اگر هم زندگی میں اک نظر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو هم اس احساس کاشکار هونے سے بچ نھیں پائیں گے که کوئی هے جو تاریک گلیوں میں ٹارچ لیے کھڑا رهااور پیچھے سے پڑنے والی روشنی همیں دور تک تاریکی سے نجات دلانے کا ذریعه بنتی رهی….ضروری نھیں یه روشنی دیکھانے والا همارے سامنے کلاس میں بیٹھا استاد هی هو…..رهبر اور رهنما کا تعلق پڑهانےسے قطاً نھیں هوسکتا …رهبر تو راه دیکھانے اس راه کے لیے جوش ولوله پیدا کرنے اور همیں اس راه کے سفر کی طرف روانه کرکے پیچھے چراغ لیے کھڑے هونے جیسے عظیم کام سے منسلک هے…اگر هم مڑ کر دیکھیں تو کبھی همیں کسی دوست میں رهبر نظر آۓگا کبھی همیں کسی کے تعریف بھرے کلمات هی رهبر نظر آئیں گے …کبھی کبھی تو ایسا هوگا که همارے والدین هی همیں رهبر کے روپ میں دیکھائی دیں گے ….اگر هم گھرائی میں جانے والے انسان هوۓ تو ممکن هے که همیں ایک ان پڑھ جاهل جس کو دنیا حقیر سمجھ رهی هو وهی رهبر کے روپ میں نظر آۓ …خدا کے ایک نیک بندے سے کسی نے سوال کیا که آپ کی زندگی کی تبدیلی کی وجه کیا بنی تو کہنے لگے مجھے ایک مکھی نے سیکھا دیا که زندگی کیسے گزارنی هے ….شھد کی تو مجھ په یه بات واضح هوگئ که شھد کی مکھی سے مومن کو تشبیه دی گئی تو جب میں نے غور کیا که شھد کی مکھی کیا هے۔مکھی جب بیٹھتی هیں تو پھولوں په بیٹھتی هے اور اگر وه کچھ منه سے نکالتی هیں تو وه بھی اتنی پاک چیز اور اچھی چیز “شھد” ….اور مجھے شھد کی مکھی نے سکھایا که میں مجلس بھی پھولوں جیسی رکھوں اورجب منه سے کچھ نکالوں تو وه بھی شھدجیسا میٹھا لذیذ اور پر اثر….کہتے هے که مکھی میری رهبر بنی اور تب سے میں نے گناه کرنے چھوڑ دیے….
محترم قارئین !بتانے کا مقصد یه هے که همیں کبھی کبھی زندگی میں ایسے خیالات پالیتے هیں جس سے همیں یوں محسوس هوتا هے که هم نے حالات کا مقابله اپنے بل بوتے په کیا اور هماری زندگی میں راهوں کو روشن کرنے والا کوئی نہیں آیا …ایسا کہناقطعانا مناسب هوگا کیوں که خدا هماری هدایت کا ذریعه کسی رهبر کے روپ میں همیں ضرور عطا کرتا هے ….همیں وقتا فوقتا اپنے رهنماکو تلاش کرتے رهنا چاهیے..کیوں کہ ضروری نہیں که هماری هر کامیابی کے پیچھے ایک رهبر هی هو…اور جب هم اپنی تلاش کو پالیں تو اس کے فیض کو مزید حاصل کرنے کے لیے اس کا دل سے ادب کریں …اگر کسی سے فیض حاصل
کرنا هو تو اس کی مخالفت کاسوچئےبھی نه …. اس کے پیٹھ پیچھے اس کی بات کرنے یا دل میں اس کے لیے بغض رکھنے سے فیض کبھی حاصل نھیں هو پاۓ گا …کبھی کبھی تو رب العالمین رهبر کے ادب کرنے سے هی نوازشیں کرتا رهتا هے….اور میں اکثر کہاکرتی هوں…
“زندگی میں کسی اچھے رهبر کامل جانا بھی خدا کی بہت بڑی نعمت هے”اور پیروکار کا فریضه اول هے که رهبر کے احسانات کو فراموش نه کرے یه چیز اسے خود پرستی میں دھکیل سکتی هے …قیمتی تخفے تخائف دے دینا ادب کے فریضے کو پورا نہیں کرسکتا ..اس کے حق میں دعاۓ خیر اور دل سے اس کا ادب و احترام …زبانی و قلبی اور اس درخت کا پھل دوسروں لوگوں کو بھی دینا آپ کو اس کے احسانات کا کچھ حصه ادا کرنے کا موقع دے سکتا هے …ورنه وه جس صلاحیت سے همیں روشناس کرواتا هے اس کا حق هم ادا نہیں کرسکتے.۔
الله آپ کا حامی و ناصر