ہمارے گرد و پیش کی دنیا‘ نِت نئے حادثات و واقعات کی زد میں رہتی ہے۔ ہم مسلسل قومی اور بین الاقوامی سطح پر تازہ بہ تازہ صورتِ حال کو ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ آج کی دُنیا ایک بستی کی مانند ہو چکی ہے۔ دنیا میں واقع ہونے والی صورتِ حال سے ہم سب براہِ راست یا بالواسطہ متأثر ہوتے ہیں۔ اس لیے دُنیا میں واقع پذیر واقعات سے آگاہ رہنا انتہائی اہم ہے۔ آج کے انفرمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں تیزی سے آنے والی خبروں میں غلط اور درست کا فرق کرنا بھی انتہائی اہم ہے۔ ورنہ پروپیگنڈے کے سیلاب میں بہہ جانا عین ممکن ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان تنازع ایک جنگی نوعیت اختیار کرچکا ہے، جس سے متعلق خبروں سے ہمارے ذرائع اِبلاغ بھرے پڑے ہیں۔ خبر محض خبر کے طور پر مقصود نہیں ہوتی، جب تک آپ اسے اس کے سیاق و سباق میں اپنے تجزیے کا ذریعہ نہ بنا سکیں۔ اس لیے خبر کا درست اور معتبر ہونا ضروری ہے۔ ورنہ غلط خبر اور پروپیگنڈا آپ کے تجزیے کو بھی پروپیگنڈے کا حصہ بنادے گا۔ ہمیں آج اس جنگی صورتِ حال میں محض روزمرہ کارروائیوں سے زیادہ اس کے اسباب، محرکات، پسِ منظر اور پیشِ منظرپر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے، تاکہ ہم درست نتائج تک پہنچ سکیں۔
ہماری دُنیا نظاموں کے ایک نظریاتی ڈیزائن پر کھڑی ہے۔ کچھ ملکوں کے دوسرے ملکوں سے اپنے اپنے نظریات اور مفادات کی بنیاد پر تضادات موجود ہیں۔ جب وہ تضادات روزمرہ معاملات میں اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں تو وہ تنازعات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ جیساکہ امریکا آج دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی حامل قوتوں کا نمائندہ اور لیڈر ہے۔ اسے یہ منصب استعماری ویژن سمیت برطانیہ سے منتقل ہوا۔ اس نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے استعماری عزائم کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے ایسے اقدامات اٹھائے، جس کے سبب وہ سفاک برطانیہ کا صحیح جانشین کہلایا۔ مثلاً اس نے 1949ء میں اپنے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو (NATO) کی بنیاد رکھی، جس میں 1954ء میں سوویت یونین کو _ باوجود اس کی خواہش کے _ شامل نہ کرکے دنیا کے ملکوں کے درمیان طاقت کے عدمِ توازن کو فروغ دیا۔ پھر 1955ء میں برطانیہ کے ذریعے معاہدۂ بغداد میں ایران، پاکستان اور ترکی کے ساتھ ساتھ بشمول عراق کے امریکا خود بھی اس معاہدے میں شامل ہوگیا، جس کا نام ’’سینٹو‘‘ کردیا گیا۔ جس کا بنیادی مقصد وسط ایشیا کے ممالک کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ اس طرح امریکا نے برطانیہ کو اپنا دُم چھلہ رکھتے ہوئے اس کی استعماری وراثت کے ساتھ دُنیا میں سرمایہ دارانہ بلاک کو منظم کرلیا۔
ایسے ہی دوسری طرف رُوس ہے، جو اشتراکی نظریے کا نمائندہ ہے۔ جو ماضی میں ’’سوویت یونین‘‘ کے نام سے بہت سے ملکوں کے اتحاد کا سربراہ اور رہنما رہا ہے۔ اس نے بھی وسطی و مشرقی یورپ کی اشتراکی ریاستوں پر مشتمل اقتصادی و فوجی تعاون کا ’’معاہدۂ وارسا‘‘ کروا کر خود بھی اس اتحاد میں شامل ہوگیا۔ معاہدۂ وارسا (Pact Warsaw) کا پسِ منظر یہ تھا کہ نہ صرف 1954ء کو یورپ میں امن کی خواہش کے تحت سوویت یونین کے نیٹو میں شمولیت کی خواہش کو ٹھکرایا گیا، بلکہ 1955ء میں مغربی جرمنی کو نیٹو اتحاد میں شامل کرلیا گیا، جس کے ردِعمل میں ’’وارسا پیکٹ‘‘ وجود میں آیا۔ گویا یہ سرمایہ دارانہ قوتوں کے اتحاد نیٹو (NATO) کا اشتراکی جواب تھا۔ اس طرح سے دُنیا میں دوبلاک وجود میں آگئے، جن میں ایک کی اَساس سرمایہ داری، جب کہ دوسرے کی بنیاد اس کے مد ِمقابل کے طور پر اشتراکیت پر قائم تھی۔
وارسا معاہدہ 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد باقاعدہ ایک اعلان کے ساتھ ختم کردیا گیا اور اس کی رُکن بہت سی ریاستوں نے نیٹو میں شمولیت اختیار کرلی۔ بنیادی طور پر تو اس مرحلے پر نیٹو (NATO) کو بھی ختم ہو جانا چاہیے تھا اور دُنیا کو جنگ کا میدان بنانے کے بجائے اس کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوششیں کرنی چاہیے تھیں، مگر امریکا بہادر نے نہ صرف اپنے فوجی اتحاد کو ختم نہیں کیا، بلکہ اسے جدید اور تباہ کن اسلحے سے لیس کرکے جھوٹی رپورٹس کی بنیاد پر بہت سے ملکوں میں باقاعدہ قتل وغارت گری کی۔ ان کی حکومتوں کو برباد کیا۔ وہاں کی سیاسی قیادت کو ناحق بے دردی سے قتل کروایا۔ اور مدتوں سے قائم ان کے سماجی ڈھانچوں کو توڑ کر انھیں دوبارہ قبائلی دور میں دھکیل دیا۔ یہ دراصل امریکا کو ملنے والی وہ وراثت ہے، جو برطانیہ نے انسانی خون سے رنگے ہاتھوں اسے منتقل کی ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک اسی تاریخ کا تسلسل ہیں، جو برطانوی کلونیل عہد کی نا خوش گوار اور ظالمانہ یاد ہیں۔ آج بھی وہ استعماری جذبے کے تحت دُنیا پر عالمی غلبے کے خواب سے نہیں جاگے۔
امریکا کی طرف سے یوکرین کو مسلسل اُکسانا، اسے نیٹو اتحاد میں شمولیت اور مراعات کا لالچ دینا، سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں میں اپنی کٹھ پتلیاں بنانا، یہ سب کچھ امریکا کے شرارتی اور فسادی ذہن کی کار ستانیاں ہیں، جنھیں کوئی بھی ملک اپنی قومی سلامتی کے خلاف برداشت نہیں کرسکتا۔ کیا امریکا اپنے کسی مخالف ملک کو کینیڈا یا میکسیکو میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے دے گا؟ خود تو وہ جھوٹی رپورٹس کی بنیاد پر عراق پر چڑھ دوڑا تھا کہ اس کے جوہری ہتھیاروں سے امریکی سلامتی کو خطرہ ہے۔
امریکی بزرجمہروں نے جس طرح سے یوکرینی قیادت کو بانس پر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی کھینچ لی ہے، اس سے یوکرینی قیادت کو بھی سمجھ جانا چاہیے کہ امریکا صرف آگ کا الاؤ جلانا جانتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی آبادیوں سے دور دوسرے ملکوں میں جنگ کا یہ کھیل کھیلے اور دنیا کو اقتصادی پابندیوں سے ڈرا دھمکا کر اپنے من پسند نتائج لے لے، لیکن اب دنیا کے بہت سے ممالک نے امریکا کی پابندیوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ وہ ڈالر کی معاشی غارت گری کے مقابلے میں کوئی نیا راستہ بھی کھوج نکالیں گے۔
جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں، بلکہ وہ مسائل پیدا کرتی ہیں۔ روس کو اس تنازعے کے فوجی حل کے بجائے دوسرے ذرائع پر غور کرنا چاہیے اور امریکا کو بالکل بھی ایسا موقع نہیں دینا چاہیے، جس کو بہانہ بناکر وہ دُنیا کے امن کو تباہ کردے۔ آج تمام ممالک پر لازم ہے کہ وہ معاشی خوش حالی اور امن کو دُنیا کی پہلی ترجیح قرار دیں۔
(شذرات ماہنامہ رحیمیہ لاہور ۔ مارچ 2022ء)