہ مئی میں گندم بیچتا ہے اور جون میں وہی گندم 50 فیصد مہنگی ہو جاتی ہے۔ یہاں ریاست کی رٹ ایک کمزور ریڑی والے پہ تو چلتی ہے، لیکن بڑی کمپنیوں پہ نہیں۔ پڑول کی مصنوعی قلت اور قیمت کا بڑھنا، اس عمل کاایک ثبوت ہے۔ یہاں عدالت کرپٹ افراد کو علاج کے بہانے باہر بھیج دیتی ہے اور ان کیسز کی کوئی پیروی نہیں ہوتی ہے۔ یہاں ریاست کی رٹ کمزور پڑ جاتی ہے۔ یہاں پولیس پہ لوگوں کو اعتماد نہیں، عدالت پہ اعتماد نہیں، سیاست پہ اعتماد نہیں اور اب تو علاج پہ بھی اعتماد نہیں۔ یہاں سفر انفرادی ہے، اپنی کار۔ یہاں تعلیم انفرادی ہے، اپنی ٹیوشن۔ یہاں نماز انفرادی ہے، اپنی مسجد ۔ ریاست نے اجتماعی نظام بنانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
یہاں الجھایا گیا ہے۔ یہاں الزام فرد پہ ہے۔ یہاں ریاست نے اپنا دامن جھاڑا ہوا ہے۔ یہاں سرمایہ کی بدترین حکمرانی ہے۔ یہاں آزادی 14 اگست کو منائی جاتی ہے۔ جبکہ یہاں کا ” وزیر” بھی بین الاقوامی اداروں اور طاقتوں کی مرضی سے بنتا ہے۔ یہ ریاست کی آزادی پہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ سٹیٹ بنک کا گورنر تک ریاست کے والی کی مرضی سے نہیں بنتا۔ یہاں 75 سال سے جس مذہب کو اسلام بنا کر پیش کیا گیا، اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جہاد کے نام پہ فساد کا سلیبس مغربی اداروں سے بنتا ہے۔ یہاں کی اسلامی بنکنگ کی تھیوری برطانیہ میں لکھی جاتی ہے۔ اسلام کا سیاسی استعمال اور اس فکر کی تباہی شائد اکیلی بیرونی طاقتیں نہ کر سکتیں، اگر ریاست کے رہبر شامل نہ ہوتے۔ یہاں ریاست پہلے مطالعہ پاکستان میں تمام ہندوؤں سے نفرت سکھاتی رہی ہے، اب عوامی پیسے سے دارالخلافہ میں مندر بنا رہی ہے۔ آخر یہ ریاست کیا کرنا چاہتی ہے؟اس کی منزل کیا ہے؟ کون لوگ اس کی نظریاتی سمت کا تعین کرتے ہیں؟ کیا موجودہ سمت سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے؟ سماج کی ترقی اور ارتقاء میں ریاست کا بنیادی ہاتھ ہوتا ہے۔ ریاست ماں ہوتی ہے۔ سب کی سانجھی۔ ریاست میں کچھ چہرے سامنے ہوتے ہیں اور کچھ پس پردہ ۔ یہاں ریاست قائم کرنے والی پوشیدہ طاقتیں کس کی وفادار ہیں؟بڑی کارپوریشنز کی؟ عام آدمی کی؟یا بین الاقوامی طاقتوں کی؟ یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔
سرمایہ داری نظام معاشرے کو چلانے کی ایک تھیوری پیش کرتا ہے۔ اس سے دولت اور طاقت پیدا ہوتی ہے، لیکن کل انسانیت کے لیے نہیں۔ یہ بات طے ہے اور تجربے سے ثابت ہو چکی ہے۔ اس لیے انسانیت کی ترقی کے لیے یہ نظام ایک غیر فطرتی ہے۔ الیکشن کے ذریعے جن سیاسی گھرانوں کو باربار لیبل بدل کر آگے لایا جاتا ہے، یہ کوئی مستقل حل نہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ ان میں سے اکثر سیاسی گھرانے بیرونی طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔ ان کا تاریخی پس منظر قومی خدمت کی بجائے ذاتی مفادات ہی رہے ہیں اور یہ طبقے قومی غداری کے مرتکب ہیں۔ انہوں نے آج تک اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کیمرج کو دی ہوئی ہے اور کوئی متبادل لائحہ عمل ان کی طرف سے نظر نہیں آ رہا ہے۔
غلامی کا نظام ایک فلاسفی رکھتا ہے۔ اس کے اپنے شعائر ہوتے ہیں۔اس میں ایک ماسٹر ہوتا ہے اور ایک سرونٹ۔ سرونٹ کی ذہن سازی بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے۔ ایک وقت کا ماسڑ دوسرے وقت میں سرونٹ بھی بن جاتا ہے۔ غلامی کے نظام میں مہرے پالے جاتے ہیں، جو اپنے سے بالا طاقتوں کے مقاصد اپنے چند مفادات کےلیے پورے کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ غلام معاشرے کو تھوڑی بہت مادی ترقی بھی دی جاتی ہے۔ کچھ چھوٹ اور فائدے بھی دئیے جاتے ہیں۔ غلامی کے اس نظام میں مذہب کی وجہ سے غلام سے بھید بھاؤ نہیں کیا جاتا ،اگر وہ آقا کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے تیار رہے ۔ غلامی کے نظام میں غلامی کے درجے ہیں ۔ کچھ غلام تو اپنی تخلیقی صلاحیتیں کھو دیتے ہیں۔ کچھ اپنی دھرتی سے نفرت کرتے ہیں۔ اپنی زبان، لباس یا حلیہ بھی بدل دیتے ہیں۔ گرمیوں میں بھی کالےکوٹ پہنے جاتے ہیں ۔ کچھ غلام اپنی ظاہر حالتوں کو نہیں چھوڑتے اور آقا کے سیاسی و معاشی مفادات کو پورا کرتے ہیں۔ لیکن سب غلاموں کی مشترکہ خصلت یہ ہوتی ہے کہ وہ ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ خود داری ختم ہو جاتی ہے اور قومی مفادات کو داؤ پہ لگا دیتے ہیں۔
پاکستان کی ریاست، جس کی آبادی 22 کروڑ ہے، روس یا ترکی سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن ہم 22 کروڑ کو بزدل بنا دیا گیا ہے۔ ہم میں بہادری کا وصف مارا جا رہا ہے۔ لیکن اب ہمارے نوجوان کو سوچنا ہو گا کہ آنے والا وقت بہت بدترین ہوگا۔ ہم 22 کروڑ کے کئی مسائل ہیں۔ ہم سب ملک چھوڑ کے دبئی یا کنیڈا نہیں جا سکتے ہیں۔ یہ مسائل مزید بڑھتے جائیں گے۔ موجودہ نظام کے پیچھے کوئی قومی طاقت نہیں جو ایک جاندار فلسفہ کی حامل ہو۔ غلامی کے معاشرے پہ قائم سیاسی، عدالتی، قانونی اور مذہبی نظام پاکستان کو پہلے ہی تقسیم کر چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب نوجوان تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے، نئے دور کے تقاضوں کے ہم آہنگ ایک نئے نظام کی سوچ پیدا کرے تاکہ ہم مزید جغرافیائی تقسیم سے بچ سکیں۔ نئی سوچ سےہی نئے عمرانی معاہدے کی بنیاد بن پڑ سکتی ہے۔ سوچ ہی سے دنیا پیدا ہوتی ہے۔ ورنہ موجودہ قیادت تو کبھی مندر بنواتی رہے گی اور کبھی گراتی رہے گی ۔
بقول شاعر