دنیا میں سب رشتوں سے بڑھ کر سب سے اہم ضروری اور قریبی رشتہ انسان کے اپنے وجود سے منسلک ہوتا ہے ۔اک یہی رشتہ ہمیں خدا کی پہچان سے لیکر ہمیں دنیاوی رشتوں کی پہچان کروانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔آج کے روایتی دور میں سب سے زیادہ گردوغبار جس رشتے پہ پڑی ہے وہ اک یہ رشتہ ہے ۔اگر اس کی مرمت کر لی جاۓ تو انسان اپنے کھوۓ ہوۓ سب رشتوں کو پاسکتا ہے ۔ہم نے اس رشتے کو ایک فالتو کردار سمجھ کر سٹور روم۔میں پھینک دیا ہے ۔ اپنے وجود سے منسلک ایک گہرا تعلق ہی ہمیں خود شناسی عطا کرتا ہے اور یہ خودشناسی ہمیں خدا شناسی کا اِک خاص تخفہ عطا کرتی ہے ۔خدا شناسی پھر ہمیں اپنے وجود کے ساتھ ڈھیڑوں رشتوں کی پہچان کروا کے ہمارے اندر احساسات پیدا کرتی ہے ۔
ہم لوگوں سے کیوں دور ہوچکے ہیں ؟
”کیونکہ ہم خود سے بہت دور ہوچکے ہیں“
اسلاف کی نظر میں خودشناسی کی اہمیت:۔رشتوں سے دوری کی روایات آج سے نہیں برسوں پہلے سے شروع ہوئی جب سے انسان خودغرضی کی راہ پہ نکل پڑا لیکن اس رواج نےآج حد درجہ تک مقام پالیا۔
استاد محترم اشفاق احمد صاحب فرماتے ہیں۔
”اگر تمہارے پاس کچھ نہیں تو اپنے وجود کو اپنے آپ کو ہی شیئر کر لو۔یہ چیز تو کم ازکم ہر ایک کے پاس ہوتی ہے۔یہ تو کہیں سے جاکر نہیں لانی پڑتی۔اس میں حصہ بنا لو،اپنا یاتھ لمبا کرو،آگے بڑھاؤاور ہاتھ ملاؤ۔یہ مت سوچو کہ یہ اجنبی ہے،ناشناسا ہے۔ جونہی تم اس سے حصہ بٹاتے ہو اور ہاتھ ملاتے ہو ،وہ اجنبی نہیں رہتا“ یہ خودشناسی ہی انسان کو اپنی نظر میں معتبر)عزت دار (بناتی ہیں ۔اور جب انسان اپنی نگاہ میں مقام پالے تواس میں ایسا اعتماد آجاتا ہے کہ جو اس کے لیے ممکن نہ ہو وہ بھی کر جاتا ہے ۔اپنی تمام کوتاہیوں اور کمزوریوں کو خدا حافظ کہنے کی ہمت پالیتا ہے ۔جب یہ ہمت آجاتی ہے تب انسان کی راہیں کھلتی جاتی ہیں ۔مالک کائنات کی نظر میں اس کا مقام اسی ایک کاوش کی بدولت بنتا ہے ۔یہ خودشناسی ہی تھی جس کی بدولت استاد محترم اشفاق احمد صاحب فرماتے ہیں۔ ”میں جانتا ہوں کہ میں کچھ تو ہوں کیونکہ میرا رب کوئی چیز بے کار نہیں بناتا “ جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ میں کچھ تو ہوں تب ہم اس خودشناس جیسے عظیم رشتے کو پالیتے ہیں۔
استاد محترم قاسم علی شاہ فرماتے ہیں۔
”زندگی صدیوں،سالوں اور مہینوں میں نہیں بدلتی بلکہ زندگی اسی لمحے بدل جاتی ہے جس میں” آپ“ زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں“ ہماری زندگی کی ہر مسائل کا حل ہمارے اپنے ہی وجود سے منسلک ہوتا ہے اور ہم اپنے ہی قید بن کر دنیا کو فتح کرنے نکل پڑتے ہیں۔جب تک ہم اپنے آپ پہ فتح نہ حاصل کر لیں۔اپنے ہی وجود کو نہ پالیں۔نفس کی جنگ میں فتح نہ حاصل کر لے۔ہم ہزاروں فتوحات کے باوجود ناکام ہیں۔سب سے پہلی فتح اپنے ”وجود کی فتح “ ہے۔اس فتح کے بعد ہم اپنے اخلاق و روایات کو بدلتے ہوۓ سب کچھ پالیتے ہیں۔
استاد محترم اشفاق احمد صاحب فرماتے ہیں۔
انسان پریشان ہوتا ہے راستہ بدل لیتا ہے، دوست بدل لیتا ہے، منزل بدل لیتا ہے،ارادہ بدل لیتا ہے، لباس بدل لیتا ہے حتی کہ گھر بدل لیتا ہے مگر افسوس ” خود کو نہیں بدلتا “ خود شناسی انسان انسان بننا سیکھاتی ہے۔انسان کی اپنی آنکھ اپنے وجود پہ کھول دیتی ہے۔جہاں انسان غلط ہوتا ہے لال بتی کا نشان دیکھاتی ہے ۔خطرے کا الارم بجا کر سوۓ ہوۓ کو جگا دیتی ہے۔پھر انسان کا پریشانی میں خود کو بدلنا آسان ہوجاتا ہے ۔ضمیر اور خودشناسی کا آپس میں گہرا تعلق ہےمیرا ماننا ہےکہ ”ضمیر ایک چھپا ہوا احساس ہے اکثر لوگوں کا سویا ہوتا ہے۔اگر اپنے اندر ایک دفعہ آواز دیکر اٹھا لیا جاۓ نہ تو پھر یہ ہمیں سونے نہیں دیتا۔ہماری ہر خطا پہ ہمیں جاگاتا رہتا ہے ہماری ہر غلطی پہ ہمیں بے سکون کر دیتا ہے“۔انسان کو اپنے وجود کو جھانکنا آجاۓتو وہ دوسروں کے احساسات سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔اسی لیے رشتوں کی اہمیت میں سب سے اہم اور ضروری رشتہ انسان کا اپنے آپ سے منسلک رشتہ ہے اگر یہ رشتہ مضبوط ہے تو سب رشتے خود سمجھ آنا شروع ہوجاتے ہیں۔پھر رب کی پہچان ہوتی ہے۔اسکےمحبوب سے منسلک رشتہ سمجھ آنا شروع ہوتا ہے۔والدین کی اہمیت ،رشتہ داروں کے تعلقات کیا ہیں۔ان کے حقوق کیا ہے؟ رفتہ رفتہ سب واضح ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔