حقیقت پسندی زندگی کی ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جو اپنے نتائج میں زماں و مکان کی قید سے آزاد ہے۔اس کے برعکس جعل سازی ایک ایسا فریب ہے جو خودانسان اپنے آپ کو دیتا ہے۔
قرآن حکیم میں منافقین کے خدا کو دھوکہ دینے کے عمل کو خود فریبی سے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہ خدا کو دھوکہ دینے کے بجائے خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
جعل سازی کا دائرہ اگر فرد کے بجائے قوم اور معاشرے تک پھیل جائے تو اس کے نتائج بہت خطرناک اور بھیانک ہوجاتے ہیں اور پھر اگر ایک نسل دوسری نسل کو اس جعل سازی کو وراثت کے طور پر منتقل کرنے لگے تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ہم پاکستان میں کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں ہم بحیثیت قوم جعل سازی کی فریب خوردگی کے طرز عمل کا شکار ہیں آج ہمارے قومی مشاورت کے سب سے بڑے ادارے پارلیمنٹ میں حقیقی اپوزیشن کے بجائے ایک جعلی اپوزیشن موجود ہے جسے خود موجودہ حکومت نے جعلی طور پر اپنے مقابلے میں کھڑا کرکے حزب اختلاف کے کردار کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سے قبل اسی ادارے میں جس تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انتقال اقتدار کو رو بہ عمل لایا گیا وہ بھی مکمل طور پر انجینئرڈ تھا اور جس انتخابی عمل کے ذریعے یہ ادارہ وجود پذیر ہوتا ہے وہ انتخابی عمل ہمارے ہاں ہمیشہ مشکوک رہا ہے جو ہماری انتخابی تاریخ میں آج تک تمام پارٹیوں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکا۔
اس سارے عمل کے نتیجے میں جو جمہوری نظام ہم وضع کیے بیٹھے ہیں اس کی بنیادیں اتنی کھوکھلی ہیں کہ وہ آج تک وہ نتائج نہیں دے سکا جو دنیا بھر کے جمہوری نظام اپنے معاشروں میں دے رہے ہیں اور ہمارے ہاں سرے سے جمہوری نظام سے اعتماد ہی متزلزل ہورہا ہے۔
کیونکہ ہمارے ہاں اس پورے پروسیجر میں قبل از نتائج ایک حکمت عملی وضع کرلی گئی ہوتی ہے اسے بروئے کار لانے کے لیے انتخابی عمل کو ایک ڈھونگ کے طور پر رچایا جاتا ہے جو پارٹی اس کے ذریعے اقتدار کے ایوان تک پہنچ جاتی ہے وہ اپنے خیال میں جمہوری پودے کو پہلی بار جڑ پکڑنے کے مواقع فراہم کررہی ہوتی ہے اور جو پارٹیاں اقتدار سے باہر رہ جاتی ہیں وہ پورا عرصہ دھاندلی کے نام پر سینہ کوبی کرتی رہتی ہیں۔
نظریہ ضرورت اور مصلحت کیشی ہمارے عدالتی فیصلوں کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقی آزادی سے ہم کوسوں دور کھڑے ہیں تعلیم اور تاریخ میں ہم نے خود فریبی کی بنیاد پر حقیقت پسندی کو چھوڑ کر ریاست کے تن بدن پر خانہ ساز نظریات کا ایک پیراہن چڑھایا اور پھر ریاستی ضرورت کے لیے ہم دو قومی نظریہ اور مطالعہ پاکستان اپنی بے خبر نسلوں کے دماغ میں پچھلے ستر سال سے ٹھونس رہے ہیں ۔
ایسے ہی ذرا آپ غور کیجئے کہ زندگی کے کس کس باب میں ہم حقیقت کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر وقتی مصلحتوں کا شکار ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم مسائل سے نکل نہیں پارہے اور زمانہ کی دوڑ میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ مسائل کے حل اور نتیجہ خیزی کے لیے حقیقت پسندی آج بھی دنیا کی کامیابی کا سب سے مؤثر اصول ہے ۔
ہم درست سمت سفر کے لیے کب حقیقت پسندی کو اپنائیں گے اور دنیا کو دھوکہ دینے سے پہلے اپنے آپ کو دھوکہ دینا چھوڑیں گے ؟ اور نتائج کے جو فطری اصول ہیں انہیں نظریہ ضرورت کے سانچے میں فٹ کرنااور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بجائے انہیں ان کے نیچرل پراسس میں استعمال کرنا کب سیکھیں گے۔