انسان کی زندگی کے ہر دور میں عسکری ماہرین نے لڑائیوں کے قواعد وضوابط وضع کئے ہیں۔ کسی نے سعی مسلسل کے ارتکاز کو عزیز جانا تو کسی نے جارحانہ انداز کو مقدم خیال کیا۔ یہ اصول ہر دور میں اپنی اپنی ضروریات کے پیش نظر وضع ہوتے رہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ رسالت ماب ﷺ نے جو بھی قواعد وضوابط وضع کئے ان کی پشت پر منشائے ایزدی کا رفرماہوتی تھی۔ آپﷺ کے وضع کردہ اصولوں میں نصب العین کی فضیلت، پیہم جدوجہد، صبر واستقلال، تحفظ اور احتیاطی تدابیر، انضباط، اطاعت اوردعائیں شامل ہیں۔
آپ ﷺ کی سیرت مطہرہ کے دوران میں جتنی بھی لڑائیاں لڑی گئیں ان میں فوجی نقل وحرکت کی تمام اقسام ملتی ہیں۔ کوئی بھی معرکہ فوج اوراس کے سپہ سالار کی قائدانہ صلاحیتوں کا ماحصل ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کی بھی ماہرانہ قیادت میں مسلمانوں نے اعلیٰ ترین قابلیت اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان میں دفاع،حملے، تعاقب، لڑائی سے علیحدگی ، رسائی، گشت، گھات لگاکر حملہ کرنا، قراولی، مخبری اور نفسیاتی جنگ وجدل وغیرہ سب ہی کچھ شامل تھا۔آپ ﷺ کی حیات طیبہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ مکی زندگی کا تعلق دل سے اور مدنی زندگی کا تعلق دماغ سے ہے۔ مدنی زندگی میں آپ ﷺ کو قریش کے علاوہ یہودیوں اور مدینہ کے پانچویں کالم کے ساتھ واسطہ پڑا۔ مشرک قبائل اپنی جگہ سرگرم عمل تھے اورچند سالوں کے بعد رومی بھی مدینہ پرحملہ آورہونے کے لئے تدابیر اختیار کرنے لگے۔ رومی اس وقت ایک سپرپاور تھے۔ اپنے نہایت ہی قلیل وسائل لیکن نہایت ہی اعلیٰ نصب العین کے ساتھ آپ ﷺ نے مدینہ سے باہر نکل کر بھی لڑائی لڑی اورمدینہ کے اندر محصور ہوکر بھی دشمن کا مقابلہ کیا۔ ان لڑائیوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ہر مسلمان کا زندہ رہنا اورشہادت پاجانا صرف اللہ ہی کے لئے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں انہوں نے جو بھی طریقے اختیار کئے وہ ہر اعتبار سے مؤثر تھے۔
وقت اور گہرائی کسی بھی حربی دفاع کے لئے بہترین رسائی رکھتے ہیں۔ کسی بھی صحرا میں آباد لوگوں کے لئے تجارت اورجنگ اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا بڑا ذریعہ ہوتی ہیں۔رسالت مآب ﷺ بھی عرب کے صحرا کے باسی تھے اس لیے زندگی کے اس لازمے سے آپﷺ بخوبی واقف تھے۔ آپﷺ نے ایک الہامی مشن کی تکمیل کرنی تھی۔ اس لیے آپ کی لڑائیاں جہاد فی سبیل اللہ تھیں۔ جن میں مال غنیمت کو خُمس کی وصولی کے بعد مجاہدین میں بانٹ دیا جاتا تھا۔ رسالے کو ترقی دینے کے لئے آپ ﷺ نے سوار کے ساتھ ساتھ گھوٹے کا حصہ بھی مقر رفرمایا۔ آلات حرب کی اقسام کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات فرمائے، آنے والے سالوں میںعربوں کی بنائی ہوئی زر ہیں اپنی صفت کی مہارت کی بناء پر مشہور ہوگئیں۔
فن حرب میں آپ ﷺ کی ماہرانہ قیادت آپ ﷺ کی کامیابی کی پوری پوری ضامن رہی کیونکہ اس حیثیت میں آپ ﷺ کی ذہانت وفراست کے ایسے ایسے گوشے ابھرتے ہیں جو ذہن پر ان منٹ نقوش پیدا کرجاتے ہیں۔ آپ ﷺ کی شجاعت، فن حرب میں مہارت اور تدبر وسیاست قابل رشک ہیں۔ آپؐ ﷺ کی زندگی کے ہر گوشے میں کمال حاصل کیا۔ آپ ﷺ نے دشمن پر قابو پانے کے لئے اپنے صحابہؓ سے مشاورت کی تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ اس خود اعتمادی کے بغیر آپ ﷺعسکری شعبے میں کیونکر کامیابی حاصل کرسکتے تھے؟ آپﷺ نے جو اقدامات اور طریقے اختیار فرمائے ان پر آپﷺ کے دوست اور دشمن دونوں ہی انگشت بدنداں ہوکر رہ جاتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’العلم سلاحی‘‘ یعنی علم میرا ہتھیار ہے۔ گویا آپ ﷺ نے تمام غیر اسلامی قوتوں کا مقابلہ علم کی قوت سے کیا۔آپﷺ نے جن باتوں کے متعلق مناسب سمجھا ان کو ظاہر کردیا اور جن کے متعلق ضروری خیال کیا انہیں صیغہ راز میں رکھا۔ لیکن انجام کاروہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ دس برس کی مختصر مدت میں آپ ﷺ نے بارہ لاکھ مربع میل کے وسیع وعریض علاقے کو مسخر کیا۔ ان غزوات وسرایاکی کامیابی کے پیچھے یقینا آپﷺ کا نہایت ہی کامیاب نظام جاسوسی کارفرما تھا۔
ہمیں سب سے بڑھ کر یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ آپ ﷺ اُمی تھے۔ ہجرت سے قبل آپؐ نے جنگ فجار کے سوا کسی جنگ میں شرکت نہ فرمائی تھی۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر سولہ برس تھی۔ یہ جنگ قریش کے دس قبائل اور صحرا جنوبی کے ایک قبیلے کے درمیان ہوئی تھی جس نے حرام مہینوں میں جنگ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپ ﷺاس موقع پر خوردسال تھے اورمحض اپنے چچا ابوطالب کو تیرپکڑا دیتے تھے۔ لیکن ایک دوسری روایت کے مطابق آپﷺ نے باقاعدہ طور پر لڑائی میں حصہ لیا تھا او رمخالف قبیلہ کے سردار بویریہ کو زخمی بھی کیا۔ہجرت کے بعد جب جہاد کا اذن ہوا تو آپ ﷺ کو کل اکیس قبائل سے نبرد آزماہونا پڑا جو عرب کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں ہر قبیلہ اپنی جگہ ایک آزاد خود مختارا کائی تھا۔ اس دور کے حالات سامنے رکھ کر انسان ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے کہ آپﷺ نے کس طرح اپنی افواج روانہ کی ہوں گی کیونکہ فوجی نوعیت کی معلومات کے بغیر کسی بھی قسم کا کوئی اقدام ممکن نہیں تھا۔
عصر حاضر کے سپہ سالار کے پاس اعانت کرنے والا جی ایچ کیو ہوتا ہے جہاں جہاندیدہ جرنیل لمحہ بہ لمحہ جنگ کے واقعات سے واقف ہوتے رہتے ہیں۔ وہ صرف اپنے احکام وامور کی بجاآوری سے باخبر رہتا ہے اور بس۔ اس کی ذاتی شجاعت کا دوردور کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے علی الرغم ماضی میں صورت حال بالکل اس کے برعکس ہوتی تھی۔